تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-09-2013

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اسلام آباد سے ہم لوگ رات ساڑھے بارہ بجے روانہ ہوئے۔ کوسٹر چوبیس سیٹوں پر مشتمل تھی اور ہم کل دس لوگ۔ میں، میرے تین بچے، میرا چھوٹا برادر نسبتی کامران، اس کی اہلیہ اور بچے۔ بچوں نے کو سٹر میں داخل ہوتے ہی عام مسافروں جیسا کام شروع کردیا اور اپنی اپنی پسند کی سیٹ پر اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا کوئی نہ کوئی آئٹم سیٹ پر رکھ کر وہ سیٹ اپنے نام پر بک کرلی ۔ اس کے بعد اگلا آدھ گھنٹہ سیٹیں آپس میں تبدیل ہوتی رہیں۔ جب ہم لوگ ٹیکسلا کے قریب پہنچے تو سب ’’مسافر‘‘ سکون سے بیٹھ چکے تھے اور حسب توفیق جوس، چپس ، کولڈڈرنکس اور چاکلیٹ وغیرہ کے مزے لے رہے تھے۔ یہ معاملہ حسن ابدال کے بعدتک چلتارہا۔ سب بچوں کا ارادہ یہی تھا کہ وہ بیس اکیس گھنٹوں کا یہ سفر جاگ کر گزاریں گے مگر باہر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ہری پور پہنچنے سے پہلے بچوں کی اکثریت سوچکی تھی۔ ایبٹ آباد سے جوس اور بوتلوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا۔ ایبٹ آباد شہر کے آخری سرے پر واقع ایک پٹرول پمپ سے واش روم جانے کا سلسلہ شروع ہوا جو چلاس تک جاری رہا، اس بہانے اس روٹ پر واقع تقریباً سارے اچھی نسل کے پٹرول پمپوں اور ہوٹلوں سے آگاہی ہوگئی۔ ناشتے کا پروگرام بشام میں تھا اور ہم اپنے طے شدہ شیڈول سے تقریباً ایک گھنٹہ لیٹ وہاں پہنچے۔ یہ تاخیر ہرآدھ گھنٹے بعد کسی نہ کسی بچے کی طرف سے واش روم کے فرمائشی پروگرام کے باعث ہوئی تھی۔ ہم نے اپنے سفر میں اس مد کو درخوراعتنانہیں جانا تھا اور یہ ہماری نااہلی تھی۔ جب ہم ناشتے کے لیے بشام رکے تو پتہ چلا کہ انڈوں کے علاوہ ہرمعقول چیز یہاں ساری رات قیام کرنے والے سینکڑوں مسافر چٹ کر گئے ہیں جو کانوائے کے باعث یہاں رات رکنے پر مجبورتھے۔ بشام سے چلاس تک کا راستہ اب قراقرم ہائے وے پرامن وامان اور سکیورٹی کے حوالے سے بڑا غیرمحفوظ سمجھا جاتا ہے اور یہاں رات کو سفر اب بالکل بند ہوچکا ہے۔ صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ ساری رات کی رکی ہوئی گاڑیاں، بسیں، ویگنیں اور مال بردار ٹرک فوجی گاڑیوں کی معیت میں اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں۔ اسی طرح دوسری طرف سے یعنی چلاس سے بشام کی جانب بھی اسی فارمولے کے تحت ٹریفک چلائی جاتی ہے۔ ہماری روانگی سے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے قبل بشام سے یہ قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔ چلاس سے آنے والا اسی قسم کا کانوائے ہمیں راستے میں ملا۔ چھت پر مشین گن اور اس کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک مستعد فوجی والی ایک جیپ تیزی سے ہمارے پاس سے گزری۔ اس کے پیچھے درجنوں گاڑیاں، بسیں، ویگنیں اور ٹرک تھے اور ان کے آخر پر بھی ایک سبز جیپ ان کی حفاظت کررہی تھی۔ اس جیپ کے پیچھے بھی کچھ گاڑیاں تیزی سے آکر اس کانوائے میں شامل ہونے کی کوشش کررہی تھیں۔ چند سال پہلے بلکہ شاید چند ماہ پہلے تک ایسا نہیں ہوتا تھا۔ حکومتی رٹ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جارہی ہے اور غیرمعروف سڑکوں ،قبائلی علاقوں اور دوصوبوں کے دور افتادہ قصبوں کی حد تک تو حکومتی رٹ تقریباً ختم ہوہی چکی ہے‘ مگر پاکستان اور چین کے درمیان اس واحد زمینی تجارتی راستے کا دوسوکلومیٹر سے زائد سفر قطعاً غیرمحفوظ ہوچکا ہے۔ انجینئرنگ اور پاک چین دوستی کی یہ لازوال نشانی بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو ہے ہی مگر اب امن وامان اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی غیرمحفوظ ہوچکی ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حکومتی رٹ مراجعت کرتے کرتے کہاں تک آگئی ہے کہ ایک بین الاقوامی تجارتی ہائی وے بھی اس کی زد میں آچکی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اسی قسم کا ایک اور روٹ کا شغرتاگوادر بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور اعلان بھی کرچکے ہیں۔ مجھے اس پر ایک لطیفہ نماواقعہ یادآرہا ہے۔ ایک دیہاتی تھیٹر میں کوئی لوک فنکار اپنے فن گائیکی کا مظاہرہ کررہا تھا اور مشہور پنجابی گانا ’’ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ گارہا تھا۔ جب اس نے گانا ختم کیا تو سامعین میں سے ایک دیہاتی نے فرمائش کی کہ یہی گانا دوبارہ سنایا جائے۔ فنکار نے سمجھا کہ شاید اس دیہاتی کو میرا یہ گانا بہت پسند آیا ہے‘ اس نے دوبارہ ’’ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ سنانا شروع کردیا۔ جب گانا ختم ہوا تو اسی دیہاتی نے دوبارہ یہی گانا گانے کی فرمائش شروع کردی۔ اس دیہاتی کے ساتھ آئے ہوئے اس کے چار چھ دوستوں نے بھی اسی گانے کے لیے شور مچانا شروع کردیا۔ چاروناچار لوک فنکار نے تیسری بار یہی گانا گایا۔ جب گانا ختم ہوا تو وہی دیہاتی پھر کھڑا ہوا اور چوتھی بار اسی گانے کی فرمائش کردی۔ فنکار نے اور کئی گانے تیار کیے ہوئے تھے مگر ابھی وہ پہلے پر ہی پھنسا کھڑا تھا۔ فنکار تقریباً رونے والا ہوگیا اور اس دیہاتی کو مخاطب کرکے کہنے لگا: بھائی جان!میں نے اور بھی گانے بڑے اچھے تیار کیے ہیں مجھے موقعہ تو دیں۔ دیہاتی اٹھا اور کہنے لگا: تیرے باقی والے گانے بھی سن لیں گے‘ پہلے تُو یہ والا گانا تو ٹھیک طرح سے گانا سیکھ لے۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ پہلے سے موجود سڑک بُری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ بے شمار جگہوں پر اس کی حالت ناگفتہ بہ سے بھی کہیں بری حالت میں ہے۔ بے شمار جگہوں پر اسے چوڑا کرنے کی اور ری ڈیزائننگ کی ضرورت ہے‘ اوپر سے امن وامان کی صورتحال۔ مگر میاں صاحب مشہور پنجابی محاورے ’’اگے دوڑتے پچھے چوڑ‘‘ (آگے دوڑاور پیچھے بیڑہ غرق) کی طرح نئے منصوبوں پر بڑا یقین رکھتے ہیں تاکہ ان منصوبوں کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال سکیں مگر پہلے سے جو خرابیاں موجود ہیں ان کی طرف ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابھی تک لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور نوے دن میں، چھ ماہ میں اور اسی طرح مختلف ٹائم فریم میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعویدار اب سالوں کی نوید سنارہے ہیں۔ سارا سرکلر ڈیٹ کلیئر کرنے کے باوجود حال یہ ہے کہ آج شہروں میں دس سے بارہ گھنٹے اور دیہاتوں میں بیس بیس گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ سوات کو بڑی مشکل سے کلیئر کیا تھا مگر اب سوات کے علاقے بشام سے ہی مخدوش سفر کا آغاز ہوتا ہے اور یہ سلسلہ آج چلاس تک جا پہنچا ہے۔ اگر قابو نہ پایا گیا تو بڑھ کر ایک طرف مانسہرہ تک آجائے گا اور دوسری طرف گلگت بلکہ اس سے بھی آگے چلا جائے گا۔ چلاس سے کچھ آگے ’’فیری میڈوز‘‘ اور نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے جو سیاحوں اور کوہ پیمائوں کی جنت سمجھے جاتے ہیں۔ غیرملکی کوہ پیمائوں کی کوئی ٹیم آئے تو صرف ایک ٹیم کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کوہ پیمائی کی فیس، مزدوری، پورٹروں کو ادائیگی اور دیگر سہولیات کے حصول کے لیے خرچ کرتی ہے۔ شنید ہے کہ اس سال کوہ پیمائی کے سیزن میں بڑے عرصے کے بعد اس علاقے میں گیارہ ٹیمیں آئی تھیں۔ چلاس سے نانگا پربت کے لیے دیا میر فیس ہے۔ چلاس سے تھوڑا آگے رائیکوٹ کی جانب نانگا پربت کا رائیکوٹ فیس ہے۔ یہاں آنے والی کوہ پیمائی کی ایک ٹیم‘ جو چلاس کی جانب سے دیا میر فیس والی طرف سے نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے آئی تھی‘ کے دس غیرملکی کوہ پیمائوں کو شدت پسندوں نے قتل کردیا ۔ بقیہ دس ٹیموں کو افراتفری میں واپس بھیج دیا گیا۔ لاہور میں لبرٹی چوک پر سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی اور دیامیر چلاس میں کوہ پیمائوں کی ٹیم پر حملے کے بعد سمجھیں کہ یہ باب بھی بند ہوگیا۔ ہمیں ہمارے دشمن آہستہ آہستہ پوری دنیا سے کاٹ رہے ہیں اور ہم صرف کسی اگلی کارروائی کے منتظر ہیں۔ اجتماعی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ نہ کسی کو کوئی احساس ہے اور نہ احساس زیاں۔ بقول اقبال ع وائے ناکامی متاع کارواں…

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved