پاکستان اور چین کے درمیان گہری دوستی اور مختلف شعبوں خصوصاً دفاع میں وسیع تعاون پر مبنی تعلقات چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہیں۔ اس عرصے کے دوران عالمی سیاسی منظر کئی بار بدلا‘ علاقائی سیاست میں تبدیلیاں آئیں اور دونوں ملکوں میں کئی حکومتیں برسر اقتدار آئیں مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں رخنہ نہیں پڑا بلکہ وقت کے ساتھ یہ مزید گہرے اور وسیع ہوئے ہیں۔ 1960ء کی دہائی کے وسط میں جب پاک چین دوستی کا آغاز ہوا تو اس کی بنیاد ایک سرحدی معاہدے اور ایک دوسرے کے درمیان فضائی سروس شروع کرنے کے فیصلے پر رکھی گئی تھی۔ فضائی معاہدے کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو بیجنگ اور اس کے بعد شنگھائی ہوائی اڈوں پر اترنے کی اجازت دی گئی۔ پی آئی اے پہلی بیرونی ایئرلائن تھی جسے چین نے یہ سہولت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ فضائی رابطے کے ذریعے چین کو خلیج فارس‘ مشرق وسطیٰ بلکہ اس سے آگے افریقہ تک پہلی دفعہ رسائی کا موقع ملا۔
اس زمانے میں چین اور امریکہ کے درمیان ویت نام کی جنگ کی وجہ سے سخت اختلاف تھے اور امریکہ نے چین کو سفارتی‘ تجارتی اور دیگر رابطوں کے انقطاع کے ذریعے دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ بھارت کے ساتھ 1962ء کی سرحدی جنگ کی وجہ سے چین کے تعلقات کشیدہ تھے اور تو اور مشترکہ نظریاتی اساس (کمیونزم) کے باوجود سوویت یونین کے ساتھ تعلقات نہ صرف خراب بلکہ معاندانہ تھے۔ پاکستان اس وقت امریکہ کا اتحادی اور اس (امریکہ) کی سرکردگی میں قائم ہونے والے دو دفاعی معاہدوں یعنی سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ ان میں سے اول الذکر تو خاص طور پر چین کے خلاف فوجی کارروائی کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان نے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھ کر جس جرأت اور اصول پرستی کا ثبوت دیا تھا‘ چینی اسے آج تک یاد کرتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ اس کے بعد عالمی سطح پر بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ مشرقی یورپ کے ممالک نے کمیونزم کو خیرباد کہہ دیا‘ معاہدہ وارسا تحلیل ہو گیا۔ سرد جنگ ختم ہو گئی اور امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے ابھرا‘ مگر پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات میں فرق نہیں آیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے جن اصولوں کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات اور تعاون کا آغاز کیا تھا ان پر دونوں نے بڑے خلوص اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل کیا ہے، مثلاً پاک چین تعلقات کے بنیادی اصولوں میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ باہمی مفاد پر مبنی ہوں گے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کے نوآبادیاتی اور سامراجی دور کے برعکس اس میں استحصال کا عنصر نہیں ہو گا۔ دوسرے اصول باہمی احترام‘ ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور مساوات ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران دونوں ملکوں نے ان اصولوں پر سختی اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل کیا ہے یہی وجہ ہے کہ چین اس وقت دفاعی شعبے میں ہی نہیں معاشی‘ سائنسی اور سفارتی شعبے میں بھی پاکستان کا اہم پارٹنر ہے۔
اس ہمہ گیر‘ پائیدار اور ہر امتحان پر پورا اترنے والی ہمہ جہت پاک چین دوستی کا ایک بے مثال پہلو دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کثرت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر روابط ہیں۔ چین کا کوئی ایسا صدر یا وزیر اعظم نہیں ہو گا جس نے پاکستان کا دورہ نہ کیا ہو۔ یہی بات پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے بارے میں پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔پاکستان میں جب بھی حکومت تبدیلی ہوتی ہے تو نئے وزیراعظم یا صدر کے لیے تین ممالک ایسے ہیں جن کا پہلی فرصت میں دورہ ملک کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے۔ پہلے ان میں سے ایک امریکہ ہوتا تھا مگر افغانستان کی جنگ ختم ہونے اور امریکہ کی عالمی حکمت عملی میں سے پاکستان کے نکل جانے کے بعد اس میں فرق آ چکا ہے۔ دوسرا ملک سعودی عرب ہے جس نے مشکل مواقع پر پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے اور تیسرا ملک چین ہے جس کے ساتھ پاکستان کی اہم سٹرٹیجک پارٹنرشپ ہے۔ ان تینوں میں سعودی عرب اور چین پاکستانی قیادت کیلئے اہم منزل ہوتے ہیں۔آصف زرداری نے اپنے پانچ سالہ دورِ صدارت کے دوران نو مرتبہ چین کا دورہ کیا تھا۔ اسی طرح چین کی سیاحتی اور عسکری قیادت کے اعلیٰ عہدیداران‘ جن میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے سربراہ اور وزیر دفاع‘ وزیر خارجہ‘ وزیر اعظم اور صدر اپنے اپنے عہدے کی مدت کے دوران پاکستان کا متعدد بار دورہ کر چکے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد صرف متعلقہ شعبوں میں دو طرفہ تعلقات اور تعاون کو آگے بڑھانا ہی نہیں بلکہ ان سے پاکستان اور چین کی قیادت کو اعلیٰ ترین سطح پر تواتر کے ساتھ مل کر عالمی اور علاقائی مسائل کے بارے میں ایک دوسرے کے نقطہ نگاہ سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے اور اس طرح ایک متفقہ مؤقف اختیار کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے جو پاک چین دوستی کا طرۂ امتیاز ہے۔
بعض مواقع پر کسی چینی رہنما کا پاکستان اور پاکستانی رہنما کا چین کا دورہ نمایاں حیثیت اختیار کر جاتا ہے‘ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعلق کی عکاسی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ دورۂ چین اسی زمرے میں شمار ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف نے ایسے موقع پر چین کا دو روزہ دورہ کیا جب دونوں ملکوں کے لیے دنیا کو یہ دکھانا ضروری تھا کہ تیزی سے بدلتے عالمی اور علاقائی حالات پاکستان اور چین کی لازوال دوستی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان میں حال ہی میں اہم اندرونی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں ایک نئی حکومت وجود میں آئی اور چین میں صدر شی جن پنگ کو تیسری دفعہ صدر اور حکمران کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ صدر شی جن پنگ کے تیسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنہوں نے بیجنگ میں چین کی سیاسی قیادت سے ملاقات کی۔ اس کا مقصد دنیا کو ایک خاص پیغام پہنچانا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی دباؤ اور اندرونی چیلنجز کے باوجود پاک چین دوستی چٹان کی طرح مضبوطی سے کھڑی ہے‘ بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی راہداری سی پیک پر عمل درآمد میں گزشتہ برسوں میں جو مسائل پیدا ہو گئے تھے‘ انہیں دور کرنے کے عزم اور تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے کے مزید فروغ دینے کے فیصلے سے عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تعلقات مزید گہرے اور مضبوط ہوں گے اور دونوں عالمی اور علاقائی سیاست میں ایک دوسرے کے قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت سے ایسا کردار ادا کریں گے جس سے خطے میں استحکام اور ترقی پروان چڑھے گی۔
مئی 2013ء میں چین کے وزیراعظم لی کی کوانگ نے بھی اپنے عہدے کی پہلی مدت کیلئے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔چینی وزیر اعظم کا 2013ء میں دورۂ پاکستان اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ بھارت میں ایک سال بعد (2014ء) کے قومی انتخابات میں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے نامزد بی جے پی کے امیدوار اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پاکستان اور چین کو ''سبق‘‘ سکھانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ وزیراعظم لی کا یہ دورہ ان دھمکیوں کا جواب تھا۔ وزیر اعظم لی کے اس دورے کا ایک مقصد 2014ء میں صدر شی کے دورۂ پاکستان کی راہ ہموار کرنا تھا‘ جس کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تعمیر پر دستخط ہونا تھے مگر پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کے باعث 2014ء میں صدر شی پاکستان کا دورہ نہ کر سکے‘یہ دورہ 2015ء میں ہوا جس کے دوران دونوں ملکوں میں سی پیک کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved