معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح مقتدر حلقوں میں بھی یہ تاثر پھیل چکا تھا کہ عمران خان ملک کے مستقبل کے لیے سب سے بہتر امیدوار ہیں۔معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح یہ حلقے بھی عمران خان کے مداح تھے؛ مگر عمران خان کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے مجموعی بہتری کے امکان کو دیکھتے ہوئے یہ نکتہ نظر انداز ہو گیا کہ عمران خان کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔جب 2013ء کے لگ بھگ فیصلہ سازوں نے یہ فیصلہ کیا تو انتخابات سر پر تھے۔کوشش کی گئی لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔نون لیگ اور نواز شریف اقتدار نے حکومت سنبھال لی۔عمران خان کے لیے انتخابی نتائج ناقابل یقین تھے۔وہ انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے حادثے کے بعد ہسپتال میں تھے لیکن دو تہائی اکثریت کا خمار کنٹینر سے نہیں گرا تھا۔ اس شکست کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کی درست انتخابی تیاری نہ ہونا تھی جبکہ یہ عمران خان کا سیاسی دورِ عروج تھا۔یہ مانا جاتا تھا کہ انتخابی تیاری درست ہوتی تو عمران خان حکومت میں ہوتے۔یہ نتائج جس طرح عمران خان کے لیے حیران کن تھے اسی طرح ہر سطح پر ان کے حامیوں کے لیے بھی پسندیدہ نہ تھے۔دوسری طرف نواز شریف پرویز مشرف کے زخم خوردہ تھے اور نون لیگ سے بھی مقتدر حلقے خوش نہ تھے سو دوطرفہ اعتماد کاشروع ہی سے بڑا فقدان تھا۔
اس صورتحال میں ایک بار پھر سیاسی دھینگا مشتی شروع ہوئی۔اس بار اپنی مقبولیت کے ساتھ عمران خان کو ایک اور ستون کا سہارا بھی ملا ہوا تھا‘2014ء کا لانگ مارچ،دھرنا،طاہرالقادری اور عمران خان کا یکجا ہونا سب اسی کے شاخسانے تھے۔میں اس وقت بھی اور اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مس ایڈونچر تھا۔یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس سے کوئی خیر کا پہلو برآمد نہیں ہوا‘ صرف بدنامی ہوئی اور ملک کونقصان پہنچا۔اور عمران خان جو کہتے تھے کہ میں کسی کے اشارے پر نہیں کھیلتا، وہ بھی پوری طرح ظاہر ہوگئے۔سب سے زیادہ نقصان ریاست کا ہوا۔اور وہ ایسی کشاکش میں پھنسی کہ حکومت بچانے ہی سے فرصت نہ مل سکی۔ باقی چیزیں کون دیکھتا۔ نواز شریف حکومت بری طرح لڑکھڑانے لگی۔راج سنگھاسن ڈولنے لگا۔عین اسی وقت میں عمران خان کے ساتھی اور سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی تحریک انصاف سے الگ ہوگئے اور پریس کانفرنس میں درونِ خانہ معاملات کھول کر رکھ دیے۔ دھرنے میں امپائر کی انگلی تو کیا اٹھتی ، تحریک انصاف کو آرمی پبلک سکول کے اندوہناک واقعے کا کے بعد دھرنے کا بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔
لیکن کھیل پس پردہ ختم نہیں ہوا۔ مسلم لیگ نون کو ہٹانے کے تمام ترم جتن کیے جاتے رہے‘حتیٰ کہ پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا۔جو طاقتیں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتی تھیں وہ پھر اٹھ کھڑی ہوئیں‘ بالآخر نوازشریف اقامہ اور' قابلِ وصولی‘ اثاثوں کی عدم وصولی کے جواز پرنا اہل قرار دیے گئے۔ سچ یہ ہے کہ اس کے پس پردہ ذاتی انا اور انتقام کے جذبات دیکھے جاسکتے تھے۔ نواز شریف ہٹے لیکن مسلم لیگ نون بدستور اقتدار میں رہی۔ کھیل چلتا رہا حتیٰ کہ 2018 ء کے انتخابات آن پہنچے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس بار توقع تھی کہ مقبولیت اور طاقتوں کی حمایت کے بل وہ بڑی اکثریت لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔جوڑ توڑ کے اس میدان میں کئی طاقت ور امیدوار پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور سیاسی جماعتوں نے کئی عوامل دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیے لیکن بڑی اکثریت خواب ہی رہی۔
انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا فی الحقیقت ہماری سیاست تاریخ میں انوکھی بات نہیں تھی۔جب گرد بیٹھی اور حقیقی اعداد و شمار سے واسطہ پڑا تو اندازہ ہوا کہ ایوان میں تحریک انصاف کی اکثریت چند سیٹوں ہی کی ہے۔یہ کہانی آپ الجھی تھی کہ الجھائی گئی تھی، یہ بات کبھی ظاہر ہوجائے گی۔ممکن ہے قصداً یہ انتظام کیا گیا ہو کہ عمران خان کے سر پرایک خطرہ معلق کردیا جائے‘لیکن پی ٹی آئی کا اقتدار شروع ہوتے ہی مقتدر حلقوں کو اندازہ ہونے لگا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ سب سے حیران کن معاملہ خان کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں اور ان کی ٹیم کا تھا۔ان ٹیم کے ساتھ اچھی کارکردگی محض ایک سراب ہوسکتی تھی۔ عثمان بزدار کا تقرر خود خان صاحب کے قریبی لوگوں کے لیے ناقابل ِیقین تھا۔پنجاب کا سب سے بڑا اور اہم ترین صوبہ ایک نا تجربہ کار کو سونپنا کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ پی ٹی آئی کی حلیف جماعت قاف لیگ اور پرویز الٰہی اس کے لیے سب سے بہتر انتخاب ہوتے۔ لیکن یہ نہیں کیا گیا اور کیا گیا تو اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔بتدریج مایوسی بڑھتی گئی اور حکومتی کارکردگی کا بوجھ ان پر بھی بڑھتا گیا۔ سوال اٹھنے لگے کہ یہ تھے وہ منتخب روزگار جن کے لیے اتنا کچھ کیا۔ یہ بوجھ بڑھتا گیا حتیٰ کہ فیصلہ سازوں نے خود کو حکومت سے دور کرنے کا فیصلہ کرلیا اور طے کیا گیا کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ فوج کسی بھی جماعت اور فرد کی حمایت سے باز رہے گی۔ میرے خیال میں عمران خان کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ اس مرحلے پر جب خان صاحب پونے چار سال کی مدت پوری کرچکے تھے،اس معاملے کا‘ خواہ وہ غلط تھا یا درست‘ اپنے اختتام تک پہنچنا ہی بہتر تھا۔مگرعمران خان کی پیٹھ سے ہاتھ ہٹتے ہی معاملات بدلنے لگے۔عمران خان کا مؤقف یہ تھا کہ ان کے لوگ پیسے لے کر منحرف کیے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں جب لوگ شامل ہورہے تھے تب بھی یہی معاملہ تھا لیکن چونکہ اس وقت عمران خان کے حق میں تھا اس لیے اصول وغیرہ سب دھرے رہ گئے تھے۔عمران خان جس طرح وزیر اعظم ہاؤس سے نکلے وہ بھی خاصی ڈرامائی صورتحال تھی۔ملک میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا یہ تو اپنی لڑائی میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ میرے خیال میں سمجھنے والوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی کہ عمران ناقابل پیش گوئی مزاج رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔
ہم نے ابتدا میں چار ستونوں کی بات کی تھی۔میرے خیال میں خان صاحب کی ذاتی خصوصیات اور اصول پسندی سب سے مضبوط ستون سمجھا جانا چاہئے۔ باقی تین بھی اسی کی وجہ سے تھے۔ میرے خیال میں جب عمران خان کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ روایتی میدان ، روایتی سیاست میں وہ مزید وقت بھی گزار لیں تب بھی ان کے لیے اقتدار تک پہنچنا مشکل ہی رہے گا، تب ان کے سامنے دو راستے تھے‘ ایک یہ کہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے خواہ اس کی وجہ سے بڑی قربانیاں دینی پڑتیں۔ دوسرے یہ کہ وہی چلن اختیار کرلیتے وہی طور طریقے اختیار کرلیتے جن پر چل کر دوسرے لوگ اقتدار تک پہنچے ہیں۔ عمران خان کے مزاج میں ہار نہ ماننا ہے۔ خاص طور پر جب کھیل میں انا کے جذبات شامل ہوں‘لہٰذا انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو اصول پسند عمران سے الگ تھا۔لیکن اس سے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ایک بار عمران خان کی شخصیت کا مومی مجسمہ پگھلنا شروع ہوا تو باقی ستونوں میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved