تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     13-11-2022

کمان کا آخری تیر

آرمی چیف کی الوداعی ملاقاتوں کے بعد مدتِ ملازمت میں توسیع کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ مدتِ ملازمت پوری کرنے سے پہلے ہر آرمی چیف کی الوداعی ملاقاتیں معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہیں جس کی خبریں بالعموم میڈیا پر نشر نہیں کی جاتی ہیں؛ تاہم اس بار قدرے اہتمام کے ساتھ آرمی چیف کے الوداعی دوروں کو خبروں کے ذریعے نمایاں کیا جا رہا ہے تاکہ توسیع نہ لینے سے متعلق کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مگر اس اہم تقرری کو متنازع بنانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔ لانگ مارچ کے پس پردہ بھی یہی مقاصد کارفرما تھے کیونکہ خان صاحب بخوبی سمجھتے تھے کہ آئینی اعتبار سے وہ آرمی چیف کی تقرری کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے‘ سو انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ لانگ مارچ سے ان کا مقصود عام انتخابات کا اعلان ہے‘ حالانکہ یہ مانا جاتا ہے کہ عمران خان خود بھی جلد الیکشن نہیں چاہتے۔اب جبکہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے تو خان صاحب نے مؤقف تبدیل کر لیا ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کر سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب نے آرمی چیف کی تقرری کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے‘ ان کے بیانات اس پر شاہد ہیں‘ جس طرح خان صاحب تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دیتے رہے ہیں اسی طرح آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف اور وزیردفاع خواجہ آصف کا آرمی چیف کی تقرری کیلئے نواز شریف سے مشاورت کیلئے لندن جانے پر عمران خان نے تنقید کی ہے‘ کچھ حلقوں کی جانب سے خان صاحب کی تنقید کو درست قرار دیا جا رہا ہے؛ تاہم وزیراعظم شہباز شریف کا لندن میں پارٹی سربراہ میاں نواز شریف سے مشاورت کیلئے جانا ان کا حق ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں میں اہم مواقع پر مشاورت کا خیال رکھا جاتا ہے؛ تاہم خان صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے‘ وہ دوسری جماعتوں کو مشاورت کا یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی میاں نواز شریف کے ساتھ لندن میں ہونے والی ملاقات نے خان صاحب کی توقعات کو مایوس کیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اس اہم ملاقات میں سینئر ترین جنرل کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے؛ البتہ اہم تعیناتی کے ناموں کو وقت سے پہلے ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد خان صاحب کی مقبولیت کا تاثر قائم ہوا تھا مگر اس کے فوری بعد لانگ مارچ کے پہلے مرحلے کی ناکامی‘ لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں عوام کی عدم دلچسپی‘ توقع سے کم لوگوں کا باہر نکلنا اور تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے سڑکوں کو کئی روز تک بند رکھنے کی وجہ سے مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ جڑواں شہروں کو ملانے والی اہم شاہراہوں کو پنجاب پولیس کی سرپرستی میں بند کر دیا گیا۔ پچیس تیس افراد نے روڈ کے درمیان ٹینٹ لگا کر روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا‘ تحریک انصاف کارکنان اپنے طور پر اس اقدام سے خوش تھے کہ انہوں نے ٹریفک کو بلاک کر دیا مگر عوام میں اس کا منفی تاثر قائم ہوا کیونکہ آتے جاتے عوام بغور دیکھ رہے تھے کہ خان صاحب نے 25لاکھ لوگوں کو لانے کا دعویٰ کیا تھا مگر یہاں تو بمشکل چند ہزار افراد موجود ہیں۔ احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے میں تحریک انصاف سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے اور راستوں کی بندش کو ختم کرنا صوبائی حکومت ذمہ داری ہے‘ سو جب لوگ راستوں کو بند پاتے اور پولیس کو احتجاجیوں کا محافظ بنا دیکھتے تو وہ کہنے پر مجور ہوتے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت شہریوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ پشاور سے اسلام آباد آنے والے موٹروے کو کئی جگہوں سے کھود کر گڑھے بنا دیے گئے‘ جس سے حکومت کے بجائے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف احتجاج کو ختم کرنے پر مجبور ہوئی اور کہا گیا کہ عوام کی مشکلات کی وجہ سے احتجاج ختم کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے غیظ و غضب سے بچنے کیلئے احتجاج ختم کیا گیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی شخصیت میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ نچلی سطح کے رہنماؤں حتیٰ کہ کارکنان تک سرایت کر گیا ہے۔ چند روز قبل خان صاحب نے پاک فوج کے دو اعلیٰ افسران کا نام لے کر ان پر تنقید کی اور طرح طرح کے الزامات لگائے۔ ترجمان پاک فوج نے عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کے الزامات بے بنیاد‘ غیر ذمہ درانہ اور ناقابلِ قبول ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت سے خان صاحب کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے قانونی کارروائی پر زور دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی البتہ تحریک انصاف کے رہنما میجر (ر) خرم روکھڑی نے ایک انٹرویو میں سارے حقائق پیش کر دیے ہیں‘ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حسبِ معمول میجر (ر) خرم روکھڑی سے لاتعلقی کا اظہار کیابلکہ شہباز گل اور فیاض الحسن چوہان نے تو اس پر تعجب کا اظہار بھی کیا۔ شہباز گل نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ یہ صاحب کون ہیں‘ ان کے بارے نہ کبھی پہلے سنا نہ دیکھا۔ فیاض الحسن چوہان نے لکھا کہ تحریک انصاف میں 15 برس ہو گئے یہ مافوق الفطرت آئٹم میں نے نہیں دیکھی۔ تحریک انصاف رہنماؤں کی جانب سے خرم روکھڑی سے لاتعلقی کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کی تصاویر اور وڈیوز سامنے آ گئیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک دو برس پہلے میانوالی میں عمران خان اور خرم روکھڑی کی تصاویر شہباز گل نے خود ہی شیئر کی تھیں۔ اس پس منظر کے بعد سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب نے جس فوجی افسر کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں خرم روکھڑی کے بقول وہ ان سے تحریک انصاف کے رہنما کی مرضی سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ خرم روکھڑی کے انکشافات کے بعد ایک بار پھر تحریک انصاف قیادت کے قول و فعل کا تضاد سامنے آیا ہے۔
آرمی چیف کی تقرری کے ضمن میں خان صاحب نے سیاسی مافیا کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ آئینی طریقہ اپنانے کے بجائے انہوں نے لانگ مارچ اور دباؤ والا راستہ اپنایا۔خان صاحب اپنے جلسوں میں جو الزامات لگاتے رہے انٹرنیشنل میڈیا کو دیے جانے والے انٹرویوز میں شواہد سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات کے جواب میں تذبذب کا شکار‘ لاجواب اور بے بس دکھائی دیے‘ ان کی خواہش ہے کہ جیسا وہ سوچیں ویسا ہو جانا چاہئے یہ سوچ سیاسی مافیا کہلاتی ہے۔یہ راستہ اپوزیشن جماعتیں اپنائیں یا حکومت‘ اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ آرمی چیف کی تقرری ہو جانے اور لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد غالب امکان ہے کہ خان صاحب سیاسی اعتبار سے تنزلی کا شکار ہوں گے۔لانگ مارچ کا آغاز کر کے وہ اپنا آخری تیر بھی کمان سے نکال چکے ہیں جس سے واضح ہو گیا ہے کہ خان صاحب کی آواز پر لوگ باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کیوں خان صاحب کے دباؤ میں آئے گی۔ منظر نامہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے مگر خان صاحب شاید نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved