تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-11-2022

لاپروائی کی گنجائش نہیں

متوجہ ہونے سے گریز کی عادت پروان چڑھ جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ ایسے میں ہاتھ آئی کامیابی بھی دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے اور پھر اُسے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھنا پڑتا ہے، بہت تیزی سے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عدمِ توجہ کا ''ہنر‘‘ انسان کو کئی ایسی دنیائیں دکھاتا ہے جن میں صرف ناکامی بسی ہوئی ہوتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو اپنے شعبے اور کام پر خاطر خواہ توجہ دینے سے گریزاں رہتے ہیں اور پھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں مگر روش تبدیل نہیں کرتے۔ ذہانت تو کم و بیش سب میں ہوتی ہے۔ صلاحیت کا پایا جانا بھی کچھ حیرت انگیز نہیں۔ ہر طبقے میں باصلاحیت افراد پائے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ آسانی سے کامیاب نہیں ہو پاتے اور اگر کامیاب ہو بھی جائیں تو زیادہ دیر تک اپنی کامیابی کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک بڑا، بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر افراد اپنی کامیابی کو برقرار رکھنے کے معاملے میں فی الواقع سنجیدہ نہیں ہوتے۔ وہ توجہ بھی دیتے ہیں تو ادھوری یا کچی۔ کام بے دِلی سے کیا جائے تو مطلوب نتائج نہیں ملتے اور اگر چھوٹی موٹی کامیابی مل بھی جائے تو اُسے برقرار رکھنے کے معاملے میں‘ عدمِ توجہ کے باعث‘ بات بگڑتے دیر نہیں لگتی۔
ویسے تو ہمارے ہاں کم و بیش ہر شعبے میں لوگ شدید عدمِ توجہ کے حامل رہتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خامیوں اور خرابیوں کو بھی جھیلتے رہتے ہیں؛ تاہم بعض شعبوں میں خرابیاں تیزی سے نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اب کرکٹ ہی کی مثال لیجیے۔ ایک زمانے سے ہمارے کرکٹ ہیروز نے طے کر رکھا ہے کہ جیتیں گے ضرور مگر قوم کو مشکل میں ڈالنے کے بعد۔ یہ جب کھیلنے پر آتے ہیں تو بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو بھی ناکوں چبوادیتے ہیں اور جب طے کرلیتے ہیں کہ پریشان ہونا اور قوم کو پریشان کرنا ہے تو افغانستان جیسی ٹیموں کے خلاف بھی یوں ہتھیار ڈالنے لگتے ہیں کہ صرف پاکستانی قوم ہی نہیںبلکہ ایک دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ یہ یقینا خوشی کی بات ہے۔ البتہ یہ سیمی فائنل تک کس طور پہنچی‘ یہ ایک الگ داستان ہے۔ اگر یہ داستان سنانے بیٹھیے تو لوگ کہیں گے بس کر پگلے! رُلائے گا کیا! معاملہ ہے ہی کچھ ایسا۔ اس ٹورنامنٹ میں ہمارا پہلا ٹاکرا بھارت سے ہوا‘ جو ہم نے آخری گیند پر ہارا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ امپائر کے ایک غلط فیصلے نے وہ تھوڑا سا فرق پیدا کیا جو ہمیں شکست سے دوچار کرگیا۔ پھر بھی قابلِ غور ہے کہ معاملہ آخری گیند تک گیا اور ہم اپنی تھوڑی سی سہل انگاری کے ہاتھوں جیتا ہوا میچ ہار گئے۔ قوم نے یہ سوچ کر آنسو روک لیے کہ چلئے، آخری گیند تک مقابلہ تو کیا۔
دوسرا میچ زمبابوے سے تھا جس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ ہم جب معاملات کو حتمی مرحلے میں ڈھیلا چھوڑتے ہیں تو غیر مطلوب نتائج جھیلنا پڑتے ہیں۔ زمبابوے کی ٹیم اگرچہ اتنی گئی گزری نہیں مگر پھر بھی وہ کوئی ایسی مضبوط ٹیم نہیں کہ ہمارے لیے مشکلات پیدا کرے جو کہ اُس نے کیں۔ زمبابوے نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 130 رنز سکور کیے۔ یہ سکور کسی بھی ٹی ٹونٹی میچ میں زیادہ نہ تھا مگر آج کی کرکٹ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اِتنے آسان سے ہدف کو بھی ہماری ٹیم نے جان توڑ محنت کے ذریعے مشکل بنا دیا! صرف 13 کے مجموعی سکور پر بابر اعظم میدان چھوڑ گئے۔ زمبابوے کی بائولنگ معیاری ضرور ہے مگر اِتنی بھی نہیں کہ ہمارے بیٹرز اُس طرح ڈرتے جس طرح وہ ڈرے۔ محض 23 کے مجموعی سکور پر محمد رضوان بولڈ ہوئے۔ چند ایک اچھے سٹروکس کے بعد وکٹیں دھڑا دھڑ گرنے لگیں۔ ایک مرحلے پر 27 گیندوں پر محض 38 رنز درکار تھے۔ تب تک 6 وکٹیں ضرور گرچکی تھیں؛ تاہم ہدف بہت مشکل نہ تھا۔ آخری 12 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے۔ آج کی کرکٹ میں پاکستان جیسی کسی بھی بڑی ٹیم کے لیے یہ ہدف کسی بڑی ٹیم کے خلاف بھی زیادہ مشکل نہیں اور زمبابوے جیسی ٹیم کے مقابل تو ایسا ہدف حاصل نہ کر پانے کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔ پھر 8 گیندوں پر صرف 12 رنز رہ گئے تھے۔ آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے۔ اس اوور میں دو چوکے بھی لگے مگر پھر بھی ہم محض ایک رن سے میچ ہار گئے۔ آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ پورا تماشا دیکھ کر کمزور دل والوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ سوال ہارنے کا نہیں‘ بے ڈھنگے انداز سے ہارنے کا تھا۔ کیا ایسا میچ ہارا جاسکتا تھا؟ محسوس ہوتا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کو ملک بھر کے شائقینِ کرکٹ کے دل و دماغ کو جھٹکے دینے میں مزہ آتا ہے۔ کرکٹ اُن معاملات میں سے ہے جن کے تجزیے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تھوڑی سی عدمِ توجہ ہمارے لیے کتنے مسائل پیدا کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم نے کئی آسان میچ آسانی سے ہارے ہیں اور انتہائی مشکل میچوں کو انتہائی محنت سے جیتا ہے۔ یہ ''شاندار انداز‘‘ ہی ہمیں دوسروں سے الگ اور نمایاں کرتا ہے! اب پھر دنیا حیران ہے کہ پہلے دو میچ ہارنے والی ٹیم کتنی ''سادگی‘‘ سے سیمی فائنل تک پہنچ گئی ہے جبکہ میزبان آسٹریلیا کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہے! ؎
قائم اِسی سے اپنا بھرم ہے جہان میں
سب کچھ لُٹاکے جینے کی عادت وطن کے نام
معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی، کوئی بھی خرابی بالعموم سطحی نوعیت کی لاپروائی سے پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی انسان بہت محنت کرتا ہے اور اُس کے نتیجے میں جو کچھ پایا ہوتا ہے وہ کسی معمولی سی غلطی یا لاپروائی سے کھو بیٹھتا ہے۔ اہم موڑ پر معمولی سی لاپروائی بہت بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے۔ اگر کرکٹ میچ میں آخری تین چار کھلاڑی غیر ضروری عجلت پسندی کا مظاہرہ کریں اور لاپروائی سے وکٹیں کھو بیٹھیں تو ابتدائی بیٹرز کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سے اہم معاملات میں ایسی عدمِ توجہ کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں جو کسی بھی بنے ہوئے معاملے کو دیکھتے ہی دیکھتے یوں بگاڑ دیتی ہے کہ ہم خود بھی دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ عدمِ توجہ آج پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ جب ہم سنجیدگی کو ایک اہم عادت کے طور پر اپنانے سے گریز کی راہ ہر گامزن رہتے ہیں تب کامیاب زندگی محض خواب ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم اب تک یہ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں حقیقی اور بھرپور کامیابی پوری توجہ چاہتی ہے۔ نظر ذرا سی ہٹی اور کام بگڑا۔ بنتے دیر لگتی ہے، بگڑتے بالکل دیر نہیں لگتی۔ بات جب زندگی کی ہو اور وسیع تر مفہوم میں ہو تو لاپروائی کی گنجائش برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ آج ہماری قومی زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جو عدمِ توجہ کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات سے پاک ہو۔ ریاستی معاملات ہوں یا کاروباری امور، مالیاتی معاہدے ہوں یا معاشرتی زندگی، ہر جگہ ایسی عدمِ توجہ دکھائی دیتی ہے جو ہمیں کامیابی کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ یہ تربیت کی خامی یا خرابی کا معاملہ بھی ہے۔ ہمارے ہاں اب بچوں کی تربیت کا وہ معیار نہیں رہا جس کی بدولت زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا ممکن ہو پاتا تھا۔ کبھی ہمارے ہاں بزرگ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ بچے جب بڑے ہوں تو زندگی کو سنجیدگی سے لیں، کام کے معاملے میں نظم و ضبط کے پابند ہوں اور وقت کسی طور ضائع نہ ہونے دیں۔ آج تربیت کے معاملے میں لاپروائی نمایاں ہے۔ جب بڑے اپنے معاملات میں لاپروائی برتیں گے تو بچے کیا سیکھیں گے؟ وہ بھی لاپروائی ہی کو شعار بنائیں گے۔
بیشتر معاملات میں منزل تک پہنچنے یعنی کامیابی سے ہم کنار ہونے کے لیے جتنی توجہ درکار ہوتی ہے اُس میں رہ جانے والی تھوڑی سی کمی معاملات کو بگاڑ بیٹھتی ہے۔ پوری توجہ سے کام کرنے اور غیر ضروری لاپروائی سے بچنے کا ہنر سیکھنے پر توجہ دینا پڑتی ہے۔ اقوامِ کی برادری میں کچھ بننا اور کچھ کر دکھانا ہے تو اہم ترین معاملات پر متوجہ رہنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved