یہ بلندی پر واقع جند اعوان گاؤں کا قبرستان ہے۔ جند اعوان چکوال سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے ہوتا ہوا میں یہاں تک پہنچا ہوں، میرے دائیں طرف بلندی پر شہید معصوم شاہ کا مزار ہے۔ یہ ایک مختصر سا قبرستان ہے جہاں خاموشی کا راج ہے۔ بلندی پر ہوا تیز چل رہی ہے۔ میں قبروں کے درمیان تنگ راستوں سے گزرتا ہوا اس جگہ پہنچتا ہوں جہاں تین قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔ پہلی قبر کی لوح پر ماسٹر سجاول خان لکھا ہے ، دوسری قبر عبدالخالق کی ہے اور تیسری قبر محمد اشفاق کی ہے۔ یہ تین قبریں تین نسلوں کی نمائندہ ہیں۔ میں یہاں عبدالخالق کی قبر کی تلاش میں آیا ہوں جسے جواہر لال نہرو نے اس کی تیز رفتاری پر (Flying bird of Asia)کا خطاب دیا تھا۔ قبر پختہ ہے اور اس کے اردگرد ایک ریلنگ لگی ہوئی ہے۔ اکتوبر کی نرم دھوپ میں ہلکی ہوا رُک رُک کر چل رہی ہے۔ چاروں طرف خاموشی ہے۔ میں قبر پر فاتحہ پڑھتا ہوں اور قبر کی لوح کو ایک بار پھر دیکھتا ہوں جس پر لکھا ہے'' عبد الخالق (پرندۂ ایشیا) ـ‘‘ میں اسی قبر کو ڈھونڈتا یہاں تک پہنچا ہوں۔ قبر کے گرد لگی ہوئی لوہے کی ریلنگ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔تب اچانک مجھے یوں لگتا ہے جیسے زمانوں کی طنابیں سمٹ گئی ہیں اور وقت الٹے پاؤں لوٹ گیا ہے۔ یہی جند اعوان گاؤں تھا جہاں ماسٹر سجاول کا گھر تھا۔ ماسٹر سجاول ریاضی کے استاد تھے اور ایک دوسرے گاؤں کے سکول میں پڑھاتے تھے۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندو، سکھ اور مسلمان ایک جگہ رہتے تھے۔تب سکول کے استاد کی بہت عزت ہوتی تھی۔ ماسٹر سجاول کو دور و نزدیک احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ماسٹر سجاول کو کبڈی کا شوق تھا۔ پوٹھوہار کے ہر گاؤں میں فصلوں کی کٹائی پر میلے لگتے تو وہاں بیلوں کی دوڑ، گھڑ سواری اور کبڈی کے مقابلے ہوتے۔ اس روز لوگ اجلے کپڑے پہن کر میلہ دیکھنے جاتے جہاں کھانے پینے کے ڈھابے ہوتے، کھلونوں کی دکانیں ہوتیں، چوڑیوں اور نقلی جیولری کے سٹال ہوتے۔ مٹھائیوں اور جلیبیوں کی ہٹیاں( دکانیں) ہوتیں اور پھر کبڈی کے مقابلے جن کے ساتھ ڈھول بجانے والے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے والے جوان ہوتے۔ کبڈی کے مقابلوں میں ماسٹر سجاول بھی شریک ہوتے۔ ماسٹر سجاول کی شادی نو عمری میں کر دی گئی تھی۔ ان کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام عبدا لخالق رکھا گیا۔ ماسٹر سجاول کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا۔ وہ میلے میں جاتے تو بیٹے کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر لے جاتے۔ ننھا عبدالخالق میلے کی رونقیں اور کبڈی کے مقابلے دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔ پھر وہ سکول جانے کی عمر تک پہنچ گیا۔ ان کے گاؤں میں کوئی سکول نہیں تھا۔ قریبی سکول دور گاؤں بسولہ میں واقع تھا۔
جند اعوان کا محل وقوع بہت دلچسپ تھا۔ ایک نالہ سات مرتبہ گھوم پھر کے اس کے رستے میں آتا تھا۔ اسی لیے چکوال میں رہنے والے جند اعوان گاؤں کو سات سمندر پار کہتے تھے۔ عبد الخالق کو بھی ہر روز بسولہ سکول جانے کے لیے ان نالوں کو سات مرتبہ پار کرنا ہوتا اور واپسی پر بھی سات مرتبہ ان نالوں سے گزرنا ہوتا۔یہ اس زمانے میں بچوں کے لیے ایک عام سی بات تھی۔ عبد الخالق کئی کلو میٹر پیدل سکول جاتا اور چھٹی کے بعد اچھلتا کودتا، دوڑتا بھاگتا گھر کی طرف روانہ ہوتا۔ لیکن وہ سیدھا گھر نہ آتا‘ راستے میں ہی بستہ ایک طرف پھینکتا اور دوستوں کے ساتھ کبڈی کے کھیل میں شریک ہو جاتا۔ پوٹھوہار کی سرزمین اونچے نیچے ٹیلوں کی سرزمین ہے اور چکوال کے اس چھوٹے سے گاؤں جند اعوان کے اردگرد بل کھاتا نالہ بہتا تھا۔مون سون کے موسم میں جب مسلسل بارشیں ہوتیں تو نالے کا پانی اردگرد کے میدانوں میں پھیل جاتا اور جب کچھ دنوں بعد پانی سمٹتا تو میدانوں میں پانی کے ساتھ آئی ہوئی ریت باقی رہ جاتی۔ یوں ریتلے میدان پر کبڈی کا کھیل مشکل ہو جاتا۔ ریت پر نہ صرف پاؤں پھسلتے تھے بلکہ ریت پر بھاگنے میں دہری مشقت لگتی تھی۔ لیکن انہی ریتلے، ناہموار میدانوں پر عبد الخالق یوں بھاگتا جیسے ہوا کا تیزجھونکا پانیوں کو چھو کر گزر جاتا ہے۔ جب دوست کبڈی کھیل رہے ہوتے تو تماشائیوں کے لیے خاص بات عبد الخالق کی سبک رفتاری ہوتی۔ وہ مخالف ٹیم کی صفوں میں جاتا،کسی کھلاڑی کو ہاتھ لگاتا اور پھر اس برق رفتاری سے واپس آتا کہ کوئی اس کی گرد کو بھی نہ چھوسکتا۔ کبڈی کے کھیل میں ٹیم کا ایک کھلاڑی لکیر کے اُس طرف جا ئے اور مخالف ٹیم کے کسی کھلاڑی کو ہاتھ لگا کر واپس آجائے تو ا س کی ٹیم کو ایک پوائنٹ مل جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو 'وارا ڈالنا‘ کہتے ہیں اور جو کھلاڑی وارا ڈالنے جاتا ہے اسے ''ساہی‘‘ کہتے ہیں۔ عبد الخالق ہمیشہ اپنی ٹیم کی طرف سے وارا ڈالنے جاتا کیونکہ اس کی رفتار کو کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ساہی ہونے کے ساتھ ساتھ عبدالخالق اپنی ٹیم کا اہم ''جاپھی‘‘ بھی تھا۔ کبڈی کی زبان میں جاپھی اس کھلاڑی کو کہتے ہیں جو وارا ڈالنے والے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو جکڑ لیتا ہے۔ پوٹھوہاری میں جکڑنے کو ' 'جپھہ‘‘ ڈالنا کہتے ہیں اسی لیے جکڑنے والے کھلاڑی کو جاپھی کہتے ہیں۔
گاؤں کی سادہ مگر پُررونق زندگی میں دن رات یونہی گزر ہے تھے۔ تب ادھر ادھر کے دیہاتوں سے خبریں آنے لگیں کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک پاکستان بن رہا ہے۔ پھر سکول میں ماسٹر صاحب نے لڑکوں کوبتایا کہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہو گا۔ عبد الخالق کی عمر چودہ سال تھی جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا۔ اردگرد کے گاؤں سے ہندو اور سکھ اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہے تھے۔ عبدالخالق کو یہ اطمینان تھا کہ اس کا گاؤں پاکستان کا حصہ ہے اور وہ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا۔اس کی زندگی گھر‘سکول اور کبڈی کے میدان کے درمیان چلتی رہی۔ اس کی زندگی کے یہی تین محور تھے لیکن سچی بات یہ تھی کہ اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا اس کا بس چلتا تو وہ ہر وقت گاؤں کے اونچے نیچے ریتلے میروں (چٹیل میدانوں) میں کبڈی کھیلتا رہتا۔ لیکن قدرت نے اس کے لیے کچھ اور ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
ان دنوں فوج میں نوجوان لڑکوں کو بھرتی کیا جاتا تھا‘ یہ روایت انگریزوں نے شروع کی تھی۔ پوٹھوہار کے مختلف علاقوں سے نوجوان لڑکوں کو بھرتی کیا جاتا۔ اب پاکستان بن چکا تھا لیکن یہ روایت باقی تھی۔ ایک دن پاکستانی فوج کی ایک ٹیم بھرتی کے لیے چکوال کے علاقے میں آئی ہوئی تھی اس ٹیم کی قیادت بریگیڈئیر راڈھم کر رہے تھے۔ ادھر عبد الخالق اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں آیا ہوا تھا۔ عبد الخالق بریگیڈئیر راڈھم کی نظر میں آگیا۔ یوں ہنستا کھیلتا عبد الخالق پوٹھوہار کے ریتلے میروں (چٹیل میدانوں) پر کبڈی کھیلتا ہوا پاکستان آرمی میں آگیا۔ یہ 1948ء کا سال تھا۔ پاکستا ن بنے ایک برس ہوا تھا۔ یوں پندرہ سال کی عمر میں عبد الخالق اپنے والدین، بہن بھائیوں، دوستوں اور اپنے دلبر گاؤں جند اعوان کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے دور چلا گیا جہاں ٹریننگ کا سخت مرحلہ اس کا منتظر تھا۔ یہ ایک مصروف زندگی کا آغاز تھا جس میں سب سے زیادہ زور ڈسپلن پر تھا۔آرمی میں اس کی تیز رفتاری اسے پروفیشنل دوڑ کے میدان میں لے آئی۔ اب اسے پہلی بار باقاعدہ ریسنگ ٹریک پر دوڑنے کا موقع ملا۔ اس کو تربیت دینے والے حیران تھے کہ پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے چٹیل میدانوں میں ننگے پاؤں بھاگنے والا لڑکا دوڑ میں کیسے اپنے سب ساتھیوں سے آگے نکل جاتا ہے۔انہیں کیا معلوم تھا آنے والے وقت میں یہ لڑکا پاکستان کے ماتھے کا جھومر بننے والا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved