تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-09-2013

چودھری نثار علی خان اور ارسلان چانڈیو

کہنے کو ارسلان چانڈ یو کراچی میں سکیورٹی گارڈ تھا، جو سارا دن ایک بینک کے دروازے پر حفاظت کی غرض سے کھڑا رہتا ، لیکن ٹھاٹ اس کے یہ تھے کہ اپنے والد سے ملی ہوئی چھوٹی مگر نئی کار میں ڈیوٹی پر جاتا، حفاظت کے لیے اپنے پیسوں سے لی گئی ایک قیمتی بلٹ پروف جیکٹ اس کے لباس کا حصہ ہوتی۔ گھر سے نکلتے ہوئے اس کی کلف لگی وردی ایک خوبصورت غلاف میں اس کی گاڑی میں لٹک رہی ہوتی جو اپنے ’دفتر‘ جا کر پہن لیتا۔وہ شہر کے ایک پوش علاقے کی بہترین عمارت میں اپنے والد کے دیے ہوئے اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ اس سے میرا تعارف بارہ سال پہلے ایک مشترکہ دوست کے ہاں ہوا جو خود سابق صوبائی وزیر تھا ۔جب مجھے معلوم ہوا کہ ارسلان ایک سکیورٹی گارڈ ہے تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نوجوان پانچ ہزار روپے کے لیے ہر روز دس بارہ گھنٹے کے لیے سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتا ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ اوررہن سہن کا درمیانی فرق کیسے پورا ہوتا ہے تو جو کچھ اس نے بتایا وہ اس قدر ہوشربا تھا کہ میں آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ سندھ میں یہ سحر پاکستان پیپلزپارٹی کے پہلے وزیراعلیٰ جناب ممتاز بھٹو نے پھونکا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے جب حکومت سنبھالی تو صوبائی انتظامیہ کولوگوں کے لیے زیادہ’’ دوستانہ‘‘ بنانے کے لیے اپنی جماعت کے کارکنوں میں سے ایسے لوگوں کو بطور پٹے دار (پٹواری)، مختیار کار (تحصیل دار)اور پولیس میں سپاہی سے لے کر اے ایس آئی تک بھرتی کرایا جو پارٹی کے مختلف لیڈروں کے ذاتی وفادار تھے۔بھرتی کے اس معاملے میں اہلیت ، تعلیم یا اس طرح کی کسی اور شرط کا کوئی تکلف روا نہیں رکھا گیا تھا۔ ان لوگوں کا کام صرف اتنا تھا کہ سرکار سے تنخواہ لیتے ہوئے جو چاہیں کریں بس اس کام سے انکار نہ کریں جس کا حکم انہیں نوکری پر رکھوانے والا جاری کرے۔اس زمانے میں ارسلان چانڈیو کے باپ کے حصے میں ایک تحصیل کا مختیار کار ہونا آیا اور یہیں سے اس انقلاب کا آغاز ہوا جس کے ثمرات سندھ آج تک سمیٹ رہا ہے۔ ایک غریب ہاری کے بیٹے کو بیٹھے بٹھائے گویا بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ اس نوکری میں تنخواہ تو واجبی سی ہی تھی لیکن اوپر کی آمدنی اتنی تھی کہ گھر پر گویا ہن برسنے لگا۔ اس کا اثرو رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ اسے سزا دینا تو دور کی بات کوئی اس کی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ جہاں ، جس عہدے پر گیا اپنی مرضی سے گیا۔ موصوف کی ضابطہ پسند طبیعت کا اندازہ یوںلگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار دل کے دورے کی وجہ سے دو مہینے کے لیے اسے آرام کرنا پڑا۔ اس عرصے میں اس لیے چھٹی نہیں لی کہ کہیں سرکار کسی دوسرے کو اس کے عہدے کا چارج نہ دے دے۔ اس لیے ارسلان چانڈیو جس کی عمر اس وقت صرف سولہ سال تھی ، عملی طور پر مختیارکار کی حیثیت سے اپنے باپ کے دفتر میں بیٹھ گیا۔ اس کا کام یہ تھا کہ اپنے والد کے نام پر رشوت وصول کرے اور اس کے عوض مختیار کار کی حیثیت سے مطلوبہ احکامات جاری کرکے مہر لگا دے۔ ان دومہینوں میں اپنے والد کا کام ارسلان نے اس خوبی سے سنبھالا کہ سب عش عش کراُٹھے۔ اگرچہ اس کا باپ صحتیاب ہو کر دوبارہ کام پر آگیا تھا لیکن نوجوان بیٹے کی صلاحیتوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ہفتے میںایک دن اسے دے دیا کہ بطور مختیار کار وہ جو چاہے کرے اور جتنا چاہے کما لے۔ یہ انتظام بخیروخوبی چھ سال تک چلتا رہا ۔اس دوران میںاس نے اپنے والد کی طرح بھرتی ہونے والے اساتذہ کی مدد سے بی اے کا امتحان بخوبی پاس کیا اور اس قابل ہوگیا کہ اسے بھی مختیار کار نہیں تو پٹے دار بھرتی کرلیا جائے ، لیکن ایک مسئلہ ایسا پیدا ہوگیا تھا کہ اس کی تقرری کھٹائی میں پڑ گئی ۔ وہ اس طرح کہ ایک دن اس نے پیسے لے کر ایک ایسی زمین کے متعلق نامناسب احکامات جاری کردیے جو ایک اعلٰی افسر نے ہتھیا رکھی تھی۔ ان احکامات سے بڑی مشکلات پیدا ہوگئیں جنہیں رفع کرنے کے لیے ارسلان کے باپ کو کئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ اس غیر ذمہ داری اور نااہلی کی سزا کے طور پر اس نے اپنے بیٹے کو کراچی میں ایک سال کے لیے بطور سزا سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے کے لیے بھیجا تاکہ اسے دنیا کی اونچ نیچ کا اندازہ ہو اور دوسرے ناراض افسر کو یہ دکھایا جاسکے کہ اگر آپ کا سایہ سر پر نہ رہا تو ہم سڑک پر آجائیں گے۔ جب ارسلان مجھے یہ سب کچھ بتا رہا تھا تو اس کی سزاکا ایک مہینہ رہ گیا تھا اور جنرل مشرف کو اقتدار سنبھالے تین ماہ ہوچکے تھے۔میں نے ارسلان سے پوچھاکہ اب تو کوئی سیاسی جماعت میسر نہیں تو اس کا تقرر کیسے ہوگا۔ یہ سن کر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کچھ نہیں بولا۔ ٹھیک ایک مہینے بعد اس نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ بطور مختیار کار لاڑکانہ کی ایک دوسری تحصیل میں جارہا ہے، جب بابا سائیں ریٹائر ہوجائیں گے تو اپنی تحصیل میں آجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ اس کی تقرری کس نے کی ہے تو اس نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر فون بند کردیا۔بارہ سال کی نوکری کے بعد اس وقت ارسلان چانڈیو ایک ایسے عہدے پر فائز ہے جہاں کئی مختیار کار اس کے ماتحت ہیں۔ ارسلان چانڈیو مجھے اس دن سے بار بار یاد آرہا ہے جب وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو امن وامان سے متعلق تمام معاملات کاکپتان بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ یاسندھ حکومت کے دیگر کارپردازوں میں کوئی جوہری تبدیلی پچھلے چند دنوں میں واقع ہوگئی ہو تو اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ، البتہ جہاں تک ان اصحاب کے ماضی کا تعلق ہے تو اس سے صرف ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ میرٹ سے انحراف کے لیے یہ کہیں تک بھی جاسکتے ہیں۔ اپنے ذاتی خواص کے علاوہ قبلہ شاہ صاحب ایک ایسی انتظامی مشینری کے سربراہ ہیں جسے پینتیس برس سے جاری وفادار پروری نے مکمل طور پر بربادکردیا ہے۔ جنہیں براہ راست ڈی ایس پی بھرتی کیا گیا تھا وہ آج پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جنہیں سپاہی کی پیٹی پہنائی گئی تھی وہ تھانوں کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں کو ٹپے داری یا مختیار کاری کی خلعت پہنائی گئی تھی آج بیسویں اور اکیسویں گریڈوں میں بیٹھے صوبے کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ رہی سہی کسر پچھلے پانچ سالہ دور میں پوری کرلی گئی ہے تاکہ مکمل بربادی کا سامان مہیا کیا جاسکے۔ لمحہء موجود میں الا ماشا اللہ صوبائی انتظامیہ نچلی ترین سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک اتنی نااہل اور بدعنوان ہے کہ اگر امریکہ کو بھی اس کے سپرد کردیا جائے تو شاید چند سالوں میں دنیا کے نقشے سے ہی محو ہوجائے۔ یہ معاملہ پیپلز پارٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ 2002ء سے 2013ء تک کے گیارہ سالوں میں متحدہ قومی موومنٹ نے بھی سرکاری نوکریوں کی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔سیاسی بنیادوں پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بھرتیاں کرانے کے نتیجے میں کراچی پولیس کا حلیہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اس کا تصور بھی پنجاب میں رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ایک ڈی آئی جی کا یہ بیان کہ موجودہ حالات میں وہ مثبت نتائج نہیں دے سکتے، خرابی کے پہاڑ کا ایک صرف ایک چھوٹا سا کنکر ہے۔ مجموعی طورپر سندھ میں اور کراچی میں بالخصوص انتظامیہ اتنی بدعنوان اورنا اہل ہوچکی ہے کہ قائم علی شاہ تو درکنا ر ان کی جگہ ملائشیاکے ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی آجائیں تو معاملات کو سیدھا نہیں کرپائیں گے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں حکومت ، سیاسی جماعتوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مختلف گروہوں کی پشت پناہی سے حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ خلوص دل سے چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر واقعی کچھ کرنا ہے تو پھر میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، اسفندیار ولی اور الطاف حسین کے درمیان کسی سمجھوتے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ چودھری نثار صاحب کی تقریروں کے جواب تو بارہ سال پہلے ارسلان چانڈیو ایک قہقہہ لگا کر دے چکا ہے۔ نجانے اور کتنے اسی طرح قہقہے لگا رہے ہوں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved