ملک شدید سیاسی انتشار کی زد میں ہے۔ ایک طرف معیشت کا بُرا حال ہے اور دوسری طرف اہلِ سیاست بھی مختلف بنیادی ایشوز کے حوالے سے روش بدلنے پر آمادہ نہیں۔ اداروں سے تصادم کی سی کیفیت نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ کہیں احتجاج ہے، کہیں دھرنے۔ لانگ مارچ کے ٹرینڈ نے ملک کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ اپریل سے اب تک صورتِ حال قابو میں نہیں آرہی۔ اداروں پر الزام تراشی نے معاملات کو ایسا الجھایا ہے کہ درستی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملک و قوم کے لیے انتہائی پریشان کن ہی نہیں‘ خطرناک بھی ہے۔ ملک جن معاملات کا کسی بھی طور پوری طرح متحمل نہیں ہوسکتا وہ تمام معاملات نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
ملک مفادات کے تصادم کی دہلیز پر رک ساگیا ہے۔ ہر شعبے میں صرف اور صرف مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے گروہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ صوبائیت نے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔ وفاق کی سطح پر سوچنے کا رجحان کمزور پڑتا جارہا ہے۔ قومی طرزِ فکر و عمل کو گلے لگانے والے خال خال ہیں۔ اُن کی طرزِ فکر و عمل کو سراہنے والے بھی کم ہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ جتنے بھی غیر متعلق معاملات ہیں اُن میں بھرپور دلچسپی لے رہا ہے اور اپنے تمام بنیادی مسائل کے حوالے سے شدید لاپروائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
کسی بھی کمزور اور پسماندہ معاشرے کو جب اندرونی سطح پر شدید نوعیت کی شکست و ریخت کا سامنا ہوتا ہے تو جو چند ادارے مضبوط رہ گئے ہوتے ہیں اُنہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں چند ایک غلط فیصلے بھی ہو سکتے ہیں؛ تاہم نیت دیکھی جاتی ہے، عمل نہیں۔ اگر نیت اچھی ہو تو غلط فیصلہ یا غلط عمل بھی گوارا کرلیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب وہ منزل آچکی ہے کہ صاحبانِ دانش آگے آ کر اپنا کردار ادا کریں۔ مشکل بلکہ بدنصیبی یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ چند غیر ریاستی ایکٹرز بھی اداروں کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک کو جس طرح کے استحکام کی ضرورت ہے وہ دور دور تک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ سیاست دانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اُنہیں تو کچھ احساس ہی نہیں۔ ایک زمانے سے لوگ یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ اہلِ سیاست کچھ کریں گے، آگے بڑھ کر قوم کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں گے مگر وہ کچھ کرنے کے لیے تو کیا تیار ہوں گے‘ کسی کو کچھ کرنے بھی نہیں دے رہے۔ اقتدار کی کشمکش نے اہلِ سیاست کو پوری قوم کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔ قوم کو اس مرحلے پر صرف ایک چیز چاہیے اور وہ ہے وسیع تر یا ہمہ گیر مصالحت۔ ہر سطح پر مصالحت کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست دان اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر تو ایک ہو جاتے ہیں، عوامی مفادات اور قومی معاملات کے لیے کبھی ایک نہیں ہوتے۔ منتخب ایوانوں کو بھی خالص ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ قوانین میں ایسی ترامیم کی جارہی ہیں جن سے کسی ایک گروہ یا طبقے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ قوم منتظر ہے کہ اُس کے لیے بھی کچھ سوچا اور کیا جائے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وفاقی اور صوبائی‘ دونوں ہی سطحوں پر صرف اور صرف ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ قومی سطح کے معاملات میں درستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے جس سوچ کی ضرورت ہے اُس کا دور دور تک نشان نہیں۔
ہمارے ہاں معاملات تین چار عشروں کے دوران مرحلہ وار بگڑے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سیاست دان بگڑے ہوئے ہیں۔ بگاڑ صرف سیاست میں نہیں آیا۔ ہر شعبہ خرابی کا شکار ہے۔ سرکاری یا انتظامی مشینری بھی بگڑی ہوئی ہے۔ افسر شاہی نے جو گُل کھلائے ہیں اُن کی ''مہک‘‘ سے بھی ہم بخوبی واقف ہیں۔ ہم ایک زمانے سے یہ پورا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کرپشن کی جڑیں اس معاشرے میں بہت گہری ہیں۔ کوئی ایک شعبہ بھی کرپشن سے پاک نہیں۔ عام آدمی کا کام اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ کمائے، جو کچھ خریدے اُس پر ٹیکس ادا کرے۔ عام آدمی کی کمائی سے وصول کیے جانے والے ٹیکس پر پوری ریاست پل رہی ہے۔ کیا سیاست دان اور کیا حکومتی مشینری سبھی مزے لُوٹ رہے ہیں۔ ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کی ضرورت غیر معمولی ہے مگر اس ضرورت کے بارے میں سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کر رہا۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ قومی سطح پر مصالحت کا اہتمام کیا جائے؟ کئی ممالک میں یہ تجربہ کیا جاچکا ہے اور کامیاب رہا ہے۔ جنوبی افریقہ ایک زمانے تک خرابیوں کی زد میں رہا۔ سفید فام انتظامیہ نے سیاہ فام اکثریت کو دبوچے رکھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب نیلسن منڈیلا اور اُن کے ساتھیوں نے مصالحت کا راستہ اپنایا۔ قومی سطح پر مصالحت کا اہتمام کیا گیا۔ ملک اور قوم کے لیے سوچنے کی راہ ہموار کی گئی۔ یوں جنوبی افریقہ میں حقیقی معاشی و معاشرتی استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔
پاکستان میں قومی سطح کی سوچ اب بقا کے مسئلے سے دوچار ہے۔ لوگ اپنے اپنے مفادات کے فریم ورک میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں اور قومی سطح کی سوچ اپنانے سے واضح طور پر گریز کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حب الوطنی ناپید ہے۔ لوگ وطن سے محبت بھی کرتے ہیں مگر جب انتہائی بنیادی معاشی ضرورتوں کی بات آتی ہے تو سوچ محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ عام آدمی بڑی بڑی باتیں کرتا ہے نہ زیادہ سوچتا ہے۔ اُسے تو قومی سطح کی سوچ اپنانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا۔ وہ تو صرف اِس بات کا منتظر ہے کہ بڑے مل بیٹھیں، ملک کے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچیں، مشاورت کے ذریعے کوئی راہ نکالیں۔ ملک کو تعمیر و ترقی کی ضرورت ہے۔ قدرتی آفات کے ہاتھوں ملک کا حال خراب ہے۔ پہلے کورونا کی وبا نے معیشت کو کمزور کیا۔ رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ملک بھر میں کھڑے ہونے والے پانی نے بہت سی وباؤں کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ ہزاروں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور لاکھوں افراد بیمار پڑے ہیں۔ سیلاب کے ہاتھوں صورتِ حال صرف سندھ میں خراب نہیں بلکہ ملک بھر میں لوگ پریشان رہے ہیں۔ ایسے میں اِس بات کی گنجائش ہے ہی کہاں کہ سیاسی، گروہی، طبقاتی اور دیگر محدود مفادات کے حوالے سے سوچا جائے۔ اب تو صرف قومی سطح پر سوچنے کی گنجائش بچی ہے۔ ریاستی اداروں سے تصادم کی کیفیت کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو پورے ملک اور قوم کو داؤ پر لگانے والی بات ہے۔ ایسے میں صرف ایک آپشن بچتا ہے‘ قومی مصالحت کا۔ جتنے بھی سٹیک ہولڈرز ہیں‘ وہ مل بیٹھیں۔ علم و فن اور دیگر خالص غیر سیاسی شعبوں کی ممتاز شخصیات قومی سطح کی مصالحت میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئیں۔ لازم ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز محض ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوں بلکہ خالص قومی اور عوامی مفادات کو ترجیح دینے پر بھی آمادہ ہوں۔ عام آدمی کی حالت بہت بری، بلکہ قابلِ رحم ہے۔ وہ منتظر ہے کہ اُس کی طرف متوجہ ہوا جائے یعنی اُس کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی جائے۔ عام آدمی کے خوابوں کو کسی حد تک شرمندۂ تعبیر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے بجائے قومی خزانے کو مستحکم کرنے کی بات کی جائے۔ صرف گھر کا نہ سوچا جائے بلکہ محلے، علاقے اور صوبے کی سطح سے بھی بلند ہوکر خالص قومی سطح پر کچھ کرنے اور اصلاحِ احوال کی راہ ہموار کرنے کی بات کی جائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب قومی سطح پر مصالحت کا ڈول ڈالا جائے۔
ملک خالص مافیا سوچ کی زد میں ہے۔ اس سوچ سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ کہیے اور ہو جائے۔ اِس کے لیے بہت کچھ سوچنا اور کرنا پڑے گا۔ سٹیک ہولڈرز کو سوچنا ہوگا کہ وہ ملک کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں‘ بند گلی میں یا پھر کھلے میدان میں؟ خالص قومی مصالحت سے کم کا آپشن قابلِ عمل نہیں اور مرکزی نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے والے حالات یقینی بنائے جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved