سابق وزیراعظم عمران خان پر حملے کے بارے میں ملک بھر میں شدید بحث جاری ہے۔ طرح طرح کے نکتے اٹھائے جا رہے ہیں اور شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔الزامات لگانے والے بھی نہیں چوک رہے، اور گالی دینے والے بھی آرام سے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔حملے سے پہلے کشیدگی کی جو فضا تھی، وہ جوں کی توں ہی واپس نہیں آئی، مزید بوجھل اور کشیدہ ہو گئی ہے۔ ملک بھر میں اس بات پر تشکر اور اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا کہ خان صاحب محفوظ رہے،انہیں معمولی زخم آئے، لیکن کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ وزیر آباد یا گوجرانوالہ کے کسی ہسپتال میں ان کا معائنہ کرانے کے بجائے لاہور واپسی کو ترجیح دی گئی۔ ریسکیو 1122 کے چوکس عملے کی نگرانی میں انہیں شوکت خانم ہسپتال پہنچا دیا گیا۔جونہی یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب کو بذریعہ ایمبولینس لاہور لایا جا رہا ہے تو ان کے دعا گووئوں کو ان کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو گیا۔خدانخواستہ کسی خطرے سے دوچار ہوتے تو انہیں کئی گھنٹے سفر کی صعوبت سے دوچار نہیں کیا جا سکتا تھا۔لاہور لانے کے لیے ایئر ایمبولینس بھی طلب کی جا سکتی تھی، لیکن سڑک کے ذریعے جب انہیں جائے حادثہ سے روانہ کر دیا گیا تو دعائوں سے بھرے دلوں کو قرار سا آ گیا۔ سب بری خبروں کے درمیان اچھی بلکہ سب سے اچھی خبر یہی تھی (اور ہے) کہ عمران خان محفوظ رہے۔دوسرے ہی روز انہوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ طویل نشریے سے ہر شخص کو یقین دلا دیا کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ ان کے عزم وارادے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔وہ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حملہ آور ایک تھا، اور اُس نے اپنے طور پر یہ واردات کرنے کی کوشش کی۔اس کی جو ویڈیو منظر عام پر آ رہی ہے اس میں مذہبی حوالہ موجود ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ عمران خان گمراہی پھیلا رہے تھے،اس نے جن الفاظ میں جو کچھ کہا ہے، اسے دہرانے کی ضرورت ہے نہ فائدہ،تحقیقات کے نتائج سامنے آئیں گے تو پتہ چل سکے گا کہ یہ اُس کے دماغ کا فتور تھا یا کسی اور نے اسے آلہ ٔ کار بنایا تھا۔ہر شخص جانتا ہے کہ عمران پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں،اور ان کی جدوجہد اسی نکتے کے گرد گھوم رہی ہے۔ انہیں مذہبی حوالے سے نشانہ بنانا پرلے درجے کی گمراہی اور حماقت ہے،لیکن پاکستان میں جو ماحول پیدا کر دیا گیا ہے، جس طرح مذہبی حوالوں سے مخالفین کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔احسن اقبال جیسے دیندار پر بھی ایک مذہبی نعرے کی آڑ میں قاتلانہ حملہ کیا جا سکتا ہے، تو پھر کسی کے خلاف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی حوالوں سے جذبات کو اکسانے میں عار نہیں سمجھتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت کے یہ الائو بدستور دہکائے جا رہے ہیں، اور قانون بے چارہ بے بس تماشائی کی طرح ''ٹک ٹک دیدم‘‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔
عمران خان نے اپنا لانگ مارچ تو ملتوی کر دیا ہے،لیکن اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ تین افراد کی گرفتاری تک احتجاج جاری رکھیں،یعنی سڑکوں پر اودھم مچاتے رہیں۔ان تین میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام بھی شامل ہے۔ آئی ایس پی آر نے اس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے قانونی کارروائی کی مانگ کی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد عمر اور اسلم اقبال کہیں پہلے خان صاحب کے حوالے سے ان تین ملزموں کے نام سامنے لا چکے تھے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق وقوعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی کہ اس کے مندرجات کے حوالے سے عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان اتفاق نہیں ہو پا رہا۔کسی حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف اولاً تو شواہد کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج ایک انوکھا واقعہ ہو گا، اگر ایسا کر بھی لیا گیا تو پھر مزید کارروائی کا حق فوجی حکام کو منتقل ہو جائے گا۔ اس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔یہ بات نگاہ سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت قائم ہے۔وزارت داخلہ کا چارج بھی اس کے ایک سینئر رکن کے پاس ہے، وفاقی حکومت کا لانگ مارچ کی سکیورٹی یا اس کے انتظامات سے کوئی تعلق نہیں یہ یکسر صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔وزیراعلیٰ پنجاب نے تفتیش کے لیے جو جے آئی ٹی مقرر کی ہے، اسے کام کرنے کا موقع دیے بغیر نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ رانا ثنا اللہ جوابی وار کر رہے ہیں، گویا آگ پر پانی ڈالنے والا کوئی نہیں جبکہ تیل چھڑکنے والے کئی ایک ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ایک وزیر کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں وہ بندوق ہاتھ میں اٹھا کر رانا ثنا اللہ کو دھمکا رہے ہیں۔ فواد چودھری بھی فرطِ جذبات میں انتقام انتقام کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
اس ماحول میں عمران خان کی ذمہ داری تھی(اور ہے) کہ وہ حالات کو سنبھالیں۔ان کا مطالبہ جلد انتخابات کا ہے،اگر اسے قبول کر لیا جائے اور وہ جیت کر اقتدار حاصل کر لیں تو بھی ''مرنے مارنے‘‘ کی فضا میں کیا بآسانی حکومت کر سکیں گے؟ انہیں اپنی انتخابی کامیابی کا سو فیصد یقین ہے تو پھر فضا کو بہتر بنانا ان کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ یہ سرا سر اُن کے مفاد کا تقاضا ہے۔اپنے حریفوں کے ساتھ بھی انہیں کشادہ دلی سے معاملہ کرنا چاہیے۔خان صاحب کے سارے حریف اسی طرح میدان میں رہیں گے جس طرح آج خان صاحب موجود ہیں، پھر وہ اپنے ہی راستے میں کانٹے کیوں بچھا رہے ہیں۔گھی نکالنے کے لیے انگلی کو ٹیڑھا کیوں کر رہے ہیں جبکہ یہ کام بآسانی سیدھی انگلیوں سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جو شخص وزارت عظمیٰ کے منصب پر موجود ہو، اُس کے دستخطوں کے بغیر قومی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے، نہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے،پھر وہ غیر آئینی دبائو کے ذریعے اپنا مطالبہ کیوں منوانا چاہتے ہیں؟ براہِ راست بات چیت کا دروازہ کیوں بند کیے ہوئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ہے تو اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنا دل نرم کر لیں۔ اس کے دروازے کھولیں، تفتیشی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں،اپنے راستے کے کانٹے سمیٹیں،اگر وہ تازہ توانائی حاصل کرنے کے بعدہر طرح کے کانٹے اکٹھے کر کے اپنے ہی راستے میں بچھانے میں لگ جائیں گے تو پھر کیا معلوم کہ کون سا کانٹا کہاں چبھ جائے؟
حضرت حافظ سلمان مرزا حافظ کا مجموعہ
جناب حافظ سلمان مرزا نے اپنے رشحاتِ فکر کا مجموعہ ''راہِ حق کی جستجو‘‘ بڑی محبت کے ساتھ عطا کیا ہے اس میں خطاطی کے اعلیٰ نمونے بھی موجود ہیں۔ نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کی خوشبو سے بھی یہ مجموعہ مہک رہا ہے۔ جناب حافظ کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور جو کچھ سنا، اس کے بعد یہی دعا ہے کہ ارضِ وطن پر ان کا بابرکت سایہ تاقیامت قائم رہے۔
بقول ارسلان احمد ارسل ؎
ناز کرتے ہیں زمانے بھر کے سارے صالحین
رشک کرتے ہیں جہاں کے پارسا سلمان پر
لفظ چھوٹے پڑ رہے ہیں آج تو اظہار کو
ورطۂ حیرت میں ہوں لکھوں میں کیا سلمان پر
جب ندامت سے بسایا اشکوں کو سلمان نے
یوں لگا کہ ہو گیا راضی خدا سلمان پر
دیکھا جب سلمان کا نورانی چہرہ پہلی بار
ہو گیا تھا اس گھڑی ارسل فدا سلمان پر
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved