''خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے اور ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوشحال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے‘ وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ: 273)
''اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے۔ مانگنے والوں کے لیے بھی اور محروموں کے لیے بھی۔ (المعارج: 24 تا 25)
اگر تلاش کیے جائیں تو اس قسم کے لوگ ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں جگہ جگہ ملیں گے لیکن ہمیں ان کی خبر نہیں ہوتی۔ ایسی ہی ایک فیملی کی کہانی یہ سوچ کر لکھ رہا ہوں کہ شاید ان کے کم نصیب باپ کی آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے کم از کم اتنی حد تک ہی ہٹ جائیں کہ اسے اپنی اولاد گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر دھکے کھاتی ہوئی دکھائی دے جائے۔ اس مالدار شخص کی چار بیٹیاں زمانے کی بے رحم موجوں کے تھپیڑے کھا رہی ہیں‘ دو جوان بیٹے معاشرے کے رحم و کرم پر ہے مگر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سونے کا نہیں‘ منہ میں ہیروں سے جڑے پلاٹینم کا چمچ لیے پیدا ہونے والے کسی بچے سے متعلق اگر یہ پتاچلے کہ آج وہ کسی فیکٹری میں 18 ہزار روپے ماہانہ پر بطور لوڈر کام کرتاہے جبکہ آپ کو علم ہو کہ اس کا حقیقی اور بقیدِ حیات باپ نہ صرف اربوں کی جائیداد اور بینک بیلنس کامالک ہے بلکہ پاکستان کے دو بڑے شہروں میں کم از کم دس سے زیا دہ بہترین گھر اس کی ملکیت ہیں‘ تو سوچیں آپ پر کیا گزرے گی؟ اس شخص نے اپنے بیٹوں کو یہ کہہ کرمڈل سے زیا دہ پڑھنے نہیں دیا کہ انہوں نے نوکری نہیں کرنی بلکہ اپنے باپ کا کروڑوں‘ اربوں کا کاروبار سنبھالنا ہے۔ جب ماں شور مچاتی کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائو تو وہ یہ کہہ کر اس کا منہ بند کر دیتا کہ یہ تمہاری طرح کسی غریب ماں باپ کی اولاد نہیں ہیں۔ یہ تو بادشاہ کی اولاد ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم والوں کو اپنے پاس ملازم رکھنا ہے۔ اس ظالم شخص کی اولاد میں بیس سے سولہ سال تک کی عمر کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے پچیس اور بائیس سال عمر کے ہیں جو اس وقت اپنی نیک اور وفا شعار ماں کے ساتھ بے کسی، بے بسی، تنگدستی اور افلاس کی ایسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں کہ اس خاندان کو بمشکل ایک وقت کی روٹی نصیب ہوپاتی ہے۔ دیکھا جائے تو ان میں سے ہر فرد لگ بھگ پانچ کروڑروپے تک کا مالک تھا۔ اس خاندان کے پاس ڈیڑھ سو تولہ سے زیا دہ طلائی زیورات تھے جبکہ لاکھوں روپے مالیت کے موبائل فون اور دیگر آسائشیں۔ وہی بچے آج دو‘ تین ہزار رواپے والا موبائل رکھنے کے بعدسو‘ دو سو روپے کے بیلنس تک کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ جب بھوک اور بیماریو ں نے اس گھر پر متواتر حملے شروع کیے تو ہسپتالوں کے اخراجات ادا کرنے کے لیے پہلے موبائل فون بیچے اور جب یہ رقم بھی ختم ہوگئی تو الماری کے سیف سے زیورات نکال کر بیچنے کا ارادہ کیا مگر یہ دیکھ کر پائوں تلے سے زمین نکل گئی کہ ڈیڑھ سو تولے سونے میں سے ایک رتی بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ بعد میں پتاچلا کہ والد صاحب کی دوسری بیوی نے حکم دیا تھا کہ گھر کا سارا زیور اس کے حوالے کیا جائے اور والد صاحب چپکے سے یہ تمام زیور گھر سے لے جا چکے تھے۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ اچانک اس خاندان پر ایسی کیا بیتی کہ وہ عرش سے فرش پر آن گرا۔ کیا اسے کاروبار میں کوئی بڑا نقصان ہوا؟ اس پر کوئی قتل اور دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات قائم ہو گئے ؟کیا اس کی املاک اور کاروبار کو آگ نے نگل لیا؟کیا والدین کا انتقال ہو جانے کے بعد رشتہ داروں یا کسی ظالم قبضہ گیر گروپ نے ان کی جائیداد اور مال و دولت پر قبضہ کر لیا؟ کیا بینکوں سے لیے گئے بھاری قرضوں اور سود در سود نے ان کے تمام کاروبار، گھروں، گاڑیوں، گوداموں اور فیکٹریوں پر قبضہ کر لیا؟کیا ان کے ماں باپ میں سے کوئی سوتیلا تھا؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ نہ تو کاروبار میں کوئی گھاٹا ہوا ہے، نہ ہی آگ نے ان کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ نہ تو خاندان کے کسی فرد پر قتل و دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات درج ہوئے ہیں اور نہ ہی ظالم رشتہ داروں نے انہیں ان کے گھر سے بے دخل کیا ہے۔ ان کے ماں باپ بقیدِ حیات ہیں اور نہ تو ان کا باپ سوتیلا ہے اور نہ ہی ماں بلکہ ان کی ماں ایک انتہائی نیک ،وفا شعار، نماز کی پابند اور انتہائی صابر خاتون ہے جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور اپنی اولاد کو ایک وقت کی روٹی کے لیے ترستا دیکھ کر بلڈپریشر، شوگر اور دل کے امراض میں گرفتار ہو چکی ہے اور اب مکمل بے یارو مدد گار اپنے بچوں کے ساتھ گزشتہ چند ماہ سے بھوک اور افلاس کے کوڑے برداشت کر رہی ہے۔
سنتے آئے ہیں کہ تکلیفیں اور مصیبتیں کبھی اکیلے نہیں آتیں۔ ہوا یہ کہ ایک بیٹے کویکایک اپینڈکس کی تکلیف ہوئی اور بیٹیوں میں سے ایک پر ڈینگی کا شدید حملہ ہوا۔ دوسری بیٹی کو ایک ایسے بخار نے آ لیا کہ سرکو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے۔ ماں کو دل کی تکلیف شروع ہو گئی اور چند ہفتے بعد چھوٹے بیٹے کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا جس سے اس کی دائیں ٹانگ پرایسا زخم لگا کہ اسے قریبی سرکاری ہسپتال سے لگ بھگ بیس ٹانکے لگوانے پڑے لیکن بعد میں ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات پیسے نہ ہونے کی وجہ سے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے وہ زخم ایسا بگڑا کہ درد نے اسے تڑپا کر رکھ دیا۔ قریبی نجی ہسپتال لے کر گئے تو وہاں اس کی ٹانگ کے اردگرد پھیلتی ہوئی سیا ہی کو دیکھ کر بتایا گیا کہ محسوس ہوتا ہے کہ زخم اس کی ہڈیوں تک پہنچ گیاہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹانگ کاٹنی پڑے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا توبیرونِ ملک مقیم چند مہربانوں کو فون اور وٹس ایپ پر وائس میسج کر کے ان سے فوری طور پر کچھ قرض لیا اور ہڈیوں کے علاج کے حوالے سے مشہور ایک ہسپتال سے اس کا علاج کرایا جہاں ڈاکٹروں نے ایک پیچیدہ آپریشن کے بعد اس کی دائیں ٹانگ کٹنے سے بچا لی۔ اس آپریشن کو چند ماہ ہو چکے ہیں اور اس نوجوان کو جو ادویات بتائی گئی ہیں‘ انہیں متواتر استعمال نہ کرنے سے اس کی ٹانگ سے نئی جلد اتر گئی ہے اور متاثرہ حصے میں‘ جہاں دوبارہ درجنوں ٹانکے لگائے گئے تھے‘ شدید درد ہونے لگتا ہے۔ یہ بے احتیاطی جان بوجھ کر نہیں کی جاتی بلکہ خالی جیب کی وجہ سے ہو تی ہے۔
اس خاندان کے آزمائشی دور کا آغاز تب ہوا جب یکایک ان کو اپنے باپ کی دوسری شادی کا علم ہوا۔ پہلی بیوی اور اس کے بچے اپنے باپ سے کہتے رہے کہ بے شک آپ نے دوسری شادی کر لی ہے‘ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمیں بھوکا تو مت ماریں۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کچھ تو کھانے کو دیں۔ رہنے کے لیے چھت دیں۔ اپنے جس بھائی اور بہن کے گھر آپ نے اپنی بیٹیوں کی نسبت طے کی تھی‘ ان بیٹیوں کی رخصتی ہی کرا دیں مگر باپ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو گھر سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے سارے رابطہ نمبر تبدیل کر لیے۔ جب باپ خود ہی تبدیل ہو گیا تو رابطہ نمبروں کے بدل جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس وقت اپنی دوسری بیوی اور اس کی اولاد کے ساتھ ان کا باپ کسی خلیجی ملک میں قیام پذیر ہے۔ پہلی بیوی اپنے شوہر کو پیغام بھیج بھیج کر تھک گئی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں۔ یقینا قرانِ پاک میں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے مرد کو چار شادیوں کی اجا زت دے رکھی ہے لیکن ساتھ ہی سختی سے یہ حکم بھی دیاگیا ہے کہ اپنی ہر بیوی کے ساتھ انصاف اور یکساں رویہ اختیار کرنا ہو گا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ دوسری شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو سڑکوں پر پھینک دیا جائے۔
یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے‘ ایسے بدنصیب بچوں کی کہانی ہے جن کے باپ کے پاس اس وقت بھی کم از کم80 کروڑ روپے سے زائد کا کیش موجود ہے اور تین سے چار ارب مالیت کا ایسا کاروبار جہاں سے اسے ماہانہ نہیں بلکہ روزانہ لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اُس بد قسمت شخص نے ایک ایسی عورت سے دوسری شادی کی جس کے اپنے پہلے شوہر سے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی صورت میں چار جوان بچے ہیں۔ دوسری شادی اس نے تمام خاندان اور برادری سے پوشیدہ رکھی۔ نجانے اس عورت نے کب اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی لیکن جن رشتہ داروں نے پوچھا تو انہیں یہی بتایا گیا کہ وہ یہ شادی کوئی دو سال پہلے کر چکی تھی۔ اس کے مطا بق اس نے اپنے پہلے خاوند سے قریب تین برس پہلے طلاق لی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ ہم نے چپکے سے نکاح کر لیا تھا اور اس کے اعلان کے لیے کسی منا سب موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ مناسب موقع تب آیا جب نہ صرف ڈیڑھ سو تولے سونے کے زیورات یکایک گھر سے غائب کر دیے گئے بلکہ پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو بھی بے دخل کر دیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved