امت مسلمہ کونسل، رنگ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تو عالمی طاقتوں نے جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے بعد ہی تقسیم کردیا تھا‘ لیکن جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو لا کر ان کی سرزمین پر آباد کرکے جب اسرائیل کو تخلیق کیا گیا تو اس منقسم امت کے کاسہ لیس حکمرانوں میں غیرت وحمیت نہ جاگی‘ لیکن عام مسلمانوں میں ایک شدید کرب نے اسرائیل کے خلاف لڑنے کی چنگاریاں سلگا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی جو پہلی لڑائی ہوئی اس میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے طورپر حصہ لیا۔ یہی جنگ تھی جس میں صدام حسین نے بھی شرکت کی تھی اور اس کا قصور اسرائیل نے معاف کیا اور نہ ہی اس کے پشت پناہ امریکہ اور یورپ نے۔ یہ خطرے کی پہلی گھنٹی تھی۔ خطرہ یہ تھا کہ اسرائیل کو تو وہاں رہنا ہے، لیکن اس کے ردعمل کے طورپر مسلم امہ کہیں متحد نہ ہوجائے اور دوبارہ ایک خلافت کے پرچم تلے اکٹھے ہونے کا نعرہ زور نہ پکڑ جائے۔ اس کا توڑ بھی قوم پرستی کے نعرے سے نکالا گیا۔ اس دور میں دنیا دوطاقتوں میں تقسیم تھی۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اشتراکی آمریت۔ ایک کی سربراہی امریکہ اور دوسرے کی روس کے پاس تھی۔ یہ دونوں اسلام کے مقابلے میں مسلمانوں میں قومیت کے نسلی اور علاقائی تعصب کو پروان چڑھانے کے لیے ایک جیسے عزائم رکھتے تھے۔ امریکہ نے خطے میں عرب ریاستوں میں خاندانی بادشاہتوں کا ساتھ دیا تو ایران میں سائرس اعظم سے نسلی رشتہ استوار کرنے والے شاہ ایران کو مضبوط کیا۔ دوسری جانب کمیونسٹ روس نے عرب نیشلزم کے ذریعے مسلم امہ کو تقسیم کیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال بعث پارٹی تھی جس نے عرب ممالک میں مغربی طاقتوں کی حمایت سے حکمران بننے والے خاندانی بادشاہوں کے تخت الٹ کر حکومتوں پر قبضہ کیا۔ اس پارٹی کے دواہم ستون تھے۔ عراق میں صدام حسین اور شام میں حافظ الاسد۔ دونوں ظلم وبربریت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دونوں اقلیتی مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اکثریت پر اپنی طاقت اور ظلم کی وجہ سے مسلّط تھے۔ دونوں اشتراکی روس کے سیاسی دھڑے میں شامل تھے اور امریکی حمایت سے قائم بادشاہتوں کے خلاف سرگرمِ عمل تھے۔ شاہ ایران کے مظالم سے تنگ آکر بھاگنے والے ہر شخص کی پناہ گاہ صدام کا عراق تھا۔ ایران کے انقلاب کی تمام ترنگرانی امام خمینی نے عراق میں بیٹھ کر کی۔ لیکن انقلاب ایران کے بعد جب وہاں ایک ایسی اسلامی ریاست وجود میں آئی جو شیعہ مسلک پر قائم تھی تو اولاً اسے ہر طرف سے پذیرائی ملی‘ لیکن ایرانی انقلاب کو دیگر اسلامی ممالک تک پھیلانے اور اپنے ہم مسلک افراد کو عالمی سطح پر اکٹھا کرنے کی کوشش نے عرب ریاستوں کے کمزور حکومتی تسلّط میں بے چینی پیدا کردی۔ ادھر انقلاب ایران کی دیکھا دیکھی اس مسلک کے افراد نے اپنے اپنے ملکوں میں بھی متحد ہونا شروع کردیا۔ احتجاج، مظاہرے اور کہیں کہیں مسلح جدوجہد نے دوسری جانب بھی لوگوں کو منظم ہوکر لڑنے کا راستہ دے دیا۔ وقت ایسا بدلا کہ وہ طاقتیں جو امت مسلمہ کو رنگ‘ نسل اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کررہی تھیں ان کو حیرت ہوئی کہ اس امت کو مسالک کی بنیادوں پر کس آسانی سے لڑایا جاسکتا ہے۔ پھر ان کی تاریخ میں مسلکی اختلاف کے علاوہ عرب وعجم کی لڑائی کی بنیاد بھی شامل تھی۔ دونوں جانب مسلح تنظیموں کا وجود سامنے آیا۔ اس کی بدترین مثال لبنان کی خانہ جنگی تھی جس میں بعد میں عیسائی بھی شامل ہوگئے اور پورے ملک سے ایک کروڑ بیس لاکھ انسان ہجرت کرگئے اور ہزاروں قتل کردیے گئے۔ یہاں کسی حد تک امن ہوگیا تھا‘ لیکن اب پھر اسے ابھارا گیا اور آج کا لبنان اسی خوفناک اختلاف کی آماجگاہ ہے۔ اب پوری امت دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ دونوں اسلام کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ علاقے میں اپنی بالادستی اور حاکمیت کے لیے مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کی حکومتوں نے جہاں ممکن ہوا دوسرے گروہ کے قتل عام کے لیے مالی مدد بھی کی، ہتھیار بھی فراہم کیے اور لوگ بھی بھیجے۔ ان کے نزدیک دشمن مسلک کادشمن بھی اپنا خیرخواہ بن گیا۔ اس نفرت کے سیلاب میں گیارہ ستمبر آگیا۔ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔ پاکستان سے ایک وفد ملا عمر سے ملنے گیا تاکہ صلح کی صورت نکل آئے۔ اس گفتگو میں ملا عمر نے ایک بات کی‘ دیکھو آج ہماری باری ہے، کل تمہاری یا کسی اور ملک کی بھی آسکتی ہے۔ لیکن ہم نے اپنی سرزمین افغان مسلمان بھائیوں کے قتل عام کے لیے کھول دی اور ہمارے ہوائی اڈوں سے ستاون ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑے اور انہوں نے ہمارے مسلمان بھائیوں پر بم برسائے۔ دوسری جانب امریکہ جس شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر فتحیاب ہوا اسے ایران کی جانب سے اسلحہ اور ٹریننگ سب میسرتھی۔ایران کے صدارتی امیدوار اور پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی نے یو ایس ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 2001ء کی کابل کی فتح میں ہمارے پاسداران شمالی اتحاد کے ساتھ اور امریکی افواج کے جلو میں شانہ بشانہ لڑرہے تھے، لیکن امریکہ اس قدر احسان فراموش ہے کہ جب ہم نے افغان فوج کو تربیت دینے کی پیش کش کی تو ٹھکرا دی گئی۔ اب عراق کے صدام حسین کی باری تھی۔ اس معاملے میں بعض عرب ریاستوں اور ایران دونوں کی نفرت مشترک ہوگئی۔ یہاں تک کہ صدام کی حلیف بعث پارٹی والا شام بھی عراق پر مسلمانوں کے قتل عام میں خاموش تماشائی ہی نہ رہا بلکہ دیگر عرب ریاستوں کی طرح ممدومعاون بھی ہوا۔ عراق کا زوال اس فوجی قوت کا زوال تھا جو بیک وقت عرب ریاستوں‘ اسرائیل اور ایران کے لیے خطرہ تھی۔ صدام حکومت ختم ہوئی تو ایران نے اس امریکی پیشکش کو قبول کیا،جس کے تحت شیعہ اکثریتی حکومت کو مستحکم اور وہاں پر مزاحمت کو کم کرنا تھا۔ اگرچہ عراقی شیعہ ایران کے ولایت فقیہ کے تصور کو نہیں مانتے لیکن علاقائی برتری کے لیے یہ ضروری تھا۔ اب امریکہ ایران کے مقابلے میں ایک کمزور عراق چھوڑ گیا‘ جس نے وہاں ایرانی رسوخ کی راہ ہموار کردی۔ ایران کے پاس 2003ء میں 1565ٹینک تھے اور عراق کے پاس 2200 اور اب ایران کے پاس 1613ٹینک ہیں اور عراق کے پاس صرف 150‘ یہی حال جنگی جہازوں کا ہے۔ 2003ء میں ایران کے پاس 283اور عراق کے پاس 316جبکہ اب ایران کے پاس 312اور عراق کے پاس ایک بھی جنگی جہاز نہیں۔ یہ سب تو سیاسی ، علاقائی اور مذہبی محاذ پر ہوا‘ لیکن ان جنگوں نے عام مسلمانوں میں جو بیداری کی لہر دوڑائی اس سے عرب ممالک میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ عرب بہار آئی‘ مصر، تیونس اور یمن کے بعد اب بعث پارٹی کے دوسرے ملک شام کی باری آ گئی ہے۔ یہ وہی شام ہے جس کے ڈکٹیٹر حافظ الاسد نے 1976ء میں اخوان المسلمون کے خلاف قتل وغارت کا بازار گرم کیا تھا۔ فروری 1982ء میں شام کے شہر حماۃ کا ستائیس دن تک محاصرہ کیا گیا اور حافظ الاسد کے بھائی اور موجودہ صدر بشارالاسد کے چچا جنرل رفات الاسد نے چالیس ہزار افراد کا قتل عام کیا تھا ۔ کسی مسلمان ملک میں اب تک بیک وقت اتنا بڑا قتل عام نہ ہوا تھا۔ اس وقت نہ القاعدہ تھی اور نہ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ لیکن اخوان المسلمون کے اس قتل عام پر عرب ریاستیں بھی بدترین خاموشی میں ڈوبی رہیں اور ایران نے بھی اسے اپنے لیے ایک نیک شگون سمجھا۔ اس قتل عام میں عورتیں، بچے سب قتل ہوئے۔ ان کی لاشوں کو بازاروں میں گھسیٹاگیا۔ 1982ء میں اخوان المسلمون کے قتل عام کے بعد خاموشی چھا گئی لیکن یہ لاوا 2011ء میں ابل پڑا۔ اب اس ملک میں دونوں جانب سے لوگ کود پڑے۔ بشارالاسد کی حمایت میں ایران اور اس کے خلاف لڑنے والوں کے حق میں عرب ریاستیں۔ جس نفرت کا بیج ہم نے بویا تھا ،اس کی فصل کاٹنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اب امریکہ اس میدان میں کودرہا ہے اور یوں ایک اور ملک کو خانہ جنگی اور تباہی کے دہانے پر چھوڑ جائے گا۔ لیکن اہل نظر اس مرحلے پر دیکھ رہے ہیں کہ اس کی کوکھ سے وہ قتل وغارت جنم لے گی کہ سب اپنوں کی لاشوں کا نوحہ پڑھیں گے۔ ایسے میں انہیں شدت سے وحدت کا درس یاد آجائے گا، امت کو سبق سکھانے کے لیے وہ وقت شاید آ پہنچا ہے جس کی نوید سیدالانبیاء ؐ نے سنائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا ’’آخری جنگ عظیم سے پہلے دنیا دو خیموں میں تقسیم ہوجائے گی ۔ ایک میں مکمل کفر ہوگا اور دوسرے میں مکمل ایمان۔ (الفتن)… نہ کوئی مسلک‘ نہ فرقہ نہ اختلاف‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved