اس پر عالمگیر اجماع ہے کہ جمہوریت سے بہتر طرزِ حکومت انسان دریافت نہیں کر سکا۔ بایں ہمہ‘جس طرح ایک صحت مند جسم کو عوارض لاحق ہو سکتے ہیں‘ جمہوریت کے وجود سے بھی کبھی کبھی کوئی وائرس لپٹ جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک وائرس 'پاپولزم‘ بھی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں تمہیداً ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو اس موضوع کی تفہیم کے لیے اہم ہے۔ 'لبرل جمہوریت‘ سیاست کے باب میں اُس ہمہ جہت فکری تبدیلی کا ایک جزو ہے جس نے مغرب میں تحریکِ تنویر (Enlightenment) کے زیرِ عنوان ایک مربوط صورت اختیار کی۔ جمہوریت کا شجر اُسی وقت پوری طرح ثمر بار ہوتا ہے جب سماجی فضا اس کی نشو ونما کے لیے سازگار ہو۔ بالفاظِ دیگر تحریکِ تنویر سماجیات اور معیشت کے حوالے سے جو اصلاحات تجویز کرتی ہے‘ ان کے روبعمل ہونے ہی سے جمہوریت بھی پھل دیتی ہے۔ جو معاشرے اس ہمہ جہت تبدیلی کو قبول نہیں کرتے ان کے ہاں لبرل جمہوریت متوقع نتائج نہیں دیتی۔ لہٰذا اُس معاشرے کو اس کی برکات سے مستفید ہونے کے لیے جمہوریت کے ایک مقامی ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے‘ اگر اسے مغربی معاشرے کے دیگر اجزا سے اتفاق نہیں۔
تحریکِ تنویر نے یورپ میں جنم لیا اور امریکہ سمیت اُس سارے علاقے کو متاثر کیا جسے آج ہم مغرب کہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں‘ جب مشرقی یورپ بھی کمیونزم کے اثرات سے باہر آیا تو یہ لبرل جمہوریت کی عالمگیر فتح کا اعلان تھا۔ سیاسی نظم کے باب میں اب اس کے سوا جو کچھ تھا‘ اس کے بارے میں یہ مان لیا گیا کہ یہ انسان کے تہذیبی سفر سے بچھڑے ہوئے لوگوں کی کہانی ہے جس نے آج نہیں تو کل متروک ہو جانا ہے۔ یہی اجماع سیکولرازم کے بارے میں وجود میں آیا جو جمہوریت کا توام ہے۔
چند سال سے مگر جمہوریت کو ایک وائرس لاحق ہوگیا ہے۔ یہ اگرچہ نیا نہیں ہے مگر اہلِ مغرب کا خیال تھا کہ انہوں نے اس کو بیسویں صدی میں حتمی طور پر ختم کر دیا ہے جب ہٹلر اور مسولینی سے خود ان کی اپنی اقوام نے اعلانِ برات کر دیا تھا۔ یہ 'پاپولزم‘ کا وائرس تھا جس نے فسطائیت کی صورت اختیارکر لی تھی۔ مغرب کے نظامِ فکر نے اسے مسترد کر دیا کہ عوامی تائید سے جنم لینے والا یہ سیاسی عمل‘ نتائج کے اعتبار سے اس کی روح سے متصادم تھا۔ اب اس نے دوبارہ ظہور کیا ہے۔
برگزٹ (Brexit)‘ 2016ء میں امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی‘ فرانس میں نیشنل فرنٹ کے لیے عوامی تائید میں دگنا اضافہ‘ اٹلی میں پانچ ستارہ تحریک کا ابھرنا یا پھر ہنگری میں آنے والی تبدیلی‘ یہ سب پاپولزم کے جدید مظاہر ہیں جنہوں نے لبرل جمہوریت کے لیے ایک خطرہ کھڑا کر دیا ہے۔ یوں بیسویں صدی کے اختتام پر جمہوریت کے بارے میں جو عالمگیر اجماع پیدا ہو گیا تھا‘ اس پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔
مغرب مگر ایک زندہ معاشرہ ہے۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ فکری خود احتسابی کا قائل ہے۔ وہ اپنے افکار اور طرزِ عمل پر مسلسل نظر ثانی کرتا رہتا ہے اور یوں ارتقا سے بھی گزرتا ہے۔ سیکولرازم کے بارے میں بھی ایک وقت میں ایسا ہی اجماع وجود میں آگیا تھا۔ جب مذہب نے سخت جانی کا مظاہرہ کیا اور سیکولرازم کے ہاتھوں مرنے سے انکار کر دیا تو مغرب کے اہلِ فکر نے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے 'پوسٹ سیکولرازم‘ کا تصور دیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کو سیکولر پیراڈائم میں مذہب کے کردار کو بالفعل ہی نہیں‘ نظری طور پر بھی قبول کر لینا چاہیے۔
مغربی اہلِ علم اب اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ لبرل جمہوریت کو پاپولزم کا عارضہ کیوں لاحق ہوا اور اس کا علاج کیا ہے؟ سیکولرازم کی طرح ان کے مابین جمہوریت کے جوہر پر اتفاق ہے۔ وہ ان عوامل کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں جو جمہوری عمل کو پاپولزم میں بدل دیتے ہیں۔ مغربی معاشرے چونکہ بنیادی فکری و سماجی ساخت میں بڑی حد تک یکساں ہیں‘ اس لیے ان عوامل میں بھی یکسانیت ہے۔ سب سے اہم عامل معیشت ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں مغربی معاشروں میں نہ صرف استحکام تھا بلکہ سب کے وسائل روز افزوں تھے۔ امیر طبقے اور عام آدمی کے وسائل میں ایک نسبت سے اضافہ ہو رہا تھا۔ پھرحالات بدلنے لگے اور معاشی ترقی کا یہ عمل اپنی رفتار برقرار نہ رکھ سکا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ایک تجزیہ یہ ہے کہ جمہوریت میں پالیسی سازی کا عمل منتخب نمائندوں اور ماہرین کی سطح پر ہوتا ہے۔ ان پالیسیوں کو مارکیٹ میں ترقی پذیر ممالک کے بڑھتے کردار سے دھچکا لگا۔ اس کے ساتھ امریکہ جیسے ممالک کے سرمایہ دار نے مینو فیکچرنگ کو چین جیسے ممالک میں منتقل کر دیا جس سے عام آدمی کے لیے روزگار اور ملازمت کے مواقع مزید کم ہوگئے۔
'عالمگیر معیشت‘ کا فائدہ بھی ترقی یافتہ ممالک کے اعیانی طبقے اور سرمایہ دار کو پہنچا۔ عام آدمی اس سے محروم رہا۔ اس سے بے چینی پیدا ہوئی جس سے منتخب نمائندوں اور پالیسی ساز اعیانی طبقے کے خلاف جذبات پیدا ہوئے جنہیں اُن کرداروں نے استعمال کیا جنہیں پاپولسٹ کہا جاتا ہے۔ اس بیانیے میں عوامی اپیل میں اضافے کے لیے کرپشن سمیت دیگر بہت سے حقیقی اور فرضی رنگ بھی شامل کر دیے گئے۔
پاکستان میں 'پاپولزم‘ پیدا ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ ہمارے دانشور نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہاں جمہوریت حقیقی معنوں میں کبھی تھی ہی نہیں۔ پاکستان میں مقتدرہ کی حکومت تھی جس کے ساتھ اس کی مرضی سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اور ماہرین شریک رہے ہیں۔ یہ نظام ناکام ہوا تو اس مثلث کے ایک ضلع نے اس نظام کو چیلنج کردیا۔ یہ نواز شریف صاحب تھے؛ تاہم انہوں نے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے‘ تبدیلی کی کوشش کی۔ یہ نیم دلانہ کوشش تھی جو ناکام ہوئی۔ دوسرا چیلنج عمران خان صاحب کی طرف سے سامنے آیا۔ یہ بھی اسی مثلث کا ایک ضلع تھے۔ انہوں نے پاپولزم کا راستہ چنا اور اس نظام کے خالق ہی کو چیلنج کر دیا۔
عمران خان صاحب نے پاکستان کے کسی حقیقی مسئلے کو موضوع نہیں بنایا‘ ان کا ایجنڈا شخصی ہے۔ انہوں نے اپنے بیانیے میں متضاد عناصر کو جمع کردیا جو نوجوانوں میں ہیجان پیدا کر سکتے تھے۔ ایک پاپولسٹ کی حقیقی کامیابی یہی ہے کہ اس نے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ آرمی چیف کی تعیناتی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیا ہے اور پھر بھی عوام کا قابلِ ذکر طبقہ ان کے ساتھ ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کو پہلی بار پاپولزم کا چیلنج درپیش ہوا ہے۔ اس کے ترکش میں کوئی ایسا تیر نہیں جو اس کو ہدف بنا سکے۔ مقتدرہ نے پاپولزم کے وائرس کو بھی آزمودہ اینٹی بائیو ٹک سے ختم کر نے کوشش کی جس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ مغرب کی جمہوریت طاقتور تھی۔ نازی ازم اور مسولینی ازم اس کی تاریخ کے اہم باب ہیں اور اسے معلوم ہے کہ پاپولزم کو لازماً فسطائیت میں بدلنا ہے۔ اس مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وہاں کا دانشور تیار ہے اور نظام بھی۔
مغرب کی اصل طاقت اس کا خود احتسابی کا نظام ہے۔ جب اسے اشتراکیت کا چیلنج درپیش ہوا تو اس نے اس سوراخ کو تلاش کیا جہاں سے کمیونزم کو یورپ میں گھسنے کا موقع ملا۔ اس نے فلاحی ریاست کے تصور کو اپناتے ہوئے اس سوراخ کو بھرنے کی کامیاب کوشش کی۔ امکان ہے کہ وہ پاپولزم کے چیلنج کا حل بھی تلاش کر لیں گے کیونکہ ان کے سوچنے کی صلاحیت زندہ ہے۔ مسئلہ تو ہمارا ہے۔ ہمارا کیا بنے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved