تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     01-09-2013

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ!

یہ شہر کا ایک پوش علاقہ ہے۔ کنالوں پر پھیلے ہوئے بنگلے، بڑی بڑی چمچماتی گاڑیوں کی قطاریں۔ صاحب کی ٹائی سے لے کر جوتوں اور بیگم صاحبہ کی ہیئرپن سے لے کر ہینڈ بیگ تک سب کچھ ’’برانڈڈ اور ڈیزائنر میڈ‘‘ ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے خوشحال لوگ ہزاروں کا کھانا منگوا کر چند لقمے کھاتے ہیں اور اپنی ڈائٹنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ کھانے سے زیادہ فائیو سٹار ہوٹلوں کی Ambiance کو انجوائے کرنے والے یہ دولت مند لوگ، اپنے بچوں کے قدموں میں دنیا کی ہر شے ڈھیر کر دیتے ہیں۔ امپورٹڈ کھلونوں سے لے کر کتابوں تک ہر خواہش منٹوں میں پوری ہوتی ہے۔ ان کے بچے ایسے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں ماہانہ فیس لاکھوں روپیہ ہو۔ زندگی کا ہر کام سٹیٹس سمبل کے لیے کرنے والے ان دو لت مند لوگوں کی پوری زندگی پیسے سے مزید پیسہ کمانے میں گزر جاتی ہے۔ دوسری جانب ایک اور ہی منظر ہے۔ یہ ایک غریبوں کی بستی ہے جہاں تنگ و تاریک گلیوں میں سانس لینا بھی دشوار ہے۔ ننگ دھڑنگ بچے، سکول جانے کی عمروں میں یا تو مزدوری کرتے ہیں پھر گلیوں میں کھیلتے پھرتے ہیں۔ ان کے چہروں پر بھوک تحریر ہے اور آنکھوں میں حسرتیں تصویر! اس بستی کے مکین سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے روزانہ اپنی زندگی کا تھکا دینے والا سفر کرتے ہیں۔ یہ سفر انہیں کسی منزل پر نہیں لے جاتا بلکہ دائروں میں گھماتے ہوئے بھوک، ننگ اور غربت کے اس صحرا میں لاکھڑا کرتا ہے جسے پاٹنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ وہ صبح سے شام تک اپنے جسم کی تمام تر توانائیوں کو محنت کے پسینے میں بہاتے ہیں‘ قسمت کی کھیتی کو سینچتے ہیں مگر آس کی کونپل تک نہیں پھوٹتی۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں دولت کو مزید دولت کے حصول کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام کاروبارِ معیشت منافع کے گرد گھومتا ہے اور اس منافع میں کام کرنے والے‘ یعنی اس منافع کا باعث بننے والے لاکھوں مزدوروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کیپٹل ازم ہی اس وقت پوری دنیا میں رائج معاشی نظام ہے۔ فرد کی دولت کمانے کی آزادی نے فری مارکیٹ کے تصور کو جنم دیا اور اس تصور نے دولت مندوں میں مزید دولت کی ہوس کو بیدار کیا۔ طاقت ور مزید طاقت ور ہونا چاہتا ہے اور ایک سادہ سے اصول کے مطابق کمزور کی موجودگی ہی طاقت ور کی اہمیت کو بڑھاتی ہے اور غربت کے مقابل ہی دولت مندوں کی دولت لشکارے مارتی ہے۔ یوں سماج دو طبقوں میں بٹ جاتا ہے۔ اگرچہ خدا کے نظام کے مطابق معاشرے میں غربت اور امارت کا وجود قائم ہوتا ہے کیونکہ اسی سے کاروبار حیات چلتا ہے‘ لیکن اگر اسلامی معاشی نظام‘ جو زکوٰۃ، خیرات، صدقات اور انسانی بھلائی کے تصور پر مبنی ہے، قائم ہو تو پھر امیر اور غریب میں خوفناک حد تک فرق نہیں ہوتا۔ دین انسانیت‘ اسلام میں دولت کی نمائش منع ہے۔ ذرا دیکھیں کہ اسلام کس حد تک دولت مندوں کو غربا کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ پھلوں کے چھلکے باہر ایسے نہ پھینکو کہ غریب ہمسایوں کے دل میں حسرت جاگے۔ گوشت پکائو تو شوربہ زیادہ بنا لو تاکہ غریب ہمسایوں کو بھی بھیج سکو۔ اس کے برعکس کیپٹل ازم میں نمائش اور کمرشلائزیشن اہم ہے۔ دو روپے کی چیز، دو ہزار میں اس لیے خریدی جاتی ہے کہ یہ سٹیٹس سمبل ہے۔ بڑی گاڑیاں، برانڈڈ سوٹ، ڈیزائنر لون، سمارٹ فون اور ہر قسم کے بگ نیم، کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ پھر اس کے مقابل، بھوک، غربت، سسکتی ضرورتیں، بیماریاں، حسرتیں اور نارسائی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہے کیپٹل ازم کا معاشرہ جہاں انسانوں کی تذلیل ہوتی ہے‘ جہاں انسانی ضرورت کی اہمیت اس کے طبقے سے وابستہ ہے۔ دولت مندوں کے لیے ہر شے وافر اور بہترین ہوگی اور غربت کے ماروں کے لیے دوائیں بھی جعلی، اور غذائیں بھی ناکارہ۔ کیپٹل ازم نے ہمارے معاشرے کا تانا بانا بدل کر رکھ دیا ہے اور غیر محسوس طریقے سے ہمارے رہن سہن اور سوچ کے انداز بھی بدل دیے ہیں۔ اس نظام میں پنپنے والی کلاس مڈل کلاس ہے۔ جس کی روٹی ہانڈی کرنے والی عام عورت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ پہلے گرمیاں آنے پر خواتین خوش رنگ پھولوں کے پرنٹ والی لان پہن کر خوش ہوجاتی تھیں مگر پچھلے چند سالوں سے ڈیزائنر لان کے تصور نے مڈل کلاس عورت کی مشکل میں اضافہ کر دیا ہے۔ گھر کے بجٹ سے پیسے بچا کر اب وہ بھی پانچ، چھ ہزار کا لان کا سوٹ پہننا چاہتی ہے۔ ایک وقت تھا شادیاں گھروں کے باہر گلی محلے میں شامیانے لگا کر ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر شادی ہال کا زمانہ آیا اور اب اس کام میں ویڈنگ پلانر اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔ اب تھیم ویڈنگ (Theme Wedding)پر لاکھوں روپیہ صرف سجاوٹ کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کئی غریب لڑکیوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں۔ کیپٹل ازم نے بڑے بڑے شاپنگ مالز کو فروغ دیا ہے۔ اس طرح عام دکانداروں کے کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اب لوگ گلی محلے کی دکان سے خریداری کرنے کی بجائے فیشن ایبل اور بڑے سٹورز پر جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے سرمایہ پرستی کی اس دوڑ میں صرف دولت مند ہی کو جینے کا حق ہے۔ ایسے ہی معاشرے میں لوگ غربت‘ بھوک اور ننگ سے تنگ آ کر خودکشی کرتے ہیں۔ دولت کی ناانصافی پر مبنی تقسیم نوجوانوں میں ٹینشن اور ڈیپرشن جیسی بیماریوں کو تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔ لوگ روحانیت سے دور اور مادیت پرستی کے قریب ہوررہے ہیں۔ اخلاقی اقدار پر تیزی سے زوال آرہا ہے۔ انسانی زندگیوں میں سرمایہ پرستی کی حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت اور رجحان کو روک کر ہی ہم اخلاقیات اور انسانی قدروں کو بچا سکتے ہیں۔ اعتدال کا راستہ اسلام بتاتا ہے‘ جو ایسے معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے جہاں سیاست سے لے کر معیشت تک کا محور انسان کی بھلائی ہو جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدصورتی یہ ہے کہ سیاست سے لے کر معیشت تک ہر کاروبار کا محور منافع اور دولت اکٹھی کرنا ہے۔ اب اخلاقیات کی تحریک کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ سرمایہ پرستی کی اس دلدل سے کسی حد تک تو محفوظ رہ سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved