فتح مکہ کے بعد بنوثقیف کا وفد مدینہ آیا اور اسلام قبول کرنے کے لیے پانچ شرائط پیش کیں۔ 1:شراب نوشی کی اجازت دی جائے۔ 2:سود کی حرمت ساقط کر دی جائے۔ 3:زنا کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 4:ان کے بت لات کو فی الحال اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ 5:نماز کی پابندی ساقط کر دی جائے۔
آنحضورﷺ کو جب یہ شرائط پہنچائی گئیں تو آپﷺ نے ان کو یکسر مسترد کردیا۔ آپﷺ جانتے تھے کہ ان شرائط کو ماننے کے بعد اسلام نہیں‘ کفر باقی رہ جاتا ہے۔ حضرت مغیرہؓ اس دوران وفد کو بھی سمجھاتے رہے اور آنحضورﷺ سے بھی مسلسل رابطے میں رہے۔ وہ آنحضورﷺ سے بھی درخواست کرتے رہے کہ ان سے نرمی برتی جائے۔ ایک بار یہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو ان کی تربیت ہوجائے گی اور یہ غیر اسلامی شعائر ترک کردیں گے۔ آنحضورﷺ حضرت مغیرہؓ کو پیار سے سمجھاتے کہ وہ ان سے ہر ممکن نرمی برتیں گے مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے کسی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ ایک دن یہ لوگ مسجد نبوی کے اندر آکر بیٹھ گئے۔ جب وہ پہلی مرتبہ مسجد میں آئے تو بعض صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ لوگ مشرک ہیں اور مسجد میں داخل ہوگئے ہیں۔ آپﷺ نے جواب دیا:اللہ کی زمین کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (واقدی، ج: 3، ص: 964)
جب بھی یہ مسجد میں آتے، صحابہ کرام کی تلاوت سنتے، فرض نمازوں میں اہلِ ایمان کی صف بندی اور نماز میں ان کی محویت کا عالم دیکھتے، صحابہ کرام کی شب بیداری اور راتوں کو آہ و زاری اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی طلب کے مناظر دیکھتے تو ان کے دل گواہی دیتے کہ یہ سچے اور اللہ والے لوگ ہیں۔ یہی کامیاب و سرخرو ہوسکتے ہیں۔ علمی و عقلی دلائل و براہین بھی دلوں کا زنگ اتارنے اور دماغوں کے عقدے کھولنے میں مفید ہوسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عملی نمونہ ہی کسی شخص کو قبولیتِ حق پر مائل کرسکتا ہے۔ دنیا میں جب بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے تو ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل رہی ہے جو اہلِ ایمان کے عملی نمونے سے متاثر ہو کر اسلام کا حصہ بنی ہے۔
بنو ثقیف کے ان لوگوں میں سے سب سے پہلے جو شخص مسلمان ہوا، اس کے قبولِ اسلام کا واقعہ بہت ایمان افروز ہے۔ قبولِ اسلام سے قبل یہ لوگ جب آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مسجد کی طرف آتے تو عثمان بن ابی العاص کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ جاتے کیونکہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹے تھے۔ آنحضورﷺ سے ملاقات کے بعد واپس آکر یہ لوگ سو جاتے تو عثمان آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔ اپنے وفد کو بتائے بغیر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور آنحضورﷺ سے درخواست کی تھی کہ ان کے قبولِ اسلام کے بارے میں ابھی وفد کو نہ بتایا جائے۔ حضرت عثمانؓ نے نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات بھی ذوق و شوق سے حاصل کرنا شروع کر دی تھیں۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کو آنحضورﷺ کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت سے محبت تھی وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ آنحضورﷺ نے حضرت ابیّ ابن کعبؓسے کہا کہ وہ عثمان کی خصوصی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ حضرت ابیؓ نے یہ فرض بخوبی ادا کیا اور حضرت عثمانؓ کو قرآن کی روشنی سے منور کر دیا۔
اس وفد کا قیام کئی دنوں تک مدینہ منورہ میں رہا۔ آخر ایک روز سردار بنوثقیف عبدیالیل نے آنحضورﷺ سے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے صلح کرلیں تاکہ ہم صلح کی یہ خوش خبری سنا دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں تم سے ضرور صلح کرلوں گا بشرطیکہ تم اسلام قبول کرلو۔ اگر تم اسلام کو رد کردو تو پھر میں تمہارے ساتھ کیسے صلح کرلوں؟ اس پر سردارِ وفد نے کہا کہ زنا کے متعلق آپﷺ نے سخت احکام دیے ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اورتجارتی سفر کے دوران اپنے گھروں سے کافی عرصے تک دور رہتے ہیں۔ اس عرصے میں ہمارے لیے زنا کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے نکاح کو حلال کیا ہے اور زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر آپﷺ نے قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں: ''جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو‘‘۔(النساء:3) آپﷺ نے زنا کے متعلق یہ آیت بھی پڑھی: ''زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ‘‘۔ (بنی اسرائیل:32)
عبدیا لیل نے سود کے بارے میں کہا کہ ہمارے تو کاروبار ہی سود پر چلتے ہیں۔ اس کے جواب میں آپﷺ نے قرآنِ مجید کی آیات پڑھیں : ''مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہو، وہ کہتے ہیں: ''تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے‘‘، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اُس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا‘ سو کھا چکا، اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ: 275) ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو‘‘۔ (البقرہ:278 تا 280)
عبدیا لیل نے شراب کے متعلق یہ کہا کہ وہ تو ہمارے انگوروں سے کشید کیا گیا ایک مشروب ہے اور ہماری قوم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو موسم بھی بہت سرد ہوتا ہے۔ سردی کی اس شدت کو اس مشروب کے بغیر نہ برداشت کیا جاسکتا ہے نہ کم کیا جاسکتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور اللہ رب العالمین نے خمر کے بارے میں فرمایا ہے: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ:90 تا 91)
اس نشست کے بعد جب عبدیا لیل اپنے وفد کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر واپس گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ''تمہاری بربادی ہو، جو شرائط ہمارے سامنے پیش کی جارہی ہیں، ان کو لے کر اپنی قوم کے پاس جائیں گے تو وہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔ سود، زنا اور شراب‘ یہ تین چیزیں تو ان کی گھٹی میں پڑی ہیں۔ وہ کبھی شراب اور زنا کو ترک نہیں کریں گے ‘‘۔
وفد کے ایک سمجھ دار رکن سفیان بن عبد اللہ ثقفی نے کہا: ''اے خدا کے بندے کیا باتیں کر رہے ہو۔ اگر اللہ ہماری قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے گا تو وہ ان ساری بری خصلتوں کو چھوڑ دیں گے اور خوب سمجھ لو کہ اسلام کا جھنڈا ہر طرف لہرا رہا ہے۔ اب اس سے بھاگ جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ خدا کی قسم اگر یہ لوگ ایک مہینے کے لیے ہمارا محاصرہ کرلیں تو نہ ہمارے ہتھیار ہمارے کام آئیں گے نہ ہمارے قلعے میں ہمیں امن نصیب ہوگا۔ اس صورت میں ہم بھوکے اور رسوا ہو کر مر جائیں گے‘‘۔
سفیان بن عبد اللہ صاحبِ علم اور سمجھدار انسان تھے،اسلام میں داخل ہوئے تو بہت اخلاص و احتساب کے ساتھ نیکی پر کاربند رہے۔ پس یہ باتیں سن کر وفد کے باقی لوگوں نے بھی ان کی تائید کی اور اس کے بعد ان لوگوں نے آنحضورﷺ کے پاس حاضرہو کر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی سردار وفد نے کہا: یا رسول اللہﷺ! ہمارے قبیلے میں بہت سے لوگ اجڈ اور بے وقوف ہیں۔ ہمارے اندر ہمت نہیں کہ ہم لات کے بت کو توڑ سکیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اس کی فکر نہ کرو۔ ہم خود اسے توڑنے کا کام کرلیں گے۔ ان لوگوں نے قبولِ اسلام کے بعد یہیں آنحضورﷺ کے ساتھ نمازیں بھی پڑھیں اور روزے بھی رکھے کیونکہ یہ ماہِ رمضان تھا۔ آنحضورﷺ کے حکم سے حضرت بلالؓ ان کے لیے سحری و افطاری کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ یوں بنو ثقیف کے اس وفد کا ہر رکن واپسی سے پہلے اسلامی احکام و عبادات پر عمل پیرا ہوگیا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 919تا 921 )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved