ملک میں سیاسی درجہ حرارت اس وقت عروج پر ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے ایک حالیہ بیان پر کافی شور مچا ہوا ہے۔ میں اپنے پچھلے کالموں میں اس خدشے کا اظہار کر چکا ہوں جس بارے آج کھل کر بات کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے متنازع الفاظ کا استعمال صرف ایک سوال کا جواب دینے کے لیے کیا ہو لیکن ماضی کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس ملک میں کبھی بھی‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح پچھلے چند ماہ میں حکومت بدلی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی آئی ہے‘ چند ماہ پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بعض حلقوں کی جانب سے ملک میں کسی غیر سیاسی قوت کی مداخلت کو دیوانے کا خواب قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر حالات خراب ہو گئے تو معاملات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ فی الحال چیئرمین تحریک انصاف نے کچھ پتے ابھی تک اپنے سینے سے لگا رکھے ہیں جنہیں وہ وقت آنے پر ظاہر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انہوں نے پلان اے‘ بی اور سی تشکیل دے رکھا ہے۔ وہ منصوبے کس حد تک کامیاب ہوں گے اس کا اندازہ تو آنے والے وقت میں ہی لگایا جا سکتا ہے۔ میں یہاں ان کے ماضی کے بعض پلانز پر قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
2014ء کے لانگ مارچ میں خیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑنے اور صوبائی حکومت کے مستعفی ہونے کو پلان بی کے طور پر رکھا گیا تھا لیکن اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے مبینہ طور پر اپنے ہی خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا کر اس منصوبے کو غیر مؤثر کر دیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں چیئرمین تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور صوبائی وزرا اس فیصلے کی حمایت کریں گے یا نہیں؟ ذہن نشین رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مبینہ طور پر بیدیاں روڈ لاہور پر ایک تقریب کے دوران اہم شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی اکثریت بھی مستعفی ہونے کے حق میں نظر نہیں آتی۔ اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے بھی کئی آپشنز استعمال کیے گئے تھے اور انہیں بھی پلان اے، بی اور سی کے نام دیے گئے تھے۔ پہلے اس سٹرٹیجی کو کامیاب قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں پلان بی اور پلان سی نے ملک کے سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر پر آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کی راہ ہموار کی۔ گو کہ مصلحتاً اس کیس پر ابھی خاموشی اختیار کی جا رہی ہے لیکن یہ مدعا کبھی بھی دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے پلان اے‘ بی اور سی‘ سبھی ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کا پلان مخصوص حلقوں کی ہلہ شیری ہی سے کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لانگ مارچ کی سست رفتاری کو بھی شکوک و شبہات سے دیکھا جا رہا ہے۔ ممکنہ طور پر چیئرمین تحریک انصاف اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت تک لانگ مارچ میں عوام کی شرکت بھرپور ہے اور اسلام آباد پہنچنے تک اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لانگ مارچ کی کامیابی اور ناکامی‘ دونوں کا انحصار عوامی ردعمل پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے گا کہ عوام کوکئی دنوں تک لانگ مارچ اور دھرنے کے ساتھ جوڑ کر رکھا جا سکے۔ فی الحال عوام کنفیوز دکھائی دیتے ہیں۔ ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچنے کا وقت بدلتے رہیں گے اور حکومت کو تھکا تھکا کر شکست دیں گے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق لانگ مارچ مری روڈ کے راستے اسلام آباد میں داخل ہونے کا امکان ہے جبکہ اس سے قبل راولپنڈی میں دو الگ الگ مقامات پر کیمپس بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ مندرہ اور گوجر خان کے درمیان بھی کیمپس لگائے جا سکتے ہیں۔ مارچ ٹی چوک‘ بعد میں مریر حسن اور اس سے آگے مری روڈ کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ شمس آباد پہنچنے کے بعد وہیں قیام ہو سکتا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف راولپنڈی میں پنجاب ہائوس میں قیام کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی پلان کا حصہ ہے لیکن بعض اوقات ناکامی اور ممکنہ نتائج حاصل نہ ہونے کو بھی سٹرٹیجی کا حصہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ لانگ مارچ میں غیر ضروری تاخیر اور غیر ذمہ دارانہ بیانات عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ جواز دینا کہ عوام کے جم غفیر کی وجہ سے لانگ مارچ سست روی کا شکار ہے‘ شاید حقائق کے منافی ہے۔ لانگ مارچ کا اختتام کس موڑ پر ہوتا ہے اس بارے چند دنوں میں علم ہو جائے گا، فی الحال ہم معیشت کا ایک عبوری جائزہ لیتے ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق کاروباری طبقے کا اعتماد تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس کے مطابق 65 فیصد سے زائد کاروباری لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کاروبار بری صورتحال سے دوچار ہے اور سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ ایک طرف کاروبار کرنے کا خرچ خاصا بڑھ چکا ہے اور دوسری طرف کسٹمرز کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے پچھلے مہینے کے اندازے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ مہنگائی بائیس سے پچیس فیصد کے درمیان رہے گی لیکن حقیقی اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ مہنگائی کی شرح چھبیس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے ابھی تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائی جا رہیں۔ اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی کی شرح پینتیس فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔اس وقت تقریباً 72 فیصد کاروباری طبقہ روزانہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ 81 فیصد طبقے نے نظامِ عدل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ گو کہ لانگ مارچ ایک سیاسی سرگرمی ہے لیکن کاروباری طبقہ کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کیوں کرنا چاہے گا جہاں اس کا سرمایہ محفوظ نہ ہو اور پالیسیاں ہر دوسرے روز بدل جاتی ہوں۔ سیاسی عدم استحکام معیشت کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر سکتا ہے۔ برطانیہ ایک بڑی معاشی طاقت ہے لیکن لگاتار وزرائے اعظم کی تبدیلی کی وجہ سے اسے تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ دوسرے ملکوں کے حالات سے سبق سیکھنا یقینا مسائل کی تفہیم اور ان میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس صورت حال میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ چینی صدر نے مشکل حالات میں پاکستان کی مالی سپورٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ چین کی دوستی پاکستان کے لیے مثالی ہے اور ہر مشکل وقت میں چین پاکستان کا مددگار رہا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دوبارہ منتخب ہونے کے موقع پر کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں نیشنل کانگریس کے بعد وزیراعظم پاکستان کو دنیا کے چند اہم لیڈرز کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو پاکستان پر چین کے اعتماد کی صورتحال کو واضح کرتی ہے۔ چین نے اُس وقت پاکستان کو تقریباً سوا دو ارب ڈالرز فراہم کیے تھے جب آئی ایم ایف نے پاکستان کو شرائط پوری کیے بغیر قرض نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی چینی آئی پی پیز کو پچاس ارب روپے جاری کیے تھے۔ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کی مرضی کے خلاف کیا گیا تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قسط جاری ہونے اور فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد چین کا پاکستان پر اعتماد مزید بڑھا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے سی پیک کے تحت سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے ونڈ انرجی کے منصوبوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چینی سرمایہ کار سولر اور دیگر منصوبوں میں بھی کام کرنے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں یہ منصوبے مہنگے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ونڈ انرجی پروگرام گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کی ساحلی پٹی اس حوالے سے موزوں ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سندھ حکومت بھی عوامی مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ ہو۔ ذہن نشین رہے کہ وزیراعلی سندھ اور بلاول بھٹو زرداری بھی وزیراعظم کے ہمراہ چین میں ہیں۔ صورتحال زیادہ بہتر ہوتی اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے نمائندے بھی موجود ہوتے۔ ملک کو اس وقت اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved