تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-11-2022

اب کیا کیا بتاؤں؟

طاقت کا بھی ایسا عجیب معاملہ ہے کہ اِس کے بطن سے پیدا ہونے والی نفسیات کو کوئی پوری طرح سمجھ سکا ہے نہ اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خصوصیات ہی کو۔ طاقت کا سرور جتنا خطرناک ہے اُس سے کہیں زیادہ خطرناک اِس کا خمار ہے۔ جب کسی کو طاقت ملتی ہے تو دماغ کام نہیں کرتا، خودسری بڑھتی جاتی ہے اور جب طاقت اپنی منطقی بلندی کو چھونے کے بعد نیچے آنے لگتی ہے تب دماغ کام نہ کرنے سے کچھ زیادہ انکار کرنے لگتا ہے۔دنیا نے کئی سپر پاورز دیکھی ہیں۔ ایک دور تھا کہ یونان علم و حکمت میں بہت بلند تھا اور اُس نے دنیا کو فکر و فن کے حوالے سے بہت کچھ دیا۔ تب علم و حکمت کے معاملے میں یونان اور عسکری قوت و حکمرانی کے معاملے میں روم بامِ عروج پر تھا۔ رومن سلطنت کا پھیلائو واقعی قابلِ رشک تھا۔ آج کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ جب مواصلات کے وسائل بھی برائے نام تھے اور پیغام رسانی بھی آسان نہ تھی تب رومن سلطنت نے خاصے وسیع رقبے پر راج کیا۔ پھر فارس (ایران) کی سلطنت ابھری۔ رومن سلطنت کمزور پڑتی گئی؛ تاہم کمزوری کی حالت میں بھی اُس کا مشرقی بازو اِتنا کمزور نہیں پڑا تھا کہ سب کچھ داؤ پر لگ جائے۔ ان دونوں سلطنتوں نے خاصے وسیع رقبے پر صدیوں تک حکمرانی کی۔ ایران کے مجوسیوں یعنی آتش پرستوں نے‘ جو بعد میں پارسی کہلائے‘ کئی خطوں کو زیرِ نگیں رکھا۔ اسلام نے ابھر کر اِدھر فارس اور اُدھر روما کی سلطنت کو زیرِ دام کیا۔ اسلام کی دولت سے سرفراز ہونے پر اہلِ عرب نے فقید المثال اعتماد کے ساتھ ایسی یلغار کی کہ اُس وقت کی دونوں سپر پاورز کا بوریا بستر گول کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ فارس کی سلطنت کو مسلمانوں نے یوں کچلا کہ خطہ تو باقی رہا؛ تاہم سلطنت کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ مسلمانوں نے سلطنتِ روما کے مشرقی بازو (شام) کو بھی زیر کر لیا۔
فارس اور روما کو شکست کیوں ہوئی؟ کیا صرف اس لیے کہ مسلمان بہت طاقتور تھے؟ یا اُن میں لڑنے، جان لُٹانے کا جذبہ بہت زیادہ اور قوی تر تھا؟ یقینا یہ دونوں معاملات بھی تھے مگر اِن سے کہیں بڑھ کر معاملہ تھا اِن دونوں سلطنتوں کی اندرونی کمزوریوں کا۔ دونوں ہی سلطنتیں جبر کی بنیاد پر کھڑی تھیں۔ کروڑوں انسانوں کو کچل کر، اُن کے تمام حقوق کو پیروں تلے روند کر یہ سلطنتیں مضبوط ہوئی تھیں۔ دونوں سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جب مسلمان ابھرے تو کچلے ہوئے لوگوں نے اُن کی یلغار کو اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سے تعبیر کیا اور مسلمانوں کے مقابل اپنی افواج کی مدد کرنے سے احتراز کیا۔ یہ فطری ردِعمل تھا۔ وہ مسلمانوں کو کچلنے میں مدد کرکے اپنی اپنی سلطنتوں کے حکمرانوں کے ہاتھوں مزید غلامی سہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ہر سلطنت کو اندرونی کمزوریوں کا بوجھ ہی لے ڈوبتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی سلطنت اِتنی بڑی اور طاقتور ہو جاتی ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالنا اُس کے لیے ممکن نہیں رہتا اور تب کوئی ایک کمزور لمحہ وارد ہوکر اُسے لے ڈوبتا ہے۔ فارس اور سلطنتِ روما کے لیے کمزور لمحہ تھے مسلمان۔ آج امریکہ اور یورپ کے لیے کمزور لمحہ ہے چین۔ تعقل پسند اور روشن خیال ہونے کا دعویٰ کرنے والا مغرب آج چین سے اس قدر خائف ہے کہ اُس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ کب کس طور ردِعمل دکھائے۔ کبھی چین کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی اُسے بدنام کرنے کی کوشش پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ کبھی چین کو اُکسانے یا ورغلانے کی کوشش میں دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بالکل وہی ردِعمل ہے جو کوئی دُکھیاری اپنے دُکھڑے بیان کرتے وقت ظاہر کرتی ہے۔
چین کا نام آتے ہی مغرب کی ساری روشن خیالی دم توڑ دیتی ہے۔ امریکہ اور یورپ دونوں ہی خطوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں تنگ نظری سے شدید نفرت ہے۔ یہ دونوں خطے دنیا کو وسیع النظری کا درس دیتے نہیں تھکتے مگر جب چین کا نام آتا ہے تو اِن کی ساری وسیع النظری خدا جانے کس کونے میں جا چھپتی ہے۔ دونوں ہی خطوں کے اعصاب پر چین یوں سوار ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اُترے بھی کیسے؟ چین نے حالات ہی کچھ ایسے پیدا کر دیے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ دونوں کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی محال ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں سکون کی راہ کیسے نکلے؟مغربی دانشوروں کی ''ٹون‘‘ چین کے معاملے میں ہمیشہ تلخ ہی نہیں بلکہ غیر ضروری حد تک ماتمی بھی رہی ہے۔ چین کے ارادوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے معاملے میں مغرب کے دانشور اور تھنک ٹینک نام نہاد حقائق بیان کرتے وقت وہی طریق اپناتے ہیں جو کوئی دُکھی، حالات کی ماری عورت کسی پڑوسن سے گفتگو کے وقت اپناتی ہے۔ کوئی بھی پریشان حال عورت اپنا دُکھ بیان کرتے وقت حقیقت کم بیان کرتی ہے اور رونا پیٹنا زیادہ کرتی ہے۔ مغرب کے انتہائی روشن خیال دانشور بھی چین کے معاملے میں ایسے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ ساری روشن خیالی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نالہ و شیون کرتے کرتے یکسر ماتم کرنے لگتے ہیں۔ اُن کی گفتگو سے بھی بین جھلکتا ہے اور تحریر سے بھی۔ چین اُن کے اعصاب پر ایسا سوار ہے کہ جب وہ کچھ کہنے بیٹھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ وہ دنیا کو بولنے اور لکھنے کا ڈھنگ دینے کے دعویدار ہیں۔ چین کے معاملے میں اُن کی ساری تربیت اور شائستگی منہ چھپاکر کہیں دور جا بیٹھتی ہے اور وہ خالص بچکانگی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔
مغربی میڈیا کے ذریعے چین اور چند اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور وہ بھی خاصے بے ڈھنگے انداز سے۔ سارا زور چین کو بدنام کرنے پر ہے اور وہ بھی بچکانہ الزامات کے تحت۔ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا روتے مغربی دانشور نہیں تھکتے مگر کبھی اپنے قالین کو سرکا کر نہیں دیکھتے کہ اُس کے نیچے کتنی گندگی چھپی ہوئی ہے۔چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے آگے بند باندھنے سے کہیں بڑھ کر اہلِ مغرب کو صرف بین کرنے اور کیڑے نکالنے کی سوجھ رہی ہے۔ چین ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والا ملک ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو بنیادی سہولتیں ڈھنگ سے مہیا کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اِس کارنامے کو سراہنے اور مجموعی طور پر چینی معاشرے کو پُرسکون رکھنے میں کامیاب ہونے پر چینی قیادت کو سراہنے کے بجائے مغربی دانشور، لکھاری اور تجزیہ کار یہ ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں کہ چینی قیادت عفریت ہے جو اپنے ہی لوگوں کو کچل رہی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی مجموعی آبادی بھی چین سے کم ہے مگر پھر بھی وہاں بہت سے معاملات میں نا انصافیاں ہیں، اختلافات ہیں۔ چینی معاشرہ اب تک خاصا پُرسکون رہا ہے۔ چینی قیادت نے عام چینی باشندے کو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے تفکرات سے بے نیاز کردیا ہے۔ یہ بجائے خود اتنی بڑی بات ہے کہ اِسے مثال بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تاکہ کمزور معاشرے کچھ سیکھیں اور اصلاحِ احوال پر مائل ہوں۔
امریکہ اور یورپ نے مل کر کم و بیش سات عشروں سے بھی زیادہ مدت سے دنیا بھر میں خرابیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کمزور معیشتوں کو کمزور تر کرنے اور دبوچے رکھنے کے لیے کون کون سے ہتھکنڈے نہیں اپنائے۔ عالمی اداروں کے ذریعے مغربی طاقتوں نے اپنی مرضی کا کھیل جاری رکھنے پر بھرپور توجہ دی ہے۔ درجنوں معاشروں اور ریاستوں کو مغرب کی بے رحمی اور سفاکی نے تہس نہس کیا ہے۔ مغرب میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے اور سچ کو تقریر و تحریر کے ذریعے سامنے لانے والے دانشور خال خال ہیں۔ عالمی سیاست و معیشت میں مغرب نے جو گھناؤنے کھیل کھیلے ہیں وہ مغربی تہذیب و تمدن کے ماتھے کا داغ ہیں۔ یہ وقت چین کو مطعون کرنے اور اُس میں کیڑے نکالنے سے کہیں بڑھ کر امریکہ اور یورپ کی چیرہ دستیوں کو طشت از بام کرنے اور اِن کے سدباب کے لیے متحد ہونے کا ہے۔ چین نے عالمی سیاست و معیشت میں ایسا کچھ نہیں کیا ہے کہ اُس کے نام کا رونا رویا جائے۔ مغرب کے دانشوروں، تجزیہ کاروں اور لکھاریوں کو اِس حوالے سے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ کمزور معاشرے چین کے وجود کو نعمت سمجھتے ہوئے اُس کی طرف بڑھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved