ویسے تو انسانی عقل ہے ہی ناقص مگر آج کل جس شدت سے اس کے ناقص ہونے کا احساس ہورہا ہے‘ ایسی شدت پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ آپ مختلف مسائل کو جو ہمارے ملک کو درپیش ہیں‘ سمجھنے کی کوشش کریں‘ بالآخر آپ کو احساس ہوگا کہ عقل انہیں سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس مخمصے میں آپ ہی نہیں ہرکوئی مبتلا نظرآئے گا۔ اپنے ہاں طالبان کا معاملہ ہو، کراچی کی صورتحال ہو، القاعدہ کا ذکر ہو، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے واقعات ہوں‘ سوات کا مسئلہ ہو، جنوبی و شمالی وزیرستان ہوں، حکمرانوں کی ناکامی سمیت جس مسئلے پر غور کریں‘ اس کے بے شمار پہلو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے گی۔ اگر غلطی سے آپ اپنی الجھن کا کسی سے ذکر کر بیٹھے تو وہ محدود عقل اور سوچ رکھنے کے باوجود ماہر تجزیہ کاربن کر آپ کو نہ صرف بور کرے گا بلکہ اور زیادہ الجھا دے گا۔ ملکی مسائل سے ہٹ کر بین الاقوامی سطح پر جو صورت حال ہے وہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ مثال کے طورپر آج کل شام میں جوکچھ ہورہا ہے اس کو اگر آپ سمجھنے کی کوشش کریں تو کچھ سمجھ نہیں آئے گی۔ آخرکار تنگ آکر دل کو یہ کہہ کر سمجھانا پڑتا ہے۔ ع مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا یعنی بات کائنات کے مالک پر ڈال دی جاتی ہے۔ اب دیکھیں امریکہ سمیت کئی مغربی ملک شام کے خلاف کارروائی کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ کئی عرب ملک بھی یہی چاہتے ہیں۔ روس اور چین ایسا نہیں چاہتے‘ جبکہ ایران، شام کی حمایت کررہا ہے اور لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے لوگ باقاعدہ شام کی فوج کے ہمراہ باغیوں سے لڑرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان باغیوں کے ہمراہ القاعدہ بھی لڑرہی ہے۔ امریکہ جوالقاعدہ کا سب سے بڑا دشمن ہے، شام میں باغیوں کے ساتھ ہے۔ گویا یہاں القاعدہ سے دشمنی آڑے نہیں آرہی ہے۔ ہمارے ہاں بعض کٹر مذہبی لوگ طالبان اور القاعدہ کے حامی سمجھتے جاتے ہیں وہ اگرچہ امریکہ کو قابل نفرت سمجھتے ہیں مگر شام کی صورتحال میں وہ دل سے چاہتے ہیں کہ امریکہ ، بشارالاسد کی فوجوں پر گولہ باری کرکے باغیوں اور القاعدہ کی پوزیشن کو ناقابل شکست بنادے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایران، شام کی اس وجہ سے حمایت کرتا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت ان کی ہم مسلک ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔ شام کی بعث پارٹی کے لوگ علوی کہلاتے ہیں اور ان کے عقائد اثنا عشری عقائد سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ویسے بھی شام عرب ملک ہے جبکہ ایران کو عجم کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ پھر وہ لوگ ہیں جو باور کرتے ہیں کہ سب کچھ اسرائیل کروارہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ میں یہودی لابی شام پر امریکی کارروائی کے لیے زور دے رہی ہے تاکہ بشارالاسد کی حکومت ختم کرکے اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔ اب دیکھیں بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔ شام ایک عرب ملک ہے اور خانہ جنگی سے تباہ ہورہا ہے مگر دیگر عرب ملک امریکہ کی مدد سے اس تباہی کی جلد تکمیل کے خواہاں ہیں۔ مغرب کے جمہوریت پسند کہتے ہیں کہ شام میں بشارالاسد نے اقلیت کی مدد سے اکثریت کو دبایا ہوا ہے۔ اس فرمان کے بعد جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں واضح اکثریت سے مصر میں قائم محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں مغرب کے یہی جمہوریت پسند پیش پیش رہے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کیا کہیں؟شام کی صورت حال کے حوالے سے پیچیدگی ذہن میں تھی کہ وہاں زہریلی گیس کے حملے سے کئی سو بچوں سمیت ہزار سے زیادہ سے افراد ہلاک ہوگئے۔ بین الاقوامی میڈیا نے جس انداز میں لاشوں کو دکھایا اور رائے عامہ شام کی حکومت کے خلاف کی‘ اس پر بھی عقل دنگ ہے کیونکہ جس روز یہ المناک واقعہ ہوا اس روز دمشق میں اقوام متحدہ کے مبصرین بھی موجود تھے۔ شامی حکومت کے عہدیدارکہتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بشارالاسد کی حکومت ایسا اقدام کر گزرے جو ہرلحاظ سے بیوقوفی پر مبنی ہو۔ یعنی مبصرین کے ہوتے ہوئے تو ان کے بقول اگر کسی ملک نے ایسی کارروائی کرنا بھی ہوتو وہ کم ازکم ان مبصرین کی ملک سے روانگی تک تو رکا رہے گا۔ اس کے بعد لامحالہ آپ سوچنے لگیں گے کہ پھر زہریلی گیس کا حملہ کن لوگوں نے کیا۔ اس پر آپ کو یاد دلایا جائے گا کہ صدام حسین نے جب ایرانی افواج پر زہریلی گیس چھوڑی تھی تو شروع میں ایران ہی کو اس حملے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا اور اس زمانے میں صدام حسین امریکہ کا اتحادی تھا۔ یہ سن کر آپ کی سوچ پھر کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔ کچھ دیر آپ تذبذب کا شکار رہیں گے اور پھر تمام صورتحال پر لعنت بھیج کر کوشش کریں گے‘ اب اس سوال پر غور سے گریز کریں کہ آخر شام میں ہوکیا رہا ہے۔دنیا میں ہرمسئلے اور تنازعے کے اتنے پہلو ہیں کہ آپ جس پر بھی غور کریں آپ کا وہی حال ہوگا جس کی کچھ تفصیل میں نے شام کی مثال دے کر بیان کی ہے۔ لہٰذا یہ مت سوچیں کہ محض ہمارے ملک ہی کو پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ہرطرف یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ ؎ اتنی ارزاں تو نہ تھی درد کی دولت پہلے جس طرف جائیے زخموں کے لگے ہیں بازار
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved