حادثے سے بڑھ کر حادثہ یہ ہوا کہ حادثے کااصل سبب نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی گئی۔
زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب پر کیا گیا وار خالی گیا اوریہ آفاقی حقیقت ایک بار پھرپوری شان کے ساتھ نمودار ہوگئی۔یہ مقامِ شکر ہے گولی ان کے جسم کے اس حصے پر لگی کہ جہاں کم سے کم نقصان ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند گھنٹوں بعد ہی وہ چلنے پھرنے کے قابل تھے۔خان صاحب ایک مقبول عوامی رہنما ہیں۔ان سے اَن گنت لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں۔ان کو محفوظ رکھ کر اللہ نے پاکستان کو ایک بڑے فساد سے محفوظ کر دیا۔اللہ تعالیٰ خان صاحب سمیت سب قومی رہنماؤں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم سیاسی مسائل کا حل سیاسی میدان ہی میں تلاش کریں۔
یہ واقعہ کیوں ہوا؟دو اسباب ظاہرو باہر ہیں۔اصل سبب البتہ کھوج لگانے سے معلوم ہوتا ہے۔پہلے ظاہری اسباب کی بات کرتے ہیں۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے 26اکتوبرکو لانگ مارچ کے لیے بنیادی ضوابط (SOPs)جاری کیے تھے جنہیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ان ضوابط سے آئی جی پولیس‘متعلقہ علاقوں کے انتظامی سربراہوں یعنی کمشنرز‘ شعبہ انسدادِ دہشت گردی کے پولیس افسران‘ سپیشل برانچ‘گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے سی پی اوز سمیت تمام متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ان سب کا تعلق پنجاب حکومت سے ہے۔
ان ضوابط میں یہ بات شامل تھی کہ عمران خان جہاں سے خطاب کریں گے‘وہاں چاروں طرف شیشے کی بلٹ پروف دیوار ہوگی۔ایک خاص فاصلے تک ان کے اور عوام کے درمیان پولیس کا حفاظتی حصار ہوگا۔ ان ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ راستے کے دونوں اطراف بلند عمارتوں کی نگرانی کی جا ئے گی اور ان پر پولیس کا پہرا ہوگا۔خان صاحب کے لانگ مارچ میں اس طرح کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔
ان ضوابط میں کچھ خاص نہیں۔ان میں شامل اکثر حفاظتی تدابیر تو محرم کے جلوسوں کے لیے بھی اختیار کی جاتی ہیں۔جن راستوں سے جلوس گزرتا ہے‘اردگرد کی عمارتوں پر پولیس کا پہرا ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ان کا خیال کیوں نہیں رکھا؟یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک عام آدمی پستول کے ساتھ کنٹینر کے اتنے قریب آیا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے فطری طورپر نظریں پنجاب حکومت کی طرف اٹھنی چاہئیں۔
دوسرا سبب تحریکِ انصاف کے ان رہنماؤں اورکارکنوں کی کوتاہی ہے جو کنٹینر بنانے ا ور اس کے انتظام پر مامور تھے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کنٹینر بلٹ پروف کیوں نہیں بنایا گیا؟اس کو آرام دہ بنانے پر جتنی توجہ دی گئی‘اتنی توجہ اس کی حفاظت پر کیوں نہیں دی گئی؟ان سوالات کے جواب تحریکِ انصاف کے ذمہ داران پر لازم ہیں۔یہ دو اسباب تو ظاہر وباہر ہیں۔ان کا تعلق عقلِ عام سے ہے؟لازم ہے کہ سب سے پہلے ان کی طرف دھیان جائے۔حیرت یہ ہے کہ خان صاحب اور ان کی جماعت نے ان کو پوری طرح نظر انداز کیا۔
اب آئیے‘ اصل سبب کی طرف جس کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا۔ ملزم کی گفتگو کا ایک حصہ میڈیا پر مشتہر ہوا۔اس کی اصل گفتگو سوشل میڈیا پر موجود ہے‘جس سے معاملے کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔اس گفتگو میں اس نے بتایاہے کہ خان صاحب کو ہدف کیوں بنایاگیا۔اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کن علما کی تقاریر سنتا ہے۔ اس سے کیے گئے سوالات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے فون پر ان علما کی تقاریر موجود ہیں۔
یہ وہ علما نہیں ہیں جنہوں نے لوگوں کو مارنے کے لیے گروہ بنائے ہوں۔ انہوں نے ایسے جتھے منظم نہیں کیے جو مخالفین کو ہدف بناتے ہوں۔ اس لیے موجود قانون انہیں گرفت میں نہیں لے سکتا۔ انہوں نے دراصل وہ سوچ پیدا کی ہے جس کے بعد انہیں خود جتھہ بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سوچ کا ہر پیروکار‘ اس فکر کو اپنا لینے کے بعد خود یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔کوئی جتھہ بناکر کارروائی کرتا ہے اور کوئی انفرادی طور پر۔
میں نے اُس نوجوان کا واقعہ کئی بار نقل کیا ہے جو 1960ء کی دہائی میںمولانا مودودی کو قتل کرنے ان کے گھر جا پہنچا تھا جہاں وہ بعد عصر‘عام مجلس کیا کرتے تھے۔اس میں ہر آدمی شریک ہو سکتا اور مولانا سے سوال کر سکتا تھا۔ان دنوں مولانا کے خلاف ایک مذہبی گروہ بطورِ خاص سرگرم تھا جو انہیں عوامی جلسوں میں گستاخِ صحابہ ثابت کرتا اوراس کے خطیب مولانا کے خلاف لوگوں کے جذبات مشتعل کرتے تھے۔ ایک نوجوان ایسے ہی ایک خطیب کی تقریر سن کر مولانا کو قتل کرنے جا پہنچا کہ ایسے گستاخ کا انجام موت ہے۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ اسے وہاں بیٹھ کر مولانا کی گفتگو سننے کا موقع ملا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ایسی دینی شخصیت کیسے صحابہ کی شان میں گستاخی کی جسارت کر سکتی ہے؟اس نے اپناخنجر نکالا اوراپنے ارادے پر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے اپنی سوچ سے رجوع کیا۔
جب یہ خبر پھیلی توخطیب صاحب نے بتایا کہ وہ اس نوجوان کو نہیں جانتے اور انہوں نے کوئی ایسی ترغیب نہیں دی۔ وہ سچ کہہ رہے تھے لیکن بالواسطہ وہ اس کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے معاشرے میں جو سوچ پھیلائی‘اس کا لازمی نتیجہ ایسے نوجوانوں کا پیدا ہونا ہے۔ عمران خان صاحب نے اپنے حق میں ایک مذہبی استدلال مرتب کیا۔ اس طرزِ عمل نے دو طرح کے لوگ پیدا کیے۔ ایک طرف وہ جنہوں نے خان صاحب کو وہی مقام دیا جو اللہ کے برگزیدہ بندوں کے لیے خاص تھا‘اگرچہ وہ الفاظ میں یہ اظہار نہ کریں۔دوسری طرف اس کا ردِ عمل ہوا اور وہ لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اسے توہین سمجھاکہ خان صاحب کو یہ درجہ دیا جائے۔
سماج کوجب انتہاؤں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے تو یہ اس کا فطری نتیجہ ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھاتھا کہ خان صاحب نے جو فضا پیدا کر دی ہے‘اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ انتہائی تعلق ہی رکھا جا سکتا ہے‘یہ محبت کے عنوان سے ہو یا نفرت کے۔سماج میں بہت کم لوگ ملیں گے جو ان کے بارے میںمتوازن سوچ رکھتے ہوں۔میں برسوں سے اصرار کررہا ہوں کہ سب سیاست دان اقتدار کے کھیل کے کھلاڑی ہیں۔انہیں یہی سمجھنا چاہیے۔ان میں ولی اور اوتار نہیں ہوتے۔آپ کو ترجیح کا حق حاصل ہے لیکن یہ عام انسانوں کے مابین ہے‘دیوتا اور شیطان کے مابین نہیں۔یہ واقعہ ہمیں متوجہ کر رہاہے کہ ہم اصل سبب کو سمجھیں۔یہ مذہبی جنون ہے جو سماج میں پھیل چکا۔سیاسی جنون نے اسے دوچند کر دیا ہے۔
میں سماج میں آنے والی اس تبدیلی سے واقف ہوں‘اس لیے ملزم کا بیان میرے لیے حیرت کا باعث نہیں۔افسوس ہے کہ خان صاحب نے اس حادثے سے سیاسی فائدہ کشید کرنا چاہا اور اس کا رخ سیاسی مخالفین کی طرف موڑ دیا۔ان کو اپنے خدشات کے بیان کاحق ہے اور ان کی تحقیق ہونی چاہیے۔مگراس سے پہلے کسی سیاسی مخالف کانام لے کر اسے نامزد کرنا بہت خطرناک ہو گا۔ اس کا نتیجہ اس کے سواکچھ نہیں کہ جنون اور ہیجان کو مزیدہوا دی جائے۔ اس بار ریاست کا ایک ادارہ براہ راست ہدف ہے۔ہیجان کے نتائج اب نوشتہ دیوار ہیں۔بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وقتِ دعاہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved