یہ نعرہ تو کئی برسوں سے سن رہے تھے کہ ''روک سکو تو روک لو‘‘ اس نعرے کے اگلے حصے کی اس وقت بات نہیں کرتے۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ تبدیلی سے مراد ایک سرکار کی رخصت اور دوسری کی آمد ہے یا سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظام کے کھوکھلے پن کو تبدیل کرکے ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ سرکار میں ہونے والی تبدیلی کو اب ہم تبدیلی نہیں مانیں گے‘ وہ عمران خان کی ہو یا کسی اور کی۔ کرسیوں کا کھیل‘ باریاں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بہت دیکھ چکے۔ خان صاحب نے اپنا ''حقیقی مارچ‘‘ شروع بھی کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ ہماری سیاسی قیادت خود غرضی اور انا پسندی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے‘ ایسے میں اعتدال اور درمیانی راستہ کیسے نکل سکتا تھا؟ میرے نزدیک قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ جائز ہے۔ یہ فیصلہ جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش ہورہا تھا‘ اسی وقت کردینا چاہیے تھا۔ خاں صاحب کو اگر آنے والے حالات کا ادارک ہوتا تو وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے پہلے اسمبلیوں کو تحلیل کرکے تازہ انتخابات کا اعلان کردیتے لیکن پھر اگر ایسا کرتے تو شاید فصلی پرندے بھی اُڑ جاتے۔ خطرہ اُنہیں یہ تھا کہ حکومت کسی اور کی بن جائے گی‘ اسی لیے اُنہوں نے ''سیاسی شہادت‘‘ کا جام نوش کرکے دوسری سیاسی زندگی کے امکانات کو روشن ہوتے دیکھا۔ جو بیانیہ بنایا‘ وہ بالکل وہی تھا جو میاں نواز شریف کا تھا: 'مجھے کیوں نکالا‘۔
عمران خان اور دیگر سیاسی اکابرین میں بہت فرق ہے۔ سیاست‘ بیانیے اور مختلف سیاسی حلقوں کی حمایت کے حوالے سے کپتان بہت آگے نکل چکا۔ حکومت اس کے خلاف مقدمے پر مقدمہ بناتی چلی گئی مگر وہ ان حالات کا مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں چترال سے کراچی تک اس نے لوگوں کو متحرک کیا ہے۔ ادھر مقدمے‘ اُدھر جلسے پر جلسہ اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ ضمنی انتخابات میں پنجاب کا سب سے بھاری اور معتبر سیاسی خاندان دکھائی ہی نہ دیا۔ عوام نے سیاست اور مقبولیت کے مقدمے کا فیصلہ خان صاحب کے حق میں سنا دیا تھا۔ وہ عوام کے سامنے کھڑے ہوکر کیا کہتا ہے؟ اس کے بیانیے کو جو بھی سمجھ لیں مگر عوام میں اس کی پذیرائی دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ اور قسم کے عوام ہیں۔ یہ وہ نہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ وہ بھی نہیں جو ان کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں باہر نکلے تھے‘ بلکہ کبھی کسی بھی پاکستان کی سماجی یا سیاسی تحریک میں دیکھنے میں نہیں آئے۔ ان میں ہراول دستہ نوجوان ہیں۔ ان کا شعور ہمارے زمانے کے نوجوانوں سے مختلف ہے۔ اربن اور پروفیشنل مڈل کلاس کا بنیادی کردار ہے۔ خواتین ہوں یا مرد‘ غریب ہوں یا امیر‘ شہروں کے مکین ہوں یا گائوں کے باسی‘ ہر طبقے میں عمران خان کی مقبولیت ہے۔ اس پذیرائی کو کم کرنے کے لیے کوششیں بھی زوروں پر ہیں۔ جو سیاسی رہنما‘ دانشور اور پروپیگنڈا کا ماہر تیرہ جماعتی اتحاد کی طرف سے آتا ہے‘ اس کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ عمران خان جھوٹا‘ بدعنوان اور دیگر کی طرح کا ایک روایتی سیاست دان ہے۔ یہ بیان ان کے نزدیک اہم فرائض میں شامل ہیں۔ غداری اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کا تڑکا بھی لگایا گیا لیکن عوام کا اعتبار اٹھ جائے تو کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
ملکی تاریخ کا تیرہواں لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اتحادی بھی تیرہ ہیں اور لانگ مارچ بھی تیرہواں۔ یہ نہ سمجھیں کہ میں اپنے پاس سے گھڑ رہا ہوں۔ میرے پاس سب کی تاریخیں موجود ہیں۔ اس بابت تفصیل کسی اور مضمون میں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا آخری لانگ مارچ ہوگا۔ اب تو قومی سیاست کا مزاج ہی ایسا بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ جب تک سیاسی کشمکش چلتی رہے گی‘ مارچ اور بھی ہوں گے۔ مگر میرے خیال میں اس مارچ کا رنگ ہی مختلف ہے اور یہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں‘ ذرا غور سے سن لیجیے اور اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں۔ مجھے تو یہ بہار وطن نظر آتی ہے۔ اس کے نتائج نکلیں یا نہیں‘ یہ اپنی جگہ پر‘ اس بارے میں تو صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں انقلاب آچکے۔ عرب کے ریگستانوں‘ صحرائوں اور پُرہجوم بستیوں میں شمالی افریقہ سے لے کر یمن اور ایران کی سرحدوں تک لوگوں نے گلے سڑے نظام کے خلاف علم آزادی بلند کیا۔ موسم بہار کا تھا‘ تو اُسے بہارِ عرب کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ پرانا نظام ختم ہوا‘ جمہوریت کا پودا پروان چڑھا تو وہی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں جنہیں عشروں تک دبایا جاتا رہا۔ ان ممالک اور ہمارے معروضی حالات میں زیادہ فرق نہیں۔ ہمارے ہاں بھی اقتدار پر ایک مخصوص طبقہ قابض رہا ہے۔ وہاں جن کے پاس طاقت تھی‘ نوکر شاہی اور صنعت کار۔ انہوں نے صحافیوں اور نام نہاد دانشوروں کو آگے کیا ہوا تھا جو ان کے اقتدار کا جواز ارزاں کرتے رہتے۔ مصر کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک وسیع سرپرستی کا بندوبست موجودہے۔ ذرا غور سے دیکھیں‘ سچائی‘ ایمانداری‘ پیشہ ور مہارت اور وطنیت کی تمام قلعی مصنوعی رنگوں سے سجی ہے۔ حقائق کا ایک چھینٹا اسے دھو ڈالتا ہے۔ درویش کی ساری زندگی اس دیار میں گزری ہے۔ کان اب بھی سنتے ہیں‘ آنکھیں ابھی تک دیکھتی ہیں‘ اندھوں اور بہروں کو بھی اس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ناانصافیاں دکھائی دیتی ہیں۔ کسی بھی دفتر یا محکمے میں جائز کام کرنے کے لیے آپ کی حق حلال کی کمائی سے حصہ طلب کیا جاتا ہے۔ ہر ضلع کچہری میں ہر روز کوئی نہ کوئی لانگ مارچ دکھائی دیتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ پاکستان کے عوام‘ خاص طور پر نوجوان مشہور و معروف سیاسی خاندانوں کی دولت کے انباروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے‘ یا سمجھتے ہیں کہ یہاں کا چلن ایسا ہی ہے تو پھر آپ غالباً ماضی کے کسی سفر کا حصہ ہیں۔ وقت بہت آگے نکل چکا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اب یہ کہنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ابھی تک وقت ہے۔ شاید وقت اب کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ سب کی نظریں لانگ مارچ پر ہیں۔ دیکھیں موسم کیا تیور دکھاتا ہے۔ بہارِ وطن تو آچکی‘ اب پھول کھلیں گے یا خار زار دہک اٹھیں گے؟ آنے والے چند ایک دن فیصلہ کرنے جارہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved