کیسی کیسی حقیقتیں آشکار اور سبھی چہرے بے نقاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جب جزا اور سزا کا تصور بے معنی ہوکر رہ جائے‘ صادق و امین کے معانی ہی الٹ کر رکھ دیے جائیں‘ مکافاتِ عمل صرف داستانوں اور کتابوں میں دفن ہوکر رہ جائے‘ شوقِ حکمرانی کے مارے اپنی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر اس حد تک چلے جائیں کہ قوم کو گمراہ کرنے سے لے کر معاشی استحکام اور اخلاقی قدریں پارہ پارہ کرکے بھی نازاں اور شاداں دکھائی دیں تو ایسے معاشرے کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔ امریکی سازش کا بیانیہ پانی کا بلبلہ ثابت ہونے کے بعد عمران خان اپنے مؤقف سے دستبردار ہوکر زمینی حقائق کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور عوام کو جھانسا دینے کے لیے بھلے جتنے بھی ڈھکوسلے اور شعبدے بازیاں کر لیں‘ ان سبھی سیاسی رہنمائوں نے لوٹ کر اپنے اصل کی طرف ہی جانا ہوتا ہے۔ امریکہ مخالف شعلہ بیانیاں‘ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے اور عوام کا لہو گرمانے کی حد تک تو کارگر ہوتی ہیں لیکن جوں جوں مقتدرہ مخالف بیانیہ زور پکڑتا جاتا ہے توں توں اقتدار کا رستہ کھوٹا اور منزل دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ سیاسی اشرافیہ عالمی حقیقتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود عوام کو بیوقوف بنانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ تاہم عمران خان سے پہلے بھی سبھی حکمران زمینی حقائق سے بتدریج ہی واقف ہوئے ہیں۔ عمران خان چونکہ پہلی مرتبہ اس صورتحال سے نبردآزما ہورہے ہیں اس لیے انہیں حالات کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک بروقت نہ ہو سکا جبکہ ان کے سبھی مدِمقابل اس بھٹی سے کئی بار پکنے کے بعد ناقابلِ تردید حقیقتوں کو تسلیم کر چکے ہیں۔ عمران خان کے اصولی بیانیے اور امریکی سازش کا بنایا ہوا پہاڑ اب رائی کا دانہ بن چکا ہے۔ یہ سبھی کھیل تماشا دیکھ کر ایک بات ثابت ہو چکی ہے کہ نہ کسی کے کوئی نظریات ہیں نہ اخلاقیات۔ نہ عوام کا کوئی درد ہے نہ مسائل سے سروکار۔ معاشی اصلاحات اور انقلابی اقدامات کے نام پر الفاظ کا گورکھ دھندہ بھی بس دھندہ ہی ثابت ہوا ہے۔ ایسے میں کون سی گورننس اور کہاں کا میرٹ۔ سارا سرکس ہی بس حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے کرتب پر ہی کھڑا ہوا ہے۔
مملکتِ خداداد کی سیاسی اشرافیہ ہمیشہ عوام کے جذبات سے کھیلتی چلی آئی ہے۔ کب کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حلیف کل کے حریف بن جائیں‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ اصل ہدف انتخابی جیت اور اقتدار ہے۔ بھلے کوئی پارٹی ہو یا کوئی بھی قائد۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کوئی مائی کا لعل ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے شہادت دی جا سکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کیاہو۔ عوام کے چولہے گرم اور روٹی پوری کرنے کا کوئی سامان کیا ہو۔ اکثریت ایسی ہے کہ پاؤں ڈھکتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے‘ چادر سے سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے نظر آتے ہیں جبکہ ایسی مخلوق بھی ان حکمرانوں کی ہی رعایا ہے کہ جو چادر سے بے نیاز اور چھت سے محروم‘ کھلے آسمان تلے اس طرزِ حکمرانی کی راہ تک رہی ہے کہ جو اُن کی حالتِ زار بدل سکے۔ دورِ حکومت شریف برادران کا ہو یا چوہدری برادران کا‘ بینظیر کا ہو یا پرویز مشرف کا‘ آصف علی زرداری کا ہو یا عمران خان کا‘ درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیزسے لے کر لمحۂ موجودتک‘ کون کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے‘ کیسے آیا ہے اور کس مقصد سے آیا ہے‘ یہ حقیقتیں اب ظاہر ہو چکی ہیں تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ عوام دربدر اور زندہ درگور نظر آتے ہیں۔ اس منظر کا پس منظر کون نہیں جانتا۔ کسے نہیں معلوم کہ ہر دور میں ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ پرکالک بن کر کیوں نظر آتی ہے؟ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا کیوں مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ احتسابی عمل سے خائف کیا حریف‘ کیا حلیف‘ سبھی باہمی مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر احتساب کا دھڑن تختہ کر چکے ہیں۔ یہ سبھی اپنے اپنے ایجنڈوں میں کامیاب اور دودھ کے دھلے بن کر ایک بار پھر کھلا دھوکا دینے کے لیے جگہ جگہ سٹیج لگائے ہوئے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ جزا اور سزا سمیت مکافاتِ عمل کے تصور سے عوام کا یقین ہی اٹھتا چلا جارہا ہے۔
جہاں حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو‘ ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہو‘ کہیں حالات کا ماتم ہو تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوں‘ جہاں ذاتی رفقا اور مصاحبین پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے جاتے ہوں‘ مشیروں کی وجۂ تقرری بتانے سے حکومت قاصر ہو‘ عدالت ان کی گورننس پر آئے روز سوال اٹھا دیتی ہو‘ طرزِ حکمرانی سرکس کا سماں پیش کرتی ہو اور اعلیٰ عدالتوں کو یہ باور کروانا پڑے کہ حکمرانوں کا معاون وہی ہو سکتا ہے جو متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھتا ہو۔ نامعلوم مہارت اور صفر کارکردگی کے ساتھ قومی خزانہ اقربا پروری اور بندہ پروری کا ناقابلِ برداشت بوجھ کب تک اٹھا سکتا ہے؟
سبھی برسراقتدار ہونے کے باجود ایک دوسرے کی اپوزیشن بن کر کیسی نوٹنکی لگائے ہوئے ہیں۔ حکمران تو سارے دودھ کے دھلے بیٹھے ہیں تو روزِ اول سے لمحۂ موجود تک ان کے مسائل اور حالات جوں کے توں کیوں ہیں؟ ان سبھی کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں تو ملکی خزانے پر ہاتھ کون صاف کرگیا؟ حکومتِ وقت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کبھی لانگ مارچ کیے گئے‘ کبھی تحریک نجات چلائی گئی تو کبھی دھرنوں میں ایسی دھمال ڈالی گئی کہ کچھ نہ پوچھئے۔ یوں لگتا تھا کوئی نجات دہندہ اتر آیا ہے اور قدرت نے عوام کی مشکل کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اب جلد ہی عوام کے دن پھر جائیں گے۔ تبدیلی کا سونامی تو زور و شور سے آیا لیکن نہ تو عوام کے دن پھرے اور نہ ہی ان کی قسمت بدلی۔ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی سماجی انصاف اور گڈ گورننس۔ میرٹ کا جو حشر نشر ہوا اس کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ مردم شناسی ایسا ہنر اور ایسی صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے‘ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ وطنِ عزیز کو کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کا ہنر جانتا ہو۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حکمران مردم شناس نہیں تو عوام بھی کسی سے کم نہیں۔ کاش! عوام ہی مردم شناس ہوتے تو یہ حالاتِ بد ہرگز نہ ہوتے اور نہ ہی یہ سبھی بار بار حکمران بن کر باریاں لگا سکتے۔ ان سبھی نے ملکی وسائل کو اس بے دردی سے لوٹا ہے کہ ملکی معیشت کا پیندا ہی چاٹ گئے ہیں۔ بے پیندے کی معیشت کے برتن میں اقدامات اور اصلاحات کے سمندر انڈیل دیں تو بھی ایک قطرہ ٹھہرنے والا نہیں۔ اسے کھانا چھوڑ دیں تو نہ کسی اقتصادی ارسطو کی ضرورت ہے نہ ہی معاشی پنڈت کی۔ خدارا! دھرتی کو کھانا چھوڑ دیں۔ مملکت خدادادکی عمر عزیز کی نصف سے زائد مدت محض دو خاندانوں کی شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھ چکی جبکہ سیاسی بیساکھیوں کا کردار ادا کرنے والے سیاسی چہرے ہردور میں اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے اپنی وفاداریاں اور طرف داریاں بدلنے والے بھی اس عرصے میں اپنی اپنی ضرورتوں کی دلالی کرتے رہے ہیں۔حالیہ عام انتخابات میں الیکٹ ایبلز کے زور پر برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف ایک موقع گنوانے کے بعد دوسرے موقع کے لیے کہیں زیر تو کہیں زبر کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جبکہ ا ن سبھی کے طرز ِحکمرانی ایک دوسرے کے ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑنے کے سوا کچھ نہیں۔یعنی سبھی نہلے پے دہلے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved