جو کچھ قدرت نے ہمارے لیے طے کردیا ہے وہ کبھی نہیں بدلتا۔ بدل بھی نہیں سکتا۔ ہماری حدود متعین ہیں۔ اور یہ کام بھی قدرت ہی نے کیا ہے۔ کوئی اور کر بھی کیسے سکتا ہے؟ کائنات کے بنیادی اصول کبھی بدلیں ہیں‘ نہ بدلیں گے۔ قدرت کا طے کردہ ایک بنیادی اصول سوچ کے حوالے سے بھی ہے۔ سوچنے ہی سے تبدیلی آتی ہے، کچھ نیا ہو پاتا ہے۔ قدرت نے اپنا یہ اصول بھی کبھی نہیں بدلا۔ بہت سی تبدیلیاں ہمارے سوچنے سے پہلے بھی رونما ہوتی ہیں مگر وہ بھی کسی نہ کسی کی سوچ ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
ہر دور کے انسان کے لیے سوچنا ایک انتہائی بنیادی وصف ہی نہیں، ناگزیر ضرورت بھی رہا ہے۔ جب انسان غاروں میں رہا کرتا تھا‘ تب بھی تفکر ہی کی صورت میں کچھ کر پاتا تھا۔ یہ سوچنے کی صفت ہی تھی جس نے انسان کو غاروں سے نکال کر عالی شان مکانات تک پہنچایا۔ سوچ ہی کے دم سے تو انسان گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں کی پیٹھ سے اتر کر جدید ترین سواریوں کے ذریعے طویل فاصلے چند گھنٹوں میں طے کرنے کے قابل ہوسکا۔ سوچنے کی صفت نہ ہوتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ زندگی کا ہر پہلو اگر جدت اور ندرت سے ہم کنار ہوا ہے تو صرف سوچنے کی صفت سے۔
اپنے ماحول میں کسی بھی چیز کو دیکھ لیجیے، اُس کی پشت پر صرف اور صرف سوچ کارفرما ملے گی۔ یہ سوچ ہی تو ہے جو ذہن کے پردے پر ابھر کر کسی بھی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ کوئی بھی چیز ایجاد یا دریافت ہوتی ہے تو صرف سوچ کی بنیاد پر۔ سوچ ہی کی مدد سے انسان کچھ طے کرنے اور کوئی فرق پیدا کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ سوچ ہی انسان کو کسی مقام تک پہنچنے کی راہ دکھاتی ہے اور پھر وہاں تک لے بھی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں پر طائرانہ نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں ترقی کا جو عقل و دنگ کرنے والا معیار دکھائی دے رہا ہے وہ صرف سوچ و تفکر کا نتیجہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ترقی کا معیار اِتنا بلند ہے کہ پورا ماحول جادو نگری جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب ذہن کا کمال ہے۔ وہ لوگ منظم انداز سے سوچتے ہیں اور بہت کچھ کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ مغرب کی ترقی یافتہ ریاستیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ انسان اگر منظم انداز سے سوچے، لائحۂ عمل مرتب کرے اور عمل کو شعار بنائے تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے سوچنے کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور آج بھی سوچنے ہی کی اہمیت ہے۔ مغرب سمیت تمام ترقی یافتہ معاشروں کے معیاری کاروباری ادارے تحقیق و ترقی پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ تحقیق و ترقی کا شعبہ پورے معاشرے کا عمومی سطح پر اور متعلقہ شعبے کا خصوصی طور پر جائزہ لیتا ہے اور طے کرتا ہے کہ اب ادارے کو کیا کرنا چاہیے۔ تحقیق و ترقی کے شعبے سے وابستہ ماہرین ادارے کو جدت کی راہ پر گامزن رکھنے کے حوالے سے سوچتے ہیں تاکہ ادارہ وہی کچھ تیار کرے جو مارکیٹ میں چلتا ہو۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ معاشی یا خالص کاروباری سطح پر تو تحقیق و ترقی کے شعبے میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور اُس کی بنیاد پر تبدیلیاں بھی لائی جاتی ہیں مگر معاشرتی سطح پر تحقیق و ترقی کے حوالے سے وہ کام نہیں ہو پارہا جو انتہائی بنیادی نوعیت کا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں کو اس حوالے سے غیر معمولی پیش رفت یقینی بنانی ہے۔
کسی بھی معاشرے کو حقیقی تحریک و تحرک سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار سوچ کا ہوتا ہے۔ اگر سوچنے کی صلاحیت، عادت اور سکت برقرار ہے تو معاشرہ متحرک ہے۔ بصورتِ دیگر اُسے مردہ سمجھیے۔ کوئی بھی شعبہ سوچنے والوں ہی کی بدولت کچھ کر پاتا ہے۔ کسی بھی شعبے کی ترقی اور پیش رفت کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ اُس سے وابستہ افراد سوچنے کے معاملے میں کہاں تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگر وہ خود کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ہر کوشش نیم دلی سے شروع ہوکر نیم دلی پر ختم ہوتی ہے۔
ہر عہد کا انسان اُسی وقت کچھ کر سکا جب اُس نے سوچنے پر توجہ دی، منظم انداز سے سوچنے کے بعد منصوبہ سازی کے ذریعے کچھ کر دکھانے کی تیاری کی۔ ترقی یافتہ معاشروں کو بھی اُن کے چار پانچ صدیوں پہلے حالات کے تناظر میں پرکھیے تو وہاں خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی پڑیں گی۔ یہ خرابیاں سوچ و تفکر سے دوری کا نتیجہ تھیں۔ مغربی معاشرے صدیوں جہل کی تاریکیوں میں ڈوبے رہے۔ پھر جب اُنہیں کچھ سوچنے کی توفیق نصیب ہوئی تبھی کچھ ہو پایا۔ امریکہ اور یورپ فطری علوم و فنون کے حوالے سے فقیدالمثال پیش رفت اُسی وقت ممکن بنا پائے جب انہوں نے سوچنے کو اہمیت دی، سوچنے والوں کا احترام کرنا سیکھا۔ بڑے ذہن ہی معاشرے کی کشتی کو پار لگاتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ اٹک جاتا ہے تب کوئی ایک بڑی ہستی یا چند بڑے ذہن مل کر اُسے دوسرے کنارے پر لے جاتے‘ منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ بڑے ذہن ہی طے کرتے ہیں کہ معاشرے کو کس طرف جانا چاہیے۔ اُن کی بڑی اور وقیع سوچ معاشرے کو درست سمت دیتی ہے۔ بڑوں کے ذہن کی وسعت ہی معاشرے کو بڑا بناتی ہے۔
پس ماندہ معاشروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذہن کو، سوچنے کو وقیع نہیں سمجھتے۔ جب سوچنے والوں کا احترام نہیں کیا جائے گا تو معاشرے میں کسی بڑی حقیقی تبدیلی کی راہ بھی ہموار نہیں ہوگی۔ کسی بھی پس ماندہ اور ساکت و جامد نوعیت کے معاشرے کو کچھ کرنے کی توفیق اُسی وقت نصیب ہوئی جب اُس نے سوچنے پر توجہ دی اور سوچنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اپنے معاشرے میں سوچنے کی اہمیت کیونکر اُجاگر کی جائے اور لوگوں کو سوچنے پر مائل کیسے کیا جائے۔ ہمارے ہاں ذہن کو بروئے کار لانے اور خالص غیر جانبدارانہ انداز سے سوچنے والوں کی واضح کمی ہے۔ ایک بنیادی الجھن یہ بھی ہے کہ عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا، کام بنتا ہے تو صرف ''جگاڑ‘‘ سے۔ عام پاکستانی کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جو کچھ بھی ہے وہ ذہن ہی کی پیداوار ہے۔ جب تک ذہن کو اولیت نہیں دی جائے گی تب تک ایسا کچھ بھی نہ ہوگا جو زندگی کا معیار بلند کرنے میں قابلِ قدر حد تک مدد کر سکے۔ آج ہر شعبے میں بے ذہنی ہی بے ذہنی پائی جاتی ہے۔ لوگ سوچنے ہی سے گریز نہیں کرتے بلکہ سوچنے والوں سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا ماحول ہے کہ کسی بھی ایسے انسان کی آمد پر شدید خوف محسوس کیا جاتا ہے جو سوچنے پر مائل ہو اور ذہن کو بروئے کار لاکر کوئی بڑی، مثبت تبدیلی یقینی بنانے کا خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہو۔ ایسے میں عام آدمی کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ سوچنے ہی سے حقیقی تبدیلی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ سوچنے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے اور پھر سوچنے کے رجحان کو پروان چڑھانا بھی لازم ہے۔ یہ معاملہ توجہ چاہتا ہے۔ جس ماحول میں ذہن کو اہم گرداننے کا رجحان نہ پایا جاتا ہو وہاں لوگوں کو یہ یقین دلانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ذہن کے فعال ہونے ہی سے کچھ ہو پاتا ہے۔ لوگ قدرے بے ذہنی کے عالم میں پست سطح کی زندگی بسر کرتے ہوئے سوچتے رہتے ہیں کہ سوچے بغیر بھی تو زندگی گزاری ہی جاسکتی ہے! ایسے میں کسی بڑی تبدیلی کی خواہش اور لگن دلوں میں پیدا کرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
آج کا ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر بے ذہنی کا نمونہ ہے۔ جنہیں ہم ذہنی طور پر فعال سمجھتے ہیں اُن میں بھی اکثریت اُن کی ہے جو برائے نام سوچتے ہیں اور کسی نہ کسی طور کام چلانے کی ذہنیت کے حامل ہیں۔ جو منظم انداز سے سوچنے پر مائل ہوتے ہیں اُن کی شخصیت کا پنپنا دور سے دکھائی دے جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے معیاری طریق کے مطابق کچھ سیکھنے والے کیریئر کے معاملے میں قابلِ رشک حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ اُنہیں مثال بناکر سوچنے کی صورت میں عام آدمی کو بھی سوچنے اور ڈھنگ سے کچھ کرنے کی تحریک دی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو جگانے کا کام حکومتیں بھی کرتی ہیں اور نمایاں شخصیات بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved