تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     13-11-2022

خدا حافظ‘ جنرل باجوہ

پاکستان کی بے قرار سیاست کو اس خبر نے کچھ نہ کچھ قرار تو دے ہی دیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے افسروں اور جوانوں سے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔وہ مختلف مقامات پر جا کر پھول اور دعائیں وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایکسٹینشن لی نہیں یا دی نہیں گئی‘ یہ بحث بے کار ہے۔آئی ایس پی آر نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کی مصروفیات اب وہ ہیں جو ریٹائرمنٹ سے پہلے ہر سپہ سالار کی ہوتی ہیں۔ چند روز میں وہ اپنے جانشین کو وہ چھڑی سونپ دیں گے‘ جو ان کے ہاتھ کی زینت بنی رہی ہے۔ ع عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔
جناب جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف تھے‘ نہ آخری‘ وہ ایک زنجیر کی کڑی تھے‘ اُنہیں بالآخر رخصت ہونا تھا‘ سو وہ اجازت طلب کر ر ہے ہیں۔اُنہیں غیر معمولی حالات سے پالا پڑا‘ان میں ان کا کردار(یا حصہ) کیا تھا‘اس پر مباحثے اور مناظرے جاری رہیں گے۔ ان کے ساتھ کئی بار تبادلۂ خیال کا موقع ملا‘وہ اپنا نقطہ نظر بے تکلفی سے بیان کر سکتے تھے‘ اور کرتے بھی رہے ان کی نظر بین الاقوامی سیاست پربھی تھی۔ انہوں نے پاکستان کے دوستوں کو اپنے دل میں اس طرح اور اتنی جگہ دی کہ مشکل وقت میں ان سے مطلوبہ تعاون حاصل کر کے دکھایا۔اس حوالے سے ان کی کاوشیں بھلائی نہیں جا سکیں گی۔ اخبار نویسوں سے ان کی کئی نشستیں اپنی طوالت کے حوالے سے یاد رکھی جائیں گی۔قومی سیاست کے پیچ و خم سے بخوبی آگاہ تھے اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دل کو زبان پر لے آتے تھے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں افراد سے ان کا تبادلۂ خیال جاری رہا‘ اس سے پہلے اس طرح کی اور اتنی ملاقاتیں شاید ہی کسی آرمی چیف کے حصے میں آئی ہوں۔ان کا تقرر وزیراعظم نواز شریف نے کیا‘ جنہیں بعدازاں یک عدالتی فیصلے کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کر دیا گیا۔2018ء کے انتخابات جس ماحول میں ہوئے‘وہ بھی سب کے سامنے ہے۔عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کے تعلقات مثالی تھے‘ان کی پہلی مدت ختم ہوئی‘ تو وہ تین سال کی توسیع کے مستحق ٹھہرے۔وزیراعظم عمران خان سے ان کے حریفانِ سیاست نے بھی اس حوالے سے کوئی اختلاف نہ کیا‘اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ سیاست کے تمام بڑے کھلاڑیوں کے اتفاق رائے سے دوبارہ اس منصب پر فائز ہوئے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کو ایک ایسا قانون بنانے پر مجبور کر دیا‘جس میں توسیع کو باقاعدہ شکل دے دی گئی‘ اکثر مبصرین کے نزدیک یہ ایک بھونڈی قانون سازی تھی جس نے توسیع کا راستہ اس طرح کھولا کہ مستقبل میں(اگر یہ قانون نافذ رہا تو) اسے بند کرنا ممکن نہیں ہو گا‘ گویا ہر آرمی چیف کی معیاد عہدہ چھ سال ہو جائے گی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آدھی رات کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے تین سال کی توسیع دینے کا اعلان کیا تھا۔اس بدعت کا آغاز جنرل ایوب خان ہی کے وقت سے ہو چکا تھا‘انہیں اگر توسیع نہ دی جاتی تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ایک ٹرم وہ بخیر و خوبی گزار چکے تھے‘ دوسری ٹرم نصیب ہوئی تو انہوں نے آئین کو سبوتاژ کرتے ہوئے اقتدار سنبھال لیا‘اور یوں پاکستان کی تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف وزیراعظم کے طور پر کسی آرمی چیف کو توسیع نہ دینے پر بضد رہے۔ان کی پختہ رائے تھی کہ توسیع کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے۔فوج کے ادارے پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوتے۔انہوں نے اپنے آخری عرصۂ اقتدار میں جنرل راحیل شریف کا تقرر کیا‘ لیکن انہیں توسیع دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایک ٹرم تو کیا ایک سال کی تجویز بھی انہوں نے رد کر دی۔بتایا جاتا ہے کہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ توسیع دے دیں تو ان کے خلاف پاناما کیس بند کر دیا جائے گا (یا وہ اپنی موت آپ مر جائے گا) لیکن نواز شریف اس پر تیار نہ ہوئے۔ان کی نگاہِ انتخاب جنرل قمر جاوید باجوہ پر جا ٹھہری‘ اس کی تفصیل برادران عرفان صدیقی اور فواد حسن فواد زیاد بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی طرح وہ بھی سینئر ترین جرنیل نہیں تھے‘ انہوں نے اپنے سینئرز کے سر سے گزر کر یہ منصب سنبھالا۔جلد ہی ان کے تعلقات میں کھچائو آ گیا‘ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جو الائو دہکایا جا چکا تھا‘ وہ سرد نہ کیا جا سکا۔جنرل باجوہ سے تمام تر شکووں کے باوجود جب ان کی پہلی مدتِ ملازمت ختم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) نے توسیع کے حق میں ووٹ دے دیا۔ نواز شریف لندن میں تھے‘ان کی جماعت کے سینئر رہنمائوں نے انہیں قائل کر لیا‘ یا یہ کہیے کہ وہ آنکھ بند کر لینے پر آمادہ ہو گئے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان بھی فاصلہ پیدا ہو کر رہا‘دونوں ایک دوسرے کی توقعات پر پورے نہ اترے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور وہ آگ بگولہ ہو گئے۔انہوں نے فوری انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا‘ جو اب تک جاری ہے۔ وہ فوجی قیادت پر برسنے سے اب بھی نہیں چوکتے۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح جلد انتخابات کا حصول ممکن ہو جائے گا‘لیکن فوجی قیادت سیاست سے الگ رہنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔وہ ایک اعلیٰ فوجی افسرکو بھی اپنا ملزم قرار دے رہے ہیں‘ اور یوں تنائو میں اضافہ ہو گیا ہے۔باجوہ صاحب کی عمر ابھی64 سال کی نہیں ہوئی‘اس عمر تک کے لیے انہیں توسیع دی جا سکتی تھی‘ عمران خان اس کے لیے گرین سگنل بھی دے چکے تھے‘ تاکہ نئے آرمی چیف کا تقرر انتخابات کے بعد نئی حکومت کرے لیکن موجودہ حکومت اس پر آمادہ نہیں ہوئی۔باجوہ صاحب چلے جائیں گے لیکن ان کے دور پر بحث جاری رہے گی۔ مناسب ہو کہ وہ خود ہی کتاب لکھ ڈالیں تاکہ اہلِ سیاست کی چہ میگوئیوں کے درمیان قوم پھنس کر نہ رہ جائے۔ ان کا بیانیہ بھی بیان ہو جانا چاہیے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا جانشین کون ہو گا؟ یہ اعلان بھی چند روز میں ہو جائے گا‘عمران خان اب اس حوالے سے بے قرار نظر نہیں آ رہے۔کاش کہ اس معاملے میں سینارٹی کا اصول اپنا لیا جائے‘ جس طرح ہمارا ہمسایہ بھارت اس نتیجے پر پہنچا ہے‘اسی طرح ہم بھی آرمی چیف کے حوالے سے سینارٹی کے اصول پر کاربند ہو جائیں۔اس سے ریاستی امور میں ٹھہرائو پیدا ہو گا۔اس فیصلے کو اُسی طرح قانونی شکل دے دینی چاہیے جس طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے معاملے میں دی گئی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی اگر ایسا کر گزریں تو پاکستانی ریاست ان کی شکر گزار رہے گی۔
بھائی جان ایس ایم منیر
پاکستان کے ممتاز صنعتکا ر جناب ایس ایم منیر اب کراچی سے لاہور منتقل ہو چکے ہیں۔ان کا کاروبار پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے‘ ہر شہر ان کا گھر ہے لیکن گزشتہ کئی عشروں سے کراچی میں مقیم تھے‘اب یہ اعزاز لاہور کو حاصل ہو گیا ہے۔ایس ایم منیر وفاقی چیمبرز آف کامرس کے بھی انتہائی ممتاز رہنما ہیں۔ انہیں کئی قومی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ان کے اعزاز میں عشایے کا اہتمام کیا‘ تو لاہور کے سرکردہ بزنس مین انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے دوڑے چلے آئے۔ ایس ایم منیر کا تعلق چنیوٹ سے ہے‘انہوں نے رفاعی اداروں کے قیام اور انتظام میں بھی خصوصی دلچسپی دکھائی ہے‘ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں کے لیے بے دریغ فنڈز فراہم کیے ہیں لاہور ان کے آنے سے مہک اٹھا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved