ہندوستانی فلم میوزک نے 1930ء کی دہائی میں اپنا صحیح روپ نکالا۔فلمی دنیا کا مرکز تب کولکتہ تھا اور وہیں پہ بہترین فلمیں بننے لگیں۔ ان فلموں کا بیک گراؤنڈ تو بنگالی لٹریچر اوربنگالی تھیٹر تھا۔ بنگالی کلچر کا عنصر اُن میں نمایاں تھا۔فلمی دنیا میں جو اپنی قسمت آزمانے نکلتے وہ کولکتہ کا رخ ہی کرتے تھے۔ اُسی شہر میں دنیا بے بی نورجہاں سے متعارف ہوئی۔ممبئی فلمی دنیا کا مرکز تھوڑی دیر بعد بنالیکن اُس سے پہلے راج بنگالی سینما کا ہی تھا۔
جموں میں پیدا ہونے والے کندن لال سہگل کے والد مہاراجہ جموں و کشمیر کی سروس میں تحصیل دار تھے۔اُس زمانے میں تحصیل دار بڑا عہدہ ہوا کرتا تھا اور کندن لال کے والد بھی سمجھتے تھے کہ بیٹا بڑا ہوگا تو کوئی سرکاری نوکری ووکری کرے گااور سرکار کی سروس میں ہی اپنا نام بنائے گا۔یہاں بات بالکل مختلف تھی‘ کندن لال کھویا کھویا رہتا‘ پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی‘ اپنی ماں کیسرا بائی کے ساتھ مندروں میں چلا جاتا اور وہاں بھجن وغیرہ ماں گاتی اور ساتھ کندن لال بھی اُنہی گیتوں میں شریک ہو جاتا۔ آواز خدا کی دین تھی اور چھوٹی عمر میں ہی پتا چلنے لگا کہ لڑکا اچھا گا لیتا ہے۔جموں میں ایک پیر صاحب ہوا کرتے تھے‘ سلمان یوسف‘ جن کے پاس کیسرابائی حاضری دیا کرتی تھی اور جب چھوٹے کندن لال پیر صاحب کے سامنے لائے گئے تو سلمان یوسف نے دیکھتے ہی کہا کہ بڑا گَویّا بنے گا۔ بڑاگَویّا کیابننا تھا‘ بارہ تیرہ سال کی عمر میں سہگل اپنی آواز کھو بیٹھے‘ یعنی آواز بیٹھ گئی اور سُر کے قابل نہ رہی۔ پریشانی کے عالم میں کیسرابائی کندن لال کو لے کے پیر سلمان یوسف کے پاس پہنچی اور یہ سارا ماجرہ بیان کیا۔ پیرصاحب نے چھوٹے سہگل سے کہا تھا کہ تم نے ریاض اس خاص طریقے سے کرنا ہے۔ پوچھا کہ ایسا ہی کیا جیسے میں نے کہا تھا ؟ سہگل نے نفی میں سرہلایا تو پھر پیرصاحب نے کہا: اب تم نے اس انداز سے ریاض کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ دو سال کے عرصے تک سہگل ایسے ہی ریاض کرتا رہا اور خدا کا کرناتھا کہ آواز واپس آ گئی۔
آواز تو واپس آ گئی لیکن تحصیل دار صاحب کے تیور بڑھتے ہی گئے۔ بیٹے سے سخت نالاں تھے کیونکہ توجہ نہ پڑھائی پر نہ والد صاحب کی نصیحتوں پر۔یہ تو نہیں پتا کہ ڈانٹ ڈپٹ ہوتی تھی یا نہیں لیکن یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ گھروں میں جب ایسی ناچاقی ہو جائے تو ماحول خراب ہو جاتا ہے۔والد کچھ کہہ رہا ہوتا ہے بیٹے کا من کچھ اور کرنے کو ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی کیفیت تھی اور اس کی سنگینی یہاں تک پہنچی کہ کم عمری میں ہی سہگل گھر چھوڑ کے چلے گئے۔ ریلوے میں ٹائم کیپری کی‘ شملہ جاکر چھوٹے موٹے تھیٹروں میں گانا اور ایکٹنگ کی‘ وہاں سے کانپور چلے آئے اور وہاں ایک پھیری والے بن گئے۔دکان سے کپڑا اٹھاتے اور گلی گلی آواز دے کے کپڑا بیچنے کی کوشش ہوتی۔وہاں سے مارے مارے سہگل کولکتہ آئے اور شروع دنوں میں وہاں بھی پھیری پہ ساڑھیاں بیچتے تھے۔رنجیت مووی ٹون بڑا سٹوڈیو ہوا کرتا تھا‘ وہاں کے چکر سہگل اکثر لگاتے لیکن فلم سٹوڈیوز کے چکر لگانے والے تو بہت ہوتے ہیں۔ سہگل پر کس نے دھیان دینا تھا۔لیکن کہیں محفل ہوتی اور سہگل کو جانے کا موقع ملتا تووہاں اُس کے گانے کی فرمائش ضرور ہوتی۔یہ کہنا بھول گیا کہ کہیں اپنے پھیری والے کاموں کے بیچ میں سہگل نے ریمنگٹن ٹائپ رائٹرکی سیلز مینی بھی کی۔
بہرحال سہگل کے ایک جاننے والے تھے‘ حریف چند بالی جو کہ اُس زمانے کے عظیم میوزک ڈائریکٹر آر سی بورال کو جانتے تھے۔ اُنہوں نے کئی بار بورال سے کہا کہ ایک نوجوان پنجاب سے آیاہوا ہے اُسے سن تو لیں۔ بنگالیوں کو اپنے کلچرپر بڑا ناز تھا اور بورال کے دل کو یہ بات نہ لگی کہ کوئی پنجابی لڑکا ہے اور اُسے سنا جائے لیکن جیسا ہمارا یقین اور ایمان ہے ہرچیز کا وقت مقرر ہوتا ہے اور شاید سہگل کا وقت بھی مقررتھا۔ایک دن اُس کا آڈیشن کرا ہی لیا گیا اور کہتے ہیں کہ جب سہگل نے گایا تو وہاں موجود حاضرین پہ سکتہ طاری ہوگیا۔ایسی آواز کسی نے نہ سنی تھی۔ پھر فلموں میں بھی آنے لگے۔ جیسے ایکٹر خوبرو اور ہینڈسم ہوتے ہیں سہگل ایسے نہ تھے لیکن پرسنیلٹی ضرور تھی اور ایکٹنگ بہت ہی نیچرل اور دل کو موہ لینے والی تھی۔پہلی دو تین فلمیں اتنی کامیاب نہ رہیں لیکن فلم بھکت سورداس میں سہگل نے جو تین چار گانے گائے اُن سے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا۔
ظاہر ہے جو اُس زمانے کی فلمی موسیقی کے دلدادہ ہیں وہ سہگل کے گانے سنتے آئے ہیں لیکن بات میں کرنا چاہ رہا تھا سہگل کی فلموں کی۔ بیس سال کی عمر سے میں سہگل کے گانے سنتا آ رہاہوں لیکن یوٹیوب پرہرچیز کے موجود ہونے کے باوجود کبھی سہگل کی کوئی مکمل فلم نہ دیکھی۔بس یوں سمجھئے پچھلے ہفتے ہی لاہور میں بیٹھے اچانک سہگل کی تان سین دیکھنے کا جی چاہا۔ کیا بتاؤں کیا کیفیت اُس فلم نے طاری کی۔ایک تو سہگل کی گائیکی‘ ساتھ خورشید بانو کی گائیکی اور ایکٹنگ لیکن فلم کا آدھا جادو کھیم چند پرکاش کی موسیقی میں ہے۔ بڑے سنگیت کار ہندوستان اور پاکستان میں آئے ہیں‘ بڑے بڑے نام ہیں‘لیکن کھیم چند پرکاش کا نام صفِ اول میں ہی آئے گا۔میں فلم دیکھتا گیا تو فوراًاپنی بیٹی رابعہ کو فون کیا۔ اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے جو کہ اب پانچ ماہ کا ہوگا۔میں نے رابعہ سے کہا کہ فلم تان سین ڈاؤن لوڈ کرلو اور بس لگا دیا کرو کہ موسیقی کی آواز تمہارے بیٹے چنگیز کے کانوں میں پڑے۔ شروع سے آخر تک تان سین کی موسیقی ایک مکمل تعلیم ہے۔اُس سے اوپر یہ کہ ایسی بہترین فلم ہے‘ ایسی لاجواب ایکٹنگ دونوں سہگل اور خورشید بانوکی۔کہانی بھی اتنی عمدہ اور پھر سب سے مزے کی بات کہ اختتام کوئی ٹریجک نہیں خوشی والا ہے جہاں تان سین اور اُس کی تانی آپس میں مل جاتے ہیں۔
تان سین کے گانے مشہور ہیں ان کی تفصیل میں کیا جانا۔اکبر کے دربار میں تان سین پہلی بار آتا ہے تو دربار کے پرانے گویّے جو حسد میں جل رہے ہوتے ہیں طنزاً پوچھتے ہیں کہ کون سے ساز بجانے ہیں اور تان سین کہتا ہے: گانے میں کچھ ہو تو ساز خودبخود بول پڑتے ہیں۔سب حیران ہوتے ہیں لیکن جب تان سین 'سَپت سُرن تین گِرام‘گانا شروع کرتا ہے اور پھر آواز کی لے اٹھتی ہے تو آہستہ آہستہ ساز خودبخود بجنے لگتے ہیں۔کیا منظر ہے وہ اور کیا حیرانی چھا جاتی ہے اکبرِ اعظم کے چہرے پر۔
ایسی ہی کیفیت تب ہوتی ہے جب اکبر کی بیٹی بیمار پڑ جاتی ہے اور کوئی دوا کام نہیں آتی۔ تان سین سے کہا جاتا ہے کہ راگ دیپک گائے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ راگ دیپک ایسا ہے کہ گانے والا اُسی میں جھلس کے رہ جاتا ہے۔ تان سین مشہور گانا 'دیا جلاؤ‘شروع کرتا ہے اور جو چراغ بجھائے جاچکے تھے وہ آہستہ آہستہ جگمگ کرنے لگتے ہیں۔تان سین بیمار پڑ جاتا ہے اوراکبر سے اجازت لے کر اپنے آبائی گاؤں کا رخت ِ سفر باندھتا ہے۔ گاؤں پہنچتا ہے تو حالت قریب از مرگ ہوتی ہے۔ وہاں تانی آ جاتی ہے اور پھر وہ مشہور گانا 'برسو رے‘ گاتی ہے اور آسمان پر بادل گِھر آتے ہیں اور مینہ برسنے لگتا ہے۔ تان سین کے چہرے پر بارش کے قطرے گرتے ہیں تو حالت بہتر ہونے لگتی ہے اور پھر تان سین اور تانی ایک دوسرے کی بانہوں میں کھو جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved