تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-11-2022

لاپروائی اور ایجنڈوں سے ہٹ کر

ایک زمانے سے ہمارے ہاں ہر شعبہ یا تو شدید لاپروائی کی زد میں ہے یا پھر ایجنڈوں میں گِھرا ہوا ہے۔ کسی بھی انحطاط پذیر معاشرے میں جو کچھ ہوا کرتا ہے وہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ رُو بہ زوال معاشروں کی ایک قدر البتہ ہمارے ہاں نہیں پائی جارہی۔ کوئی بھی معاشرہ جب واقعی زوال پذیر ہوتا ہے تب کچھ لوگ اپنی ذمہ داری اور فرض گردان کر، نفع و ضرر کے تصور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، میدان میں آتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تاکہ معاشرہ مکمل تباہی سے بچا رہے۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہو‘ ترقی پذیر یا پھر پس ماندہ‘ اہلِ دانش اور اہل فن فکر و نظر کی بلندی کی مثال پیش کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں اور وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں اب تک ایسا کچھ ہوا ہے نہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ معاشرے کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ جنہیں معاشرے کی اصلاح اور درستی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور مال و زر کی ہوس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یا نفع و ضرر کے پھیر سے نجات پاتے ہوئے پوری دیانت اور غیر جانبداری سے کچھ کر دکھانا ہے وہی دنیا کے چکر میں پڑگئے ہیں۔ لوگ کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں جن کی طرف دیکھتے ہیں اُن میں دنیا کی ہوس نہیں ہونی چاہیے۔ اگر علم و فن کی بلندی پر پہنچنے کے بعد بھی مال و زر کی ہوس جیسی سطحی ذہنیت کو ترک کرنے گنجائش پیدا نہ ہو پارہی ہو تو پھر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو پستی سے نکال کر دوبارہ بلندی کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار علوم و فنون سے وابستہ شخصیات کا ہوتا ہے۔ قوم بہت سے مراحل میں راہ نمائی کے لیے اہلِ علم و فن کی طرف دیکھتی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔
ہمارے معاشرے کے معاملات دوسرے بہت سے ترقی پذیر معاشروں سے قدرے مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں بیرونی ایجنڈوں کی بہار ہے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہمارے لیے غیر معمولی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف بھارت ہے جو ہمارے ہاں انتشار دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اُس کے یورپی حلیف ہیں جو کسی بھی حال میں پاکستان کو مستحکم دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری اشرافیہ کی مغرب میں جڑیں بہت گہری ہیں۔ اگر ہم بھارت کے ایجنڈوں کو کسی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو مغرب کا کیا کریں؟ اہلِ مغرب کی ریشہ دوانیاں نہیں جاتیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ سوال صرف کرنے کا نہیں بلکہ دوسروں یعنی بدخواہوں کو کچھ کرنے سے روکنے کا بھی ہے۔ آج کی دنیا میں سبھی کچھ بدل چکا ہے۔ میدانِ جنگ بھی اب وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔ آج جنگیں زمینی میدان سے زیادہ میڈیا پورٹلز کے میدانوں میں لڑی جارہی ہیں۔ ہتھیار بھی بدل چکے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر میں ممکن بنائی جانے والی غیر معمولی پیشرفت نے ایسے ہتھیار متعارف کرائے ہیں جو جسم کو نہیں بلکہ ذہن کو نشانہ بناتے ہیں۔ آج اچھی خاصی اور قدرے فیصلہ کن جنگ میڈیا کے محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ ہر معاشرہ کسی نہ کسی طور دشمن کی زد پر رہتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اب ہمارے کسی بھی دشمن کو ہم سے براہِ راست لڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہمیں میڈیا کے محاذ پر آسانی سے ہدف بناسکتا ہے اور بناتا آیا ہے۔ ایک طرف بھارت ہماری راہوں میں کانٹے بونے پر تلا رہتا ہے اور دوسری طرف مغربی دنیا ہے جو اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے اور ہمیں مضبوط ہوکر خطے میں کوئی بڑا، قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کے قابل ہونے سے روکنے کے لیے میدان میں ہے یعنی ایجنڈے کے تحت ہمارے ذہنوں میں بہت کچھ اتار رہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مختلف اہم شعبوں میں جو کچھ بھی منفی ہو رہا ہے وہ محض ایجنڈے کے تحت ہے۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہماری اپنی بے ذہنی، نا اہلی اور لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ ہم قومی معاملات میں سنجیدہ ہیں نہ انفرادی سطح پر۔ کسی بھی قوم کی ترقی اور استحکام کا مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلیدی معاملات میں کس حد تک سنجیدہ اور پُرجوش ہے۔ ہمارا جو بھی حال ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ ہم کسی ایک قومی معاملے میں بھی سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں۔ معاشرت ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا صحت، طرزِ زندگی ہو یا طرزِ فکر، ہمیں کسی بھی معاملے میں پوری یکسوئی سے کام کرنا اچھا نہیں لگتا۔ بعض معاملات نا اہلی سے کہیں زیادہ لاپروائی کی نذر ہو رہے ہیں۔ ہم اگر تھوڑی سی سنجیدگی اختیار کریں، سوچیں، منصوبہ سازی کریں اور پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں تو کسی کو بھی پچھاڑنے میں بہت زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور سچ تو یہ ہے کہ بھرپور تیاری کے بعد کانٹے کے مقابلے میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑے تو دل زیادہ نہیں دُکھتا۔ دل تو تب دُکھتا ہے جب انسان تیاری نہ کرے، بے دِلی سے مقابلہ کرے اور آسانی سے ہتھیار ڈال کر جان چھڑائے۔ بیشتر اہم معاملات میں لاپروائی پر مبنی رویے کا اظہار اب بہت حد تک ہماری قومی شناخت بن چکا ہے۔ نئی نسل کو کیریئر کے لیے منصوبہ سازی کی فکر لاحق نہیں۔ کاروباری طبقہ زیادہ سے زیادہ منافع تو کمانا چاہتا ہے مگر اِس حوالے سے اصولی تیاری اور محنت کرنے کو تیار نہیں۔ لوگ اپنے شعبے سے زیادہ دوسرے شعبوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ فکر اپنی لاحق ہونی چاہیے مگر دوسروں کے غم میں دُبلا ہونے کا شوق جنون بن کر سَروں میں سمایا ہوا ہے۔ پورے معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ اپنے کام میں کم اور دوسروں کے کام میں زیادہ دلچسپی لی جائے۔ جب یہ روش قومی سطح کے معاملات میں اپنائی جاتی ہے تب زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ کلیدی شعبے اور ادارے جب اپنا کام بھول جائیں تو ملک اور قوم دونوں کے لیے بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
پاکستان کو ہر کلیدی معاملے میں بھرپور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ حالات کی نزاکت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم لاپروائی کو مزاج کا لازمی جُز بناکر تمام اہم معاملات کو یکسر نظر انداز کرتے رہیں۔ بیرونی ایجنڈوں کا مقابلہ بے حسی سے کیا جاسکتا ہے نہ بے دِلی سے۔ بیرونی ایجنڈوں کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے فکر و عمل کی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے متعلقہ طاقتوں کو مطلوب صلاحیت و سکت کے حامل افراد ہماری اپنی صفوں میں مل جاتے ہیں۔ اشرافیہ اس قدر مغرب زدہ ہے کہ قومی مفادات کی بات کرنے والوں کو آسانی سے قبول بھی نہیں کرتی اور آگے بڑھنے کے مواقع سے مستفید ہونے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑتی۔ صورتِ حال نازک ہے۔ ایسے میں لاپروائی کی گنجائش ہے نہ بیرونی ایجنڈوں کو قبول کرتے چلے جانے کی۔ اب حُب الوطنی کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم دیگر تمام معاملات کو پسِ پشت ڈال کر صرف قومی مفادات کے بارے میں سوچیں اور قومی مفادات کے خلاف جانے والوں کے آگے بند باندھیں۔ یہ کام اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وطن محض آنکھوں کے سامنے نہ ہو، دل میں بھی بستا ہو۔ وطن کے بارے میں سوچنا اُنہی کا کام ہے جنہیں واقعی وطن سے محبت ہو۔ ہمیں اپنے بچوں میں یہ جذبہ لازمی طور پر پیدا کرنا ہے۔ بچوں کو وطن کی محبت سے سرشار کرنا تمام والدین پر فرض ہے تاکہ بچے اپنی مٹّی سے پیار کرنا سیکھیں، اُس کی قدر کریں اور اُس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بھری دنیا میں ہم پاکستانیوں کو کوئی بھی مضبوط اور خوش نہیں دیکھنا چاہتا۔ چاہنے والے بھی ہیں۔ بدخواہوں سے البتہ ہوشیار اور بچ کر رہنا ہے۔ اس حوالے سے غفلت کی گنجائش ہے نہ ایجنڈوں سے مرعوب ہونے کی۔ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے ہم بیرونی ایجنڈوں سے محض مرعوب یا خوفزدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھی خواہ مخواہ ''انسپائر‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ معاشرے کی کلیدی شخصیات کو فرنٹ لائن میں آکر قومی حمیت و غیرت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ حقیقی قومی تعمیر و ترقی کی راہ ہموار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved