تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-11-2022

فلموں سے کام لینے کا ہُنر

ایک دور تھا جو فلموں کا تھا۔ جب ٹی وی زیادہ مقبول نہیں ہوا تھا اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اُس میں زیادہ جدت بھی نہیں پائی جاتی تھی تب فلمیں ہی کسی بھی نظریے کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ ریڈیو کی افادیت تب تسلیم شدہ تھی تاہم اس کی بھی چند ایک حدود ہوا کرتی تھیں۔ فلموں کا عروج شروع ہوا تو معاشرے اُنہی کے ذریعے تبدیل کیے جانے لگے۔ مغرب نے فلموں کو نظریات کے ابلاغ اور تبلیغ کے لیے پوری چابک دستی کے ساتھ بروئے کار لانے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔ یہ فلمیں ہی تو تھیں جنہوں نے مغرب کے سفید فام ہیرو کو پوری دنیا کے لیے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا اور دنیا بھر کے پس ماندہ و ترقی پذیر معاشرے سفید فام ہیرو کے سحر میں یوں مبتلا ہوئے کہ اپنے ہیروز کو بھی بھول گئے۔ مغربی ذہنوں نے فلم کو ایک کامیاب میڈیم کے طور پر بروئے کار لانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جب ٹی وی نہیں تھا تب بھی اور ٹی وی سمیت ابلاغ کے بہت سے ذرائع آجانے پر بھی فلم کو ایک مضبوط میڈیم کے طور پر بروئے کار لانے کی کوشش جاری رہی۔
ہمارے ہاں فلموں کو صرف تفریح طبع کے ذریعے کے طور پر لیا گیا ہے۔ یہاں اگر فلموں کے ذریعے کوئی کام لیا بھی گیا ہے تو محض نجی سطح پر اور محض ذاتی دلچسپی کی بدولت۔ چند ایک فلم میکرز ایسے گزرے ہیں جو کسی نہ کسی مقصد کے تحت فلم بنایا کرتے تھے۔ ان میں ریاض شاہد سرِفہرست ہیں۔ ریاض شاہد حسّاس دل رکھنے والے اسلام پسند فلم میکر تھے۔ انہوں نے اہلِ اسلام کے سنہرے دور کے حوالے سے بھی فلمیں بنائیں اور صہیونیت کو بے نقاب کرنے پر بھی توجہ دی۔ یہ امن‘ زرقا‘ غرناطہ اور فرنگی ان کی معیاری اور بامقصد فلمیں ہیں۔ ایک دور تھا جب ہمارے ہاں سماجی موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ فلم کی تھیم مجموعی طور پر تفریح پر مبنی ہوتی تھی تاہم ساتھ ہی ساتھ کوئی پیغام دینے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔ فلم بین پوری فلم سے کچھ نہ کچھ لے کر سنیما ہال سے باہر آتے تھے۔
ہمارے ہاں فلموں کو قومی تعمیر نو کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے کبھی زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ فلم میکنگ کے شعبے کو باضابطہ صنعت کا درجہ دینے سے بھی ہمیشہ گریز کیا گیا۔ فلم میکرز ہر طرح کے خطرات مول لے کر فلمیں بناتے تھے۔ یہ یقین بھی نہیں ہوتا تھا جو پیسہ لگایا جارہا ہے وہ واپس بھی آسکے گا یا نہیں۔ مارکیٹ محدود اور متلوّن تھی۔ ملک میں سنیما ہال بھی کم تھے۔ سابق مشرقی پاکستان جب بنگلا دیش میں تبدیل ہوا تب اردو فلموں کی مارکیٹ مزید محدود ہوگئی۔
ہمارے ہاں جب فلموں کو صرف تفریحِ طبع کے لیے استعمال کیا جارہا تھا اور سطحی موضوعات کی بھرمار سے فلم انڈسٹری کا گلا گھونٹا جارہا تھا تب بھارت میں فلم انڈسٹری کو پروان چڑھانے پر بھرپور توجہ دی جارہی تھی۔ فلم میکرز پوری توجہ کے ساتھ ایسی فلمیں بنارہے تھے جو ایک طرف تفریحِ طبع کا مقصد حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتی تھیں اور دوسری طرف کوئی نہ کوئی پیغام بھی دیتی تھیں۔ فلم کے ذریعے پیغام دینا تو عام بات ہے۔ بہت سے فلم میکرز کہانی کی بُنت میں پیغام کا خیال رکھتے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے فلم میکرز اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ لوگ جب فلم دیکھ کر سنیما ہال سے نکلیں تو اُن کے ذہن میں کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ہو اور وہ کسی نہ کسی خاص نکتے کے بارے میں سوچنے کی تحریک ضرور پائیں۔ بھارت میں اِس سے ایک قدم آگے جاکر فلموں کے ذریعے پروپیگنڈے کا کام بھی لیا گیا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے فلموں کے ذریعے اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر دھیان دیا۔ ریاستی (صوبائی) حکومتوں کے لیے فلمیں چونکہ بات کو عوام تک پہنچانے کا اہم ذریعہ تھیں اِس لیے علاقائی زبان کی فلموں پر تفریح ٹیکس بھی معاف کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں فلم میکرز کا منافع بڑھنے لگا۔ یوں مرکزی اور علاقائی سطح پر فلم انڈسٹری پروان چڑھتی چلی گئی۔
ہمارے ہاں فلم میکنگ کو چونکہ صنعت کا درجہ ملا ہی نہیں اِس لیے فلم میکرز کبھی پوری یک سُوئی کے ساتھ کام نہیں کر سکے۔ فلم میکنگ کے تمام پہلو سکھانے والے ادارے بھی نہیں تھے۔ لے دے کر ایک پی ٹی وی اکیڈمی تھی جس میں چند خوش نصیب ہی داخلہ لے پاتے تھے۔ نجی سطح پر کام کرنے والے بہت تھے مگر سچ یہ ہے کہ اس طور کام ہوتا نہیں۔ اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں فلمیں بہت شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔ تب حکومت کی تھوڑی توجہ اور فلم میکنگ سے وابستہ افراد کے دلچسپی لینے پر فلم میکنگ کو صنعت کی سی حیثیت مل سکتی تھی‘ کام ڈھنگ سے کیا جا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ فلم میکرز اپنے طور پر کام کرتے رہے۔ مسابقت کے نام پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ذہنیت ہمیشہ اپنا گھناؤنا کردار ادا کرتی رہی۔
بھارت میں فلم انڈسٹری بہت مضبوط ہے۔ صرف ممبئی نہیں‘ مدراس (چنئی)‘ کولکتہ‘ حیدر آباد‘ احمد آباد اور دیگر شہروں میں بھی فلم انڈسٹری کی بنیادیں گہری اور مضبوط ہیں۔ ہر سطح کی حکومت نے فلموں کے ذریعے اپنے اپنے پیغام کا ابلاغ عمدگی سے کیا ہے۔ ایک طرف تو فلموں کے ذریعے حُب الوطنی اور قوم پرستی سکھائی جاتی رہی ہے اور دوسری طرف مختلف اداروں کے بارے میں عوام کی رائے بدلنے پر دھیان دیا گیا ہے۔ فوج اور پولیس کا امیج درست کرنے کے لیے بھی فلموں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ ''مردانی‘‘ اور ''مردانی 2‘‘ کے ذریعے ایک طرف تو یہ تصور دیا گیا کہ بھارتی معاشرے میں عورت کسی بھی رینک تک پہنچ سکتی ہے اور دوسری طرف پولیس کا امیج عوام کی نظر میں بہتر بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ بارڈر‘ ریفیوجی‘ عیاری اور دوسری بہت سی فلموں کے ذریعے فوج کی ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ ان تمام فلموں میں تفریح کے پہلو کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ''کارپوریٹ‘‘ کے ذریعے بتایا گیا کہ کس طور بڑے کارپوریٹ ادارے زیادہ سے زیادہ منفعت کے حصول کی خاطر مفادِ عامہ کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ''تھری ایڈیٹس‘‘ کی تھیم یہ تھی کہ نئی نسل کو اُسے شعبے میں کچھ کرنا چاہیے جس میں اُس کی واقعی اور حقیقی دلچسپی ہو۔
بعض فلموں کے ذریعے بالی وڈ نے معاشرے کو مختلف اخلاقی خرابیوں پر متوجہ ہونے کی تحریک دی ہے۔ گھریلو فلموں میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کس طور گھر کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اب فلم میکرز وسیع تر تناظر میں پیغام دیتے ہیں۔ رام گوپال ورما‘ پرکاش جھا اور مہیش مانجریکر جیسے فلم میکرز نے جرائم کی دنیا (انڈر ورلڈ) کے بارے میں شاندار فلمیں بناکر معاشرے کو یہ بتایا ہے کہ ہر بُرائی کا انجام بُرا ہی ہوتا ہے۔ انڈر ورلڈ کے حوالے سے بنائی جانے والی فلموں میں پیغام کو پوری کہانی کی بُنت میں یوں شامل کیا جاتا ہے کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ستیہ‘ کمپنی‘ ڈی ڈے‘ ڈی کمپنی‘ واستو‘ رِسک‘ پلان‘ اب تک چھپّن‘ شاگرد اور دوسری بہت سی فلموں کے ذریعے انڈر ورلڈ کا بُرا انجام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتانے کی بھی کوشش کی گئی کہ کس طور پولیس کے کچھ لوگ انڈر ورلڈ کے ساتھ مل کر معاشرے کے لیے الجھنیں پیدا کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ انڈر ورلڈ سے سیاست دانوں کے روابط بھی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
ہمارے فلم میکرز اب تک گِھسی پٹی‘ روایتی کہانیوں کے پھیر میں ہیں۔ نئے اور توانا موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں سینسر کا معاملہ سخت ہے مگر مزا تو جب ہے کہ فلم میکرز فلم اس طور لکھوائیں کہ اپنی بات بیان بھی کر جائیں اور لوگوں کو تفریح بھی میسر ہو۔ محض مسالا فلمیں بنانے سے فلموں کو پیغام رسانی کے ایک بڑے ذریعے کے طور پر بروئے کار لانا ممکن نہ ہوگا۔ لازم ہے کہ جدت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے‘ فلموں کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ہنر سیکھنے پر توجہ دی جائے۔ فلم میکنگ کی تکنیک سیکھ لینا کافی نہیں‘ سوال تو مواد کا ہے۔ موضوع ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ متوجہ ہوں اور فلم سے کچھ سیکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved