کہیں کوئی حقیقی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی۔ حقیقی ہلچل یعنی ایسا کچھ جو معاملات کو طے کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی نیت سے کیا جارہا ہو۔ ہر طرف مکمل ٹھہراؤ اور خاموشی ہے۔ ماحول پر تعطل چھایا ہوا ہے۔ شور شرابہ بہت ہے مگر صرف منفی معاملات کا۔ بگاڑ پیدا کرنا ہو تو لوگ حاضر ہیں۔ معاملات درست کرنے نکلئے تو کوئی ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ملتا۔ پوری قوم کا مجموعی مزاج ایسا بگڑ گیا ہے کہ فکری ساخت پر منفی رجحانات غالب ہیں۔ ہر معاملے میں صرف منفی پہلوؤں کو دیکھنے اور دیگر تمام معاملات کو یکسر نظر انداز کرنے کی ذہنیت پروان چڑھ چکی ہے۔
جن معاشروں میں مکمل ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اُنہیں تنزلی و پسماندگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لوگ اس معاملے میں اکثر غلط فہمی یا پھر خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ ناکام ترین معاشرے بھی ختم نہیں ہو جاتے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ بھی ہمارے ماحول میں زندہ رہتے ہیں اور مانگ تانگ کر گزارہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو کمانے کی فکر سے کب کے آزاد ہوچکے ہیں۔ اُن کاگزارہ ابتدا میں ادھار پر ہوتا ہے اور جب یہ مرحلہ منطقی انجام کو پہنچتا ہے تب وہ مانگے تانگے پر جیتے ہیں۔ کیا ادھار یا بھیک کے بل پر جینا کوئی جینا ہے؟ آپ اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ جو لوگ ادھار کے بل پر یا پھر مانگ تانگ کر زندہ رہتے ہیں وہ محض زندہ رہتے ہیں۔ اُن کی توقیر برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ لوگ اُنہیں دیکھ کر منہ بسورتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پسند کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ تو کیا ایسے جینے کو زندگی کہا جائے گا؟ یقینانہیں! جو کچھ نہیں کرتے وہ بھی زندہ ہی رہتے ہیں مگر ذلت کے ساتھ۔ یہی حال اُن معاشروں کا ہوتا ہے جو اپنے معاملات درست کرنے، معاشی و معاشرتی توقیر و استحکام بحال کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے اور جیسے تیسے زندہ رہنے کو کافی تصور کرتے ہیں۔ جب کوئی ریاست ناکام ہو جاتی ہے تب بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے؛ تاہم وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ ناکام ترین ریاستیں بھی باقی رہتی ہیں مگر ایسی حالت میں کہ لوگ اُنہیں دیکھ کر صرف عبرت پکڑ سکتے ہیں، اُنہیں احترام کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ صومالیہ سمیت افریقہ کی متعدد ریاستیں اِس کا عملی نمونہ ہیں۔ ان ناکام ریاستوں کی کچھ اہمیت ہے نہ وقعت۔ ہاں‘ وجود برقرار ہے۔ تو جناب! صرف وجود کی بنیاد پر کسی کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارا معاشرہ بہت سے معاملات میں ناکامی سے دوچار ہے مگر پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ اب بھی بہت سے ادارے معقولیت کی حدود میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ہاں! کچھ لوگ ضرور یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بچا ہوا ہے‘ وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے۔ ایجنڈے رُو بہ عمل ہیں۔ زمانے بھر کی سازشوں پر عمل کیا جارہا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کرم ہے کہ حاسد ناکام ہیں۔ سازشیں اگرچہ کی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بدخواہ کچھ ایسا نہیں کرسکے کہ معاشرہ تلپٹ ہوکر رہ جائے۔ ملک بھر میں خرابیاں بھی ہیں، خامیاں بھی مگر پھر بھی بہت کچھ ہے جو دلوں کو حوصلہ دیتا ہے۔ معیشت اور معاشرت‘ دونوں ہی سطحوں پر اب بھی بہت کچھ ہے جو ہمارے بس میں اور حق میں ہے۔
ٹھہراؤ وہاں ہے جہاں بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی تعطل کی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تعطل دور کرنے کے حوالے سے کچھ کیا ہی نہیں جارہا۔ اہلِ سیاست اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں اور ریاستی نظم اپنے موقف سے سِرمُو ہٹنے کو تیار نہیں۔ اداروں کو نشانہ بنانے کی روش خطرناک ہے۔ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو ہدف بنانے کی صورت میں بچے گا کیا؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ سوال صرف بھارت کا نہیں‘ مغربی اور شمال مغربی سرحدیں بھی محفوظ نہیں۔ افغانستان سے ہمارے تعلقات کی جو نوعیت ہے وہ کسی بھی اعتبار سے پردۂ اِخفا میں نہیں۔ ایسے میں قومی سلامتی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
سیاسی تعطل کی کیفیت نے ملک بھر میں انتشار کو ہوا دی ہے۔ سیاسی قوتوں کا آپس کا تصادم پورے معاشرے کے لیے بلائے جان ثابت ہو رہا ہے۔ نام نہاد سٹیک ہولڈرز کی آپس کی لڑائی نے پوری قوم کو شدید الجھن سے دوچار کر رکھا ہے۔ اپریل میں نقطۂ عروج کو پہنچنے والے سیاسی بحران نے اب تک دم نہیں توڑا۔ اپریل میں جو سیاسی توڑ جوڑ ہوا وہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہ تھا۔ ہمارے ہاں دو ڈھائی عشروں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ سیاسی بحران نقطۂ عروج کو پہنچا تو پھر منطقی انجام کو بھی پہنچا یعنی ایک حکومت گئی اور ایک حکومت بنی۔ جو حکومت بنی اُس کے لیے بھی حالات آئیڈیل نہ تھے مگر اُس کی مخالفت کا کوئی زیادہ جواز بنتا نہیں تھا کیونکہ جس طرح اتحادیوں کی بیساکھیوں پر یہ حکومت بنی ہے کچھ کچھ ویسے ہی توڑ جوڑ سے پی ٹی آئی کی حکومت بھی معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اختلاف بہت سے معاملات میں اور نکات پر ہوسکتا ہے مگر جہاں متفق ہوا جاسکتا ہے وہاں تو متفق ہوا جائے۔
یہ وقت آپس میں دست و گریباں ہونے کا نہیں۔ اختلافات اپنی جگہ! اختلاف کی بنیاد پر میدان میں آنے میں بھی کچھ قباحت نہیں۔ بہت کچھ ہوسکتا ہے اور ہونا چاہیے مگر جب بات ملک و قوم کی آجائے تو کچھ بھی ایسا ویسا نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی قوتیں آپس کی لڑائی سے فارغ ہوں تو ملک و قوم کے لیے سوچنے پر مائل ہوں۔ معمولی مفادات سے دست برداری کے لیے بھی کوئی نہیں۔ قومی وسائل کی بندر بانٹ میں جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ لے بھاگتا ہے۔ قوم ٹیکس ادا کرتے کرتے تھک چکی ہے مگر ہمارے سٹیک ہولڈرز ہیں کہ اُن کا پیٹ بھرتا ہے نہ نیت۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوؤں کا یہ حال ہے کہ کچھ بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف وفاق اور صوبوں کے درمیان پائی جانے والی کشمکش ہے اور دوسری طرف صوبوں کی اندرونی کشمکش ہے۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات دیے جارہے ہیں نہ وسائل۔ سندھ میں اس حوالے سے معاملات بہت ہی بُرے ہیں۔ بظاہر طے کرلیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو چلنے ہی نہیں دینا۔ بلدیاتی انتخابات ہونے نہیں دیے جارہے۔ بار بار التوا سے سیاسی قیادتوں کا ٹیمپو بھی ٹوٹ چکا ہے۔ جماعتِ اسلامی مزاحمت کر رہی ہے۔ اب پی ٹی آئی بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہے؛ تاہم پی پی پی نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ جماعتِ اسلامی چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی پولنگ جلد از جلد کرائی جائے۔ ایم کیو ایم بضد ہے کہ پہلے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اہلِ کراچی کے لیے سوہانِ روح ہے۔ اِسی طور دیگر صوبوں میں بھی اہلِ سیاست کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے اتنی خرابیاں پیدا کی ہیں کہ عام آدمی دیکھ دیکھ کر مایوس ہوا جاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ کوئی بھی کسی حقیقی تبدیلی کا خواہش مند نہیں تو اُس کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ بہت کچھ طے کرنا باقی ہے۔ اب تمام سٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر آکر بات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ سوال محض مفادات کا نہیں، ملک و قوم کی آبرو، استحکام اور بقا کا ہے۔ مکمل ناکامی کی صورت میں بھی ہم زندہ ہی رہیں گے مگر کیا اِس طور جینے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ یقینا نہیں!
مقتدرہ اور سیاسی قیادتوں کے درمیان تصادم کی سی کیفیت نے ملک کی ساکھ داؤ پر لگادی ہے۔ عالمی برادری میں اپنا موقف زور دے کر بیان کرنا اب انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ایسے میں پوری توقیر کے ساتھ جینے کا صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے‘ یہ کہ تمام سٹیک ہولڈرز وسیع البنیاد مکالمے کے ذریعے معاملات طے کریں، ایک دوسرے کی شکایات دور کی جائیں۔ وفاق پر لازم ہے کہ صوبوں کے تحفظات اور شکایات دور کرے۔ صوبوں پر بھی فرض ہے کہ وفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ہر کوشش کا ساتھ دیں، محض اپنے چھوٹے مفادات کے لیے وفاق کو داؤ پر نہ لگائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved