یہ ایک کچھوا نما شے تھی جو لان میں آہستہ آہستہ چل رہی تھی مگر کچھوا بھی نہ تھی۔کافی دیر غور سے دیکھنے کے باوجود کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا شے ہے! پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ روبوٹ ہے! لان میں گھاس کاٹنے والا۔ چنانچہ اپنا کام کر رہا ہے!
خدا کی پناہ! یہ کفار بھی کتنے عجیب ہیں! حیرت سے انسان گُنگ ہو جاتا ہے! ہر مسئلے کا حل نکال لاتے ہیں! اور حل کے پیچھے‘ اکثر و بیشتر‘ فلسفہ ایک ہی ہے کہ انسان کا دوسرے انسان پر انحصار کم ہو جائے! اب گھاس کاٹنے والے روبوٹ کی ایجاد کے بعد اُس بندے کی ضرورت نہیں رہی جو آکر مشین سے گھاس کاٹتا تھا۔سامان اٹھانے والے قُلی سے نجات پانا تھی تو صندق کے نیچے پہیے لگا لیے۔اٹھائے بغیر اسے ایک ہاتھ سے چلاتے جائیے۔ شہر بڑے ہو گئے۔ راستے یاد رکھنے مشکل ہو گئے۔ کس کس سے پتا پوچھتے پھریں۔ کفار نے ہر گاڑی میں‘ ہر موبائل فون میں ایک بی بی بٹھا دی ہے جو آپ کو نقشہ دکھاتی جاتی ہے اور بتاتی جاتی ہے کہ کہاں مُڑنا ہے اور کہاں سیدھا چلتے جانا ہے۔ کسی کی مدد کے بغیر آپ ٹھیک اُس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو جانا ہے! چیک لکھ کر بینک کے کیشیئر کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کارڈ اے ٹی ایم میں ڈالیے۔ گِنے گنائے کرنسی نوٹ باہر نکل آئیں گے۔ بجلی کا یا گیس کا یا فون کا بل ادا کرنا ہے تو کپڑے بدل کر بینک میں جانے کی یا ملازم کو بھیجنے کی ضرورت نہیں‘ بستر پر بیٹھے بیٹھے آن لائن رقم بھیج دیجیے۔ بازار جا کر دکاندار کے متھے لگنے کی ضرورت نہیں‘ آن لائن آرڈر کیجیے‘ گھر بیٹھے بیٹھے مطلوبہ شے حاضر ہو جائے گی۔ اب ہاکر کی ضرورت نہیں‘ کلک کیجیے۔ تازہ اخبار سامنے کھل جائے گا۔ صرف آپ کے شہر کا نہیں‘ دنیا کے کسی ملک کا اخبار‘ کسی بھی شہر سے شائع ہونے والا اخبار‘ صرف ایک کلک سے پڑھ سکتے ہیں۔ ٹرین میں بیٹھ کر کہیں جانا ہے۔ کھڑ کی سے ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ مشین میں پیسے ڈالیے‘ کھٹ سے ٹکٹ باہر آجائے گا۔ ٹرین آگئی۔ دروازے خود بخود کھل گئے۔ مسافر اترے۔ نئے مسافر سوار ہو ئے۔ پھر خود ہی دروازے بند بھی ہو گئے۔ دروازے پر گھنٹی ہوئی۔ پہلے باہر جا کر دیکھنا پڑتا تھا یا ملازم جاتا تھا پھر آکر بتاتا تھا کہ کون آیا ہے۔ اب گھنٹی کی آواز آئی ہے تو سامنے لگی سکرین پر نظر ڈالیے۔ آنے والا دکھائی دے گا۔ اس سے بات کرنی ہے کہ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیا کام ہے؟ تو انٹرکام اٹھائیے اور جہاں بیٹھے ہیں‘ وہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ پوچھ لیجیے۔ خط لکھنا ہے تو لفافہ چاہیے نہ پوسٹ آفس جا کر خط پوسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔اب ڈاکخانہ بھی آپ کے پاس ہے۔ چھاپہ خانہ بھی گھر میں ہے۔ کسی مسلمان نے کسی اجنبی شہر میں نماز ادا کرنی ہے۔ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ قبلہ کس طرف ہے؟ کفار نے کمپاس (قطب نما) آپ کے موبائل فون میں ڈال دیا ہے۔ موبائل فون آپ کی جیب میں ہے۔ سمت دیکھیے اور کسی سے پوچھے بغیر اپنی نماز ادا کر لیجیے! دلی میں انگریز آئے تو غالب ماچس دیکھ کر کہنے لگے: کیا لوگ ہیں! جیب میں آگ لیے پھرتے ہیں! غالب آج ہوتے تو کفار کی حرکتیں دیکھ کر دنگ رہ جاتے! حد ہو گئی! کفار نے ہماری جیب میں سب کچھ رکھ دیا۔ ٹارچ بھی! کیلکولیٹر بھی! قطب نما بھی! کیمرہ بھی! ٹیلیفون بھی! ڈاکخانہ بھی! گھڑی بھی! کیلنڈر بھی! ہماری مذہبی کتاب بھی۔ تصویروں والا البم بھی! ڈکشنری بھی! نمازوں کے اوقات بھی! ہمارا بینک اکاؤنٹ اور اس کا بیلنس بھی! ٹیکسی بلانے کا انتظام بھی۔ ہمارا پسندیدہ گویّا بھی‘ شاعر بھی‘ قاری بھی! اور دنیا بھر کے اخبار ات اور ٹی وی چینل بھی اور لائبریری بھی! دنیا میں جہاں بھی جس سے بھی بات کر رہے ہوں‘ اس کی تصویر بھی! سفر میں ہیں تو پیچھے گھر کا اندر بھی اور باہر بھی! گھر میں کھانا منگوانا ہے یا سودا سلف‘ جیب سے اسی حیران کن‘ پانچ انچ لمبی اور اڑھائی انچ چوڑی مشین کو نکالیے‘ کھانا اور سودا سلف‘ سب کچھ گھر پہنچ جائے گا!! داد تو دینی پڑے گی نا ان کفار کو!
کہیں پڑھا تھا کہ ایک بار مصری صدر انور السادات یورپ کے دورے پر گئے تو ایک شخص ان کے ساتھ‘ وفد میں‘ ایسا بھی تھا جس کے بارے میں میزبانوں کو معلوم نہیں ہورہا تھا کہ کون ہے! پتا چلایا گیا۔ وہ انور السادات کے پاؤں دبانے والا اور مالش کرنے والا تھا۔ کفار نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ اب آپ نے پاؤں دبوانے ہیں یا سر‘ کمر پر مساج کرانا ہے یا ٹانگوں پر۔ کرسی پر بیٹھیے‘ بٹن دبائیے‘ لیجیے مساج شروع ہو گیا۔ کسی حجام کی ضرورت ہے نہ مساجیے کی! آنکھیں بند کیجیے اور لطف اندوز ہوں! یہی نہیں۔ کپڑے دھونے ہیں تو دھوبی کی ضرورت نہیں۔ برتن دھونے ہیں تو ڈش واشر میں ڈال کر بٹن دبا دیجیے۔ دھل جائیں گے! گیٹ کھولنا ہے تو گاڑی سے اترنے کی ضرورت نہیں‘ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی بٹن دبائیے۔ گیٹ کھل جائے گا۔درزی سے کفار نے ڈیڑھ سو سال پہلے ہی نجات حاصل کر لی تھی۔سر سید جب فرانس گئے جنوبی ساحل پر بحری جہاز سے اترے تو برطانیہ پہنچنے کیلئے انہیں فرانس سے گزرنا تھا۔ ان کے ایک ساتھی کے پاس مناسب لباس نہیں تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ سلے سلائے تیار کپڑے بازار سے مل جائیں گے۔سر سید کے بقول دکان پر ایک مس صاحبہ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے فوراً ان کے ساتھی کو نیا لباس دے دیا جو انہیں پورا بھی تھا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے کام ہم کیوں نہ کر سکے اور کیوں نہیں کرتے؟ تو اس کا جواب جاننے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے نہ راکٹ سائنس پڑھنے کی۔ ہمارے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے آبادی کی کثرت! ہم ہر سال آبادی میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ہر کام کے لیے افرادی قوت وافر موجود ہے۔برتن صاف کرنے کیلئے‘ کپڑے دھونے کیلئے‘ گیٹ کھولنے اور بند کرنے کیلئے‘ لان کی گھاس کاٹنے کیلئے‘ مالش کرانے اور پاؤں دبوانے کیلئے‘سامان اٹھانے کیلئے‘سودا سلف لانے کیلئے‘بل جمع کرانے کیلئے غرض ہر کام کیلئے الگ الگ‘کئی‘ ملازم موجود ہیں۔ ہمیں سائنس پڑھنے کی ضرورت ہے نہ ایجادات کرنے کی۔ہمارے پاس تو ما شاء اللہ ایسے ایسے مقرر موجود ہیں جو کثرتِ ازدواج اور کثرتِ اولاد کیلئے لوگوں کو قائل کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب ہماری آبادی حد سے بڑھ جائے گی تو یہ کفار کو بہا لے جائے گی۔ کیا کہا؟ علم مومن کی میراث ہے؟ ارے بھئی! سائنس اس علم میں شامل نہیں!! علم تو یہ جاننے کا اور بتانے کا نام ہے کہ دائرۂ اسلام سے خارج کون کون ہے؟ نماز کس کس کے پیچھے جائز نہیں! جہنم میں کون کون جائے گا؟ کون کون سی مسجدیں کس کس گروہ کی ہیں! کس مسلمان ملک نے کس مسلمان ملک سے لڑائی کرنی ہے؟ عورت کیوں ناقص العقل ہے؟ لڑکی سے پوچھے بغیر اس کی شادی کرنے میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ بیٹے بیٹیوں کی نسبت برتر کیوں ہیں؟ فیوڈلزم کیوں ضروری ہے؟ سرداری سسٹم کو دوام کیسے بخشا جائے! کھیرا کاٹنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ ہم کفار کی طرح احمق تھوڑی ہیں کہ ایجادات کرنے بیٹھ جائیں؟؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved