تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-11-2022

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

کسی تشدد کو پسند نہیں کیا جا سکتا: احسن اقبال
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''کسی تشدد کو پسند نہیں کیا جا سکتا‘‘ کیونکہ اسے ہمیشہ برداشت کیا جاتا ہے جبکہ کسی چیز کو پسند کرنا بڑے دل گردے کا متقاضی ہے جبکہ عمر کے اس حصے میں دل گردوں کی بھی وہ آن بان باقی نہیں رہتی کہ کسی چیز کو پسند بھی کیا جائے اس لیے ایک آدھ بیان دے دینا ہی کافی ہوتا ہے جیسا کہ میں کر رہا ہوں اور میرے اس بیان کو تشدد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کافی سمجھا جانا چاہیے جبکہ تشدد تو ویسے بھی ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور اس کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ اس سے فائدہ کم اور بدنامی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے بدنامی سے بچنا زیادہ ضروری ہے کہ اس سے عزت پر بھی حرف آتا ہے۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے پروگرام ''آج کامران خان کے ساتھ ‘‘میں شریکِ گفتگو تھے۔
قومی وسائل لوٹنے والوں کا
محاسبہ کریں گے: زلفی بخاری
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے کہا ہے کہ ''ہم قومی وسائل لوٹنے والوں کا محاسبہ کریں گے‘‘ جبکہ بہت سوں کا پہلے محاسبہ کر بھی چکے ہیں اور جو باقی رہتے ہیں وہ بھی اس کے لیے تیار رہیں کیونکہ فی الحال محاسبے کی ایک یہی صورت باقی بچی ہے کہ احتسابی اداروں سے پکڑوایا جائے، پیشیوں پر چکر کاٹنے اور ضمانتیں ہونے کے بعد انہیں بری کر دیا جائے جس سے ہمارا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور ان کی گاڑی بھی چلتی رہتی ہے جبکہ فائدہ بھی اسی میں ہے کہ دونوں کی گاڑی چلتی رہے اور راستے ہی میں رک کر کھڑی نہ ہو جائے اور اس طرح ہماری مخلصانہ کوششوں کو کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے آصف زرداری کے ریفرنس مسترد ہونے پر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
جس طرح بات کریں گے‘ اسی
طرح جواب ملے گا: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''جس طرح بات کریں گے، اسی طرح جواب ملے گا‘‘ اگرچہ بات کے جواب میں کسی پر حملہ کرنا بے حد قابلِ مذمت ہے جبکہ ٹانگ پر گولی مارنا تو نہایت قبیح فعل ہے جس سے آدمی چلنے پھر نے سے معذور ہو سکتا ہے اور جان بچ جائے تو بھی ایک اپاہج کی سی زندگی گزارنا عذابناک ثابت ہوتا ہے اس لیے ایسی سوچ کی بھی سختی سے مذمت کرنی چاہیے جو کسی پر حملے کی ترغیب دے یا اسے کسی طرح سے ہلہ شیری دے جبکہ بات کا جواب بات ہی سے دیا جانا چاہیے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔ آپ اگلے روز عمران خان پر قاتلانہ حملے کی مذمت کر رہی تھیں۔
لوگوں کو مایوس کیے بغیر زندگی
نہیں گزاری جا سکتی: فلمسٹار ثنا
فلم اور ٹی وی اداکارہ ثنا نے کہا ہے کہ ''لوگوں کو مایوس کیے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی‘‘ بصورتِ دیگر آدمی کوئی اور کام کر ہی نہیں سکتا اور انہی کی خاطر خدمت جوگا ہو کر رہ جاتا ہے اس لیے زندگی میں اگر کچھ اور بھی کرنا ہو تو لوگوں کو مایوس کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے؛ چنانچہ اب مقصد یہی ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے کیونکہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے جسے ڈھنگ سے گزارنا ہی اس کا اعلیٰ مقصد ہے؛ چنانچہ لوگوں کو ایک ایک کر کے مایوس کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انہیں ایک ساتھ ہی مایوس کر دیا جائے جس سے کافی وقت بھی بچ رہتا ہے جبکہ انسان کی سب سے قیمتی چیز اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز انسٹاگرام پر اپنی تصویر کے ساتھ ایک پوسٹ شیئر کر رہی تھیں۔
قدرت کا قانون ہے کہ آگ
لگانے والا خود بھی نہیں بچتا: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ نے کہا ہے کہ ''یہ قدرت کا قانون ہے کہ آگ لگانے والا خود بھی نہیں بچتا‘‘ اس لیے بہتر ہے کہ آگ لگانے کا کام نہایت احتیاط سے کیا جائے، خاص طور پر وہ افراد جو چولہے کے بجائے سلنڈر وغیرہ استعمال کرتے ہیں، انہیں زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور پہلے دیا سلائی جلا کر برنر پر رکھنی چاہیے‘ اس کے بعد ہی گیس وغیرہ کا والو کھولنا چاہیے، اس سے حادثات کا خدشہ بھی کافی کم ہو جاتا ہے جبکہ مزید تربیت کے لیے ریسکیو اور ریلیف مینجمنٹ کے کورسز میں شرکت اختیار کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز عمران خان پر وزیرآباد میں ہوئے حملے پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
ہے اپنا ہونا اسی سے جڑا‘ وہ ہے تو سہی
کہ ہو گیا ہے اگر بے وفا‘ وہ ہے تو سہی
تو اس سے کیا ہے جو پانی نہیں نصیب ہمیں
کہ سایہ تو ہے میسر‘ گھٹا وہ ہے تو سہی
اگرچہ دور ہیں اس کی نگاہِ لطف سے اب تک
کبھی پڑے گی وہ ہم پر‘ خدا وہ ہے تو سہی
ہم اس کی سوچ کے ساحل پہ آ رکیں گے کسی دن
سمجھتا ہو کہ نہ ہو‘ سوچتا وہ ہے تو سہی
یہ دیکھنا ہے کہ صرفِ نظر کرے گا وہ کب تک
کہ ہم نظر میں نہیں‘ دیکھتا وہ ہے تو سہی
ہم اس کے ہونے سے انکار تو نہیں کرتے
سو‘ اس کو ڈھونڈ ہی لیں گے کہ تھا وہ ہے تو سہی
کھلائے گا وہ مرے دل کا پھول بھی کسی دن
رواں دواں جو ہے بادِ صبا وہ ہے تو سہی
پرانا گھر ہے دل اس کا کبھی تو آئے گا
کہ اس مکان میں کچھ دن رہا وہ ہے تو سہی
ظفرؔ میں منزلِ مقصود تک پہنچ نہ سکوں
بھٹک تو سکتا ہوں میں‘ راستا وہ ہے تو سہی
آج کا مطلع
کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved