تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     07-11-2022

پاکستانی سیاست کے ساتھ کیا خرابی ہوئی ؟

اگر آپ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر عام لوگوں سے بات کریں تو آپ کو اکثر تین رد عمل ملیں گے۔ پہلا‘ کسی کو یقین نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ایک یا دو ماہ میں کیا ہونے والا ہے؟ سیاسی طور پر سرگرم لوگ مختلف قیاس آرائیوں پر مبنی منظرنامے بناتے ہیں‘ لیکن منظر نامے کی یہ تشکیل متعلقہ شخص کی سیاسی وابستگیوں سے متاثر ہوتی ہے۔ دوسرا‘ زیادہ تر لوگ اپنے مستقبل اور پاکستان کی سیاست کی سمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار ہوتے اور اضطراب کا اظہار کرتے ہیں۔ تیسرا‘ یہ اضطراب ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جنہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کی تشویش مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان پر بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ سے متعلق ہوتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں کیونکہ ضروریاتِ زندگی کی لاگت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ آبادی کے تمام طبقات اس کے منفی اثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے موجودہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کی مختلف وجوہات بتائی جا سکتی ہیں‘ ان میں داخلی اور بیرونی عوامل بھی شامل ہیں‘ تاہم سب سے زیادہ تباہ کن عنصر حکومت اور سیاست کی مستقبل کی سمتوں کے بارے میں غیر یقینی اور غیر متوقع صورتحال ہے۔ بے یقینی کا کچھ عنصر زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں پایا جاتا ہے‘ تاہم پاکستانی سیاست میں موجودہ غیر یقینی صورتحال ماضی کے کسی بھی وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اکثر لوگ موجودہ سیاسی انتظامات کے مستقبل کی سمت کے بارے میں یکساں طور پر پریشان ہیں۔
غیر یقینی صورتحال طویل مدتی سیاسی اور معاشی منصوبہ بندی کی قاتل ہے۔ غیر یقینی سیاست اور مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنے کے قابل نہ ہونا‘ معیشت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اثرات رکھتے ہیں کیونکہ سرمایہ کار اور کاروباری افراد نئی سرمایہ کاری کو روکے رکھتے ہیں اور موجودہ کاروبار کو تیز رفتاری سے نہیں پھیلاتے‘ اس خوف سے کہ اگر حکومت اور اس کی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی تو ان کی سرمایہ کاری پھنس نہ جائے۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو تین چار ماہ کے عرصے میں سیاسی حالات کا اندازہ لگا سکے۔ کیا موجودہ حکمران اتحاد مکمل کمان میں رہے گا؟ عمران خان کے کیا حالات ہوں گے؟ کیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی برقرار رہے گی یا حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا؟ کوئی بھی شخص ان سوالوں کا اعتماد کے ساتھ قطعی جواب نہیں دے سکتا۔
اس قسم کی علامات ظاہر کرنے والی سیاسی صورتحال کو غیر مستحکم اور غیر محفوظ قرار دیا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے برسر اقتدار حکومت کیلئے معاشی مسائل کو حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ سیاست پاکستان کی معاشی مشکلات سے نمٹنے میں مددگار نہیں ہے۔ حکومت کیلئے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کو عام لوگوں کیلئے دوستانہ بنانے کی ضرورت سے نمٹنے کے دباؤ میں توازن رکھنا مشکل ہو گا۔ اس سے اپوزیشن سے زیادہ حکمران جماعت کو نقصان پہنچے گا۔
حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے عمران خان کی ملک گیر مقبولیت کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے ذاتی طور پر آٹھ میں سے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ لوگوں نے اس حقیقت کے باوجود انہیں ووٹ دیا کہ وہ (لوگ) جانتے تھے کہ اُن کو ان میں سے کوئی بھی سیٹ سنبھالنے کی توقع نہیں تھی۔ ان کی مقبولیت کا مقابلہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی حکومت کر سکتی ہے اگر وہ معاشی میدان میں کارکردگی دکھائے اور خاص طور پر عام لوگوں کو کچھ معاشی ریلیف فراہم کرے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذ آرائی کو ختم نہ کیا گیا تو ایسا ہونے کی توقع نہیں ہے۔ فی الحال پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکسان تحریک انصاف کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری طریقے سے ایک دوسرے کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی نے حکومت پر زبردستی نئے انتخابات مسلط کرنے کے لیے اسلام آباد تک مارچ کا آغاز کیا‘ جس کا مطلب حکومت کا جلد خاتمہ ہے۔ تاہم وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے پر اصرار کر رہی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات اکتوبر 2023 کے اوائل میں ہو سکیں گے۔ حکومت کو انتخابات میں تاخیر کا فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ معیشت کا رخ موڑ دے۔ اگر ایسا ہوا تو عمران خان کی حمایت کم ہو سکتی ہے تاہم اگلے دس مہینوں میں معاشی صورتحال میں کسی خاص بہتری کا امکان شاید ہی نظر آتا ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجودہ محاذ آرائی جاری رہنے کی توقع ہے اور یوں سیاسی بے یقینی برقرار رہے گی۔ یہ سب کچھ عام لوگوں کیلئے معیشت کی بہتری کے امکانات کو کمزور کر دے گا۔
موجودہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں نے سیاسی عمل میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پی ڈی ایم اور پاکستان تحریکِ انصاف کا سیاسی عمل کو تسلی بخش طریقے سے چلانے کے لیے کچھ ورکنگ ریلیشن شپ پر اتفاق نہ کرنا ہے۔ تحریک انصاف ہر ممکن طریقے سے حکومت گرانا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کیلئے ریاستی مشینری‘ انتظامی اختیارات اور عدالتی عمل کو استعمال کر رہی ہے۔ اس عمل نے ان کے تعلقات کو اس حد تک تلخ بنا دیا ہے کہ وہ کسی بات پر متفق نہیں ہو سکتے۔ ایسی صورتحال استحکام اور معاشی بحالی کے امکانات کو کمزور کر دیتی ہے۔
وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مسلسل محاذ آرائی جمہوری عمل کو ادارہ جاتی بنانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی مسابقتی گفتگو پارلیمانی آداب اور معاشرتی شائستگی سے بہت نیچے ہے۔ کچھ سیاسی کارکن حریف سیاسی جماعت کی قیادت پر نازیبا جملے کسنے اور گالیاں دینے میں ماہر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم سیاسی رہنماؤں کی پریس کانفرنسوں اور عوامی بیانات کا جائزہ لیں تو وہ حریف سیاسی قیادت کے بارے میں غیر مہذب اور معاندانہ زبان استعمال کرتے ہیں اور حریف قیادت کی کردار کشی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس سے سیاست میں گہری تقسیم پیدا ہوئی ہے اور سیاسی ماحول خراب ہو گیا ہے۔ باہمی نفرت سیاسی کارکنوں کی سطح تک جا پہنچی ہے۔ قائدین کے مخالفانہ بیانات کی وجہ سے پیدا ہونے والی یہی نفرت وزیر آباد کے علاقے میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں پُرتشدد واقعہ کا سبب بنی۔
مخالفانہ گفتگو نے سیاسی تنازعات کی انتظام کاری اور تنازعات کے حل کے لیے پارلیمنٹ کی مناسبت اور مطابقت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس قسم کی پاکستانی سیاست نے ریاستی اداروں کے کردار میں بھی اضافہ کر دیا ہے جو اکثر ان اداروں کے بارے میں تنازعات کا باعث بنتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنما اپنی سیاسی گفتگو اور طرزِ سیاست کے اپنے کارکنوں اور مجموعی طور پر معاشرے پر پڑنے والے مضر اثرات کو پہچانیں۔ قائدین معاشرے کیلئے رجحانات مرتب کرتے ہیں‘ لہٰذا انہیں شدید تفریق پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی مد مقابل سیاسی قیادت کے بارے میں معاشرے میں نفرت پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستانی سیاست اس وقت جس طرح آگے بڑھ رہی ہے اس کی قیمت مجموعی طور پر معاشرے کیلئے بہت زیادہ ہو گی۔ اصل نقصان خود سیاسی رہنمائوں کا ہی ہو گا۔ پاکستان کو قبائلی دشمنی اور انتقام کی سیاست کے بجائے جمہوری سیاست کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved