تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     11-11-2022

غازی عمران خان اور سواتی… (2)

عمران خان پر قاتلانہ حملہ ایک ظلم ہے۔ ایسا برہنہ ظلم جس میں تین معصوم بچوں کے جواں سال والد معظم شہزاد گوندل کی جان گئی۔ جس کے بعد مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سوپ سیریل چل نکلا ہے۔ ان فریاد کناں مظلوموں میں کہیں بھی کسی مظلوم فریق کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ بس طفل تسلیاں ہیں‘ خالی خولی آسرے اور کھوکھلے وعدے وعید ہیں۔ جس کے نتیجے میں ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں‘ عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے۔ یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ وطن کا Criminal Justice System انہیں انصاف کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ مقتول صحافی ارشد شریف کی والدہ‘ بچے اور خاندان بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کی شریک حیات‘ صاحبزادی اور پوتیاں بھی ہجرتوں کے سفر پر مجبور ہو گئی ہیں۔ چالیس پچاس لوگوں اور ملک کے ایلیٹ مافیا کے وظیفہ خوروں کے نزدیک ''سب اچھا‘‘ ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا قول ہے‘ ریاست کفر سے چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں چل سکتی۔ اس آفاقی سچائی کی دو مثالیں Post World War II کی تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔ جن کو آپ تاریخ کا سبق کہہ سکتے ہیں۔
پہلا سبق: جرمنی کے نازی لیڈر Adolf Hitler جتنی بڑی وار مشین‘ فوج‘ گولہ بارود اور ہائی فائی بیلسٹک ٹیکنالوجی کے انبار کوئی اور حکمران نہ لگا سکا۔ نہ ہی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک سے مل سکتی ہے۔ پولینڈ اور سارے کا سارا سکینڈے نیویا‘ ایسٹرن یورپ‘ ہٹلر کی طوفانی فوج کے قدموں کی چاپ کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ لندن پر ایک وقت میں 800 جہاز بمباری کرتے تھے۔ انگلش چینل پر بھی نازی نیوی (Deutsche Marine) اور جرمن ایئر فورس (Luftwaffe Airforce) چھائی ہوئی تھیں۔ یو کے‘ یو ایس اے‘ یو ایس ایس آر سمیت درجنوں ممالک نازی اِزم کے نام سے لرز اُٹھے تھے۔ اس بے مثال طاقت کے باوجود اتنا پاور فل‘ مگر اکیلا آدمی جو اپنی اَنا کے پہاڑ پر رہتا تھا۔ نہ تو اپنے ملک کو بچا سکا اور نہ ہی اپنی قوم کو اور نہ ہی اپنی دہشت آفرین فائر پاور آرمڈ فورس (The Bundeswehr) کو۔
دوسرا سبق: USSRدوسری جنگ عظیم میں سب سے بڑی سپر پاور بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھرا تھا۔ جس کی دو بڑی وجوہات تاریخی ثبوت کے طور پر مانی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ 22جون 1941ء کو Adolf Hitler کے روس کے اندر جا کر مارنے والا باربروسا آپریشن تھا۔ باربروسا کا مطلب اٹالین میں Red Beardہے۔ باربروسا آپریشن کا نام بارہویں صدی کے جرمن ہولی رومن شہنشاہ (Frederick Barbarossa) کے نام کی نسبت سے رکھا گیا۔ Adolf Hitlerنے اس نام کا اس لیے انتخاب کیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی نظریے کو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے اندر پھیلانا چاہتا تھا۔ اس بارے میں Adolf Hitlerکے اپنے الفاظ یہ ہیں؛
"Goal of conquering the Western Soviet Union to repopulate it with Germans"
اس کا خواب مغربی سوویت یونین کو روسیوں سے پاک کرکے ان زمینوں پر نازی جرمنی کے بیٹوں کی آباد کاری تھا۔ جرمنی کی نازی فوج کا یہ سپر میگا حملہ 5دسمبر 1941ء تک جاری رہا اور اس دوران حملے کے علاقوں میں روسی شہروں اور آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ لیکن اسی روس نے نہ صرف جرمن فوجوں کو پسپا کرکے اپنی زمین سے نکال باہر کیا بلکہ برق رفتار جوابی حملے کے ذریعے محض 3سال 10 مہینے اور 10 دن کے اندر اندر بر لن کو بھی فتح کر دکھایا۔
ہٹلر کی شکست کی وجوہات سچی ہیں یا جھوٹی‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تاریخ کا سچا سبق صرف ایک ہی ہے کہ عوام کی تائید اور شہریوں کی حمایت کے بغیر کوئی اکیلا شخص فاتحِ عالم نہیں بن سکتا۔ اس تاریخ میں پچھلے تیس برسوں میں اتنا بڑا U-Turn لیا گیاہے۔ اتنا بڑا ٹوسٹ کرہ ارض پر پہلے کبھی نہیں آیا۔ یہ ہے Information Technology کا بے رحم سونامی جس نے بڑے بڑے میڈیا گُرو اور لیڈر منہ کے بَل گرا دیے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک سال سے لے کر تین سال کے تمام شہری بچے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے Tabletsکے ذریعے سوشل میڈیا User بن چکے ہیں۔ کسی سروے کی ضرورت نہیں۔ اپنے بچے یا بچوں کے بچے دیکھ لیں‘ ان کی پہنچ میں سوشل میڈیا ہے کہ نہیں؟ آج دیہات کے ہر گھر میں تقریباً ہر عورت اور ہر مرد کے پاس موبائل موجود ہے۔ جن میں Smartphone موبائل کے ذریعے ہر بچہ ہر چیز سے آشنا ہو رہا ہے۔ اچھا بُرا‘ سیاست اور ریاست‘ یہ سمجھانے کے لیے ''اتالیق‘‘ کا رول زیرو کے قریب جا پہنچا ہے۔ جس کے پاس سمارٹ فون ہے وہ اینکر ہے‘ رپورٹر ہے اور متبادل میڈیا کا صحافی بھی۔ فیس بک ہر کسی کا ذاتی اخبار ہے۔ ٹِک ٹاک ہر شہری کا اپنا اپنا خبرنامہ ہے۔ حالات حاضرہ پہلے سوشل میڈیا پر آتے ہیں اور پھر باقی جگہ پہنچ پاتے ہیں۔ لائیو کوریج کے لیے DSNGسے پہلے اور سیٹلائٹ لِنک سے بہت پہلے سمارٹ فون والا اور فیس بک والا پہنچ جاتا ہے۔ YouTubersکی آمدنی بڑی بڑی تنخواہوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ یہ آمدنی پاکستانی روپے میں نہیں ڈالروں میں ملتی ہے۔ ان ناقابلِ تردید زمینی حقائق نے پاکستان کی دنیا بھی بدل دی ہے۔
پاکستان کے لیے یہاں سے تین راستے آگے کھلتے ہیں۔ پہلا راستہ موجودہ تباہ حال معیشت‘ سنگین بحران‘ شدید تصادم‘ بغاوت و وحشت گری کی طرف کھلتا ہے۔ ہم اس کے انٹری گیٹ پر پہنچ چکے ہیں۔ دوسرا راستہ ہمارے حالات دیکھ کر کوئی باہر سے کھولنے کی کوشش کرے گا۔ تیسرا راستہ Healing Processکا ہے۔ غازی عمران خان پر قاتلانہ حملے‘ معظم شہزاد اور ارشد شریف کے قتل‘ اعظم سواتی اور شہباز گل کے Custodial Tortureپر آزادانہ تحقیقات کے بغیر کوئی دوسری مرہم اِن زخموں سے بہنے والا لہو نہیں روک سکتی۔ ریاست کے Managersسیاسی حکمران ہیں۔ جو 20دن تک قوم کو بتاتے رہے کہ ارشد شریف کو کینیا پولیس نے غلط شناخت پر مارا۔ اگلے روز دنیا نیوز نے ارشد شریف کیس کی سب سے بڑی سٹوری بریک کی۔ ثابت ہوا:
''ظلم ایک طرف‘ ریاست جھوٹ سے بھی نہیں چل سکتی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved