وزیرآباد میں چیئرمین تحریک انصاف پر حملے کو پانچ روز بیت چکے ہیں مگر تاحال اس اہم کیس کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی‘ حالانکہ عموماً وقوعہ کے بعد24 گھنٹوں کے اندر ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔ خان صاحب اپنی مرضی کی ایف آئی آر کا اندراج چاہتے ہیں اور میڈیکو لیگل کے بجائے اپنے سیاسی مؤقف کی بنیاد پر مقدمہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ 24 گھنٹے میں ایف آئی آر درج کی جائے بصورت دیگر عدالت عظمیٰ از خود نوٹس لے گی۔ وفاقی حکومت نے بھی پنجاب حکومت کو حقائق کے مطابق جلد از جلد ایف آئی آر درج کرنے کا کہا ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
خان صاحب پر حملے کے فوری بعد تحریک انصاف نے مقتدرہ مخالف بیانیے کو شدت کے ساتھ پیش کیا۔ اس دوران تحریک انصاف کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ کوئی مقتدرہ کا نام لے رہا ہے‘مگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لینے سے تحریک انصاف کا دعویٰ حقائق کے مطابق دکھائی نہیں دیتا۔ 80ء کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو ملک واپس آئیں تو انہوں نے ضیاالحق کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور لاہور میں بہت بڑے جلسہ عام میں نام لے کر اس کے خلاف تقاریر کیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ''آپریشن مڈنائٹ‘‘ کے ذمہ داران کا کورٹ مارشل کروایا گیا‘ جس کے بعد متعلقہ افسران کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح محترمہ بینظیر نے ملک واپسی سے پہلے قتل کیے جانے کی صورت میں جن افراد کو ذمہ دار قرار دیا تھا ان میں سے ایک پرویز مشرف تھے۔ 2020ء میں کیپٹن (ر)صفدر کے خلاف مزار قائد کی توہین کی بنا پر ایف آئی آر کے اندراج اور گرفتاری کیلئے جب آئی جی سندھ کا مبینہ اغوا ہوا تو سندھ پولیس کے افسران نے چھٹیوں پر جانے کی درخواستیں پیش کر دی تھیں ‘بلاول بھٹو کے کہنے پر آئی جی سندھ کے اغوا میں ملوث متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے بھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور آرمی افسران کے نام لے کر اپنا سیاسی مؤقف پیش کیا۔
اگر عمران خان پر قاتلانہ حملے کے شواہد ہوتے تو ان کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج ہو جاتا‘ جیسا کہ ماضی میں سیاسی قائدین کی ڈیمانڈ پر حاضر سروس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی رہی ہے‘ لیکن خان صاحب جو بات کہہ رہے ہیں اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہو رہے کیونکہ جب ایسا کیس سامنے آتا ہے تو تھانے کے اہلکار خود متاثرہ شخص کو ہسپتال لے جاتے ہیں‘ یا متاثرہ فریق جب ہسپتال جاتا ہے تو ڈاکٹر کیس کی نوعیت کو دیکھ کر پولیس کو طلب کر لیتے ہیں تاکہ اس کی نگرانی میں میڈیکل کیا جا سکے۔ خان صاحب والے واقعے کا معاملہ یکسر مختلف ہے‘ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وزیرآباد واقعے میں 14 افراد کو گولیاں لگی ہیں لیکن کوئی ایک شخص بھی تھانے نہیں گیا اور نہ ہی اس کا میڈیکو لیگل ہوا۔ قانونی راستہ اپنانے کے بجائے تحریک انصاف کا اصرار ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خان صاحب اس واقعے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر حقائق کے برعکس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے تو عدالتیں اسے مسترد کر دیں گی۔خان صاحب کا مؤقف بالکل ایسے ہی ہے کہ چوری کرتے ہوئے چور موقع پر پکڑا جائے مگر جس کے گھر میں چوری ہوئی وہ اصرار کرے کہ ایف آئی آر اس کے خلاف درج نہ کی جائے بلکہ اس کے فلاں مخالف کے خلاف درج کی جائے۔ چور گمنام ہونے کی صورت میں تو شک پر مقدمہ ہو سکتا ہے مگر یہاں تو حملہ آور زندہ گرفتار ہوا ہے اور تھانے میں اس کے ریکارڈڈ بیان موجود ہیں۔ان شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب نے وزیرآباد حملے کے بعد جو بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے یہ حقیقت پہ مبنی نہیں۔ دراصل یہ بیانیہ بھی ان کے پہلے بیانیوں کی طرح ہی ہے۔
عمران خان کو چار گولیاں لگنے کا دعویٰ تحریک انصاف نے کیا۔ ایسا شخص جس کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں لگ چکی ہوں‘ فریکچر ہو‘ اسے چند دنوں تک آرام کی ضرورت ہوتی ہے‘ تاہم خان صاحب ہسپتال سے تین دن بعد ڈسچارج ہوئے تو انہوں نے منگل سے دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ‘ جسے گزشتہ روز مزید ایک‘ دو روز کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔خان صاحب نے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے ایف آئی آر کے اندراج میں ناکامی پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں سابق وزیراعظم ہوں اگر میری بات کو نہیں مانا جائے گا تو یہ انہونی ہو گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادھر وفاقی حکومت ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے پر سوالات اٹھا کر پنجاب حکومت سے جواب طلب کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف خان صاحب ایف آئی آر درج نہ ہونے پر شکوہ کناں ہیں حالانکہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ درایں حالات حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جوڈیشل کمیشن پر اتفاق خوش آئند ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی آئی جی پنجاب کو خان صاحب پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس سے کیس آگے بڑھے گاکیونکہ اگر 24 گھنٹے میں ایف آئی آر درج نہیں ہوتی ہے تو چیف جسٹس از خود نوٹس لیں گے۔ ابتدائی سماعت میں عدالت کے استفسار پر معلوم ہوا کہ ایف آئی آر کے اندراج پر صوبائی حکومت کے کچھ تحفظات ہیں۔آئی جی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ نے انہیں ایف آئی آر درج نہ کرنے کی ہدایت دی ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹ وفاق کی جانب سے نہیں بلکہ صوبائی سطح پر رکاوٹ ہے۔ جوڈیشل کمیشن قائم ہونے سے خان صاحب پر قاتلانہ حملے کے حقائق سامنے آنے کے قوی امکانات ہیں‘تاہم لانگ مارچ اگر یونہی چلتا رہا تو سکیورٹی کے خدشات موجود رہیں گے۔ ایسے حالات میں جب لانگ مارچ شروع ہونے کے ساتھ ہی ناکام ہونے کا تاثر ابھر رہا تھا‘ اب لانگ مارچ کے دوبارہ اعلان کے بعد ممکنہ طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں‘ ایک یہ کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے کم لوگ لانگ مارچ میں شریک ہوں اور تعداد کم ہو جائے کیونکہ ہر کسی کو اپنی جان عزیز ہے۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خان صاحب کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو پہلے نہیں نکل سکے اس طرح لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد اور جذبات کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہر صورت لانگ مارچ کی کامیابی لوگوں کی تعداد پر منحصر ہو گی‘ خان صاحب لانگ مارچ کے پہلے مرحلے میں لوگوں کو باہر نکالنے میں ناکام رہے ہیں‘ کیا وہ قاتلانہ حملے کے بعد لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں لوگوں کو بڑی تعداد کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved