گھنٹیوں کا وقت کب کا گزر چکا۔ اب تو خطرے کے گھنٹے بج رہے ہیں بلکہ بجائے جارہے ہیں۔ دنیا ہمیں جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان شدید مشکل میں ہے‘ عالمی برادری مدد کرے۔ عالمی برادری تو مدد بعد میں کرے گی‘ پہلے ہمیں اپنی مدد کے لیے خود ہی کچھ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے اپنی حالت کے بدلنے کا آپ خیال نہ ہو۔ قدرت کا اصول ہمارے لیے کیوں تبدیل ہوگا؟ قرآنِ مجید گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت تبدیل نہیں کیا کرتے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی طرف سے کئی بار انتباہ کیا جاچکا ہے کہ پاکستانی معیشت شدید خرابیوں سے دوچار ہے۔ یہ خرابیاں اُسی وقت دور ہو سکتی ہیں جب خامیاں دور کی جائیں اور چند اصلاحات یقینی بنائی جائیں۔ معاشی اصلاحات یقینی بنانے کے لیے سیاسی عزم لازم ہے۔ سیاسی عزم کہاں سے آئے کہ جن کے ہاتھ میں ملک کے اختیارات و وسائل ہیں وہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی ختم ہو تو ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کی سُوجھے۔ وفاق میں حکومت کے لیے بہت سی الجھنیں ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو وفاقی حکومت کی مخالف ہے۔ سندھ میں وفاق کی اتحادی حکومت ہے مگر پھر بھی بعض معاملات میں کھنچاؤ پایا جاتا ہے۔ سندھ کو وفاق سے بہت سی شکایات ہیں اور پھر اتحادیوں کے مطالبات بھی تو ہیں۔ سندھ میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری سے نمٹنے میں وفاق کا کردار اگرچہ برا نہیں رہا مگر پھر بھی سندھ حکومت کو چند شکایات رہی ہیں۔ اُس کا ایک شکوہ تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے کسانوں کو اگلی فصل کے لیے بھرپور تیاری میں مدد دینے کی خاطر وہ سبسڈی نہیں دی‘ جو دی جانی چاہیے تھی۔ کھاد اور بیج کی مد میں نصف کی حد تک سبسڈی مانگی گئی تھی۔ وفاق نے وسائل کی کمی کا رونا روکر ایک حد تک ہی مدد کی۔ آج دنیا بھر میں معیشتیں مشکلات سے دوچار ہیں۔ جب دنیا کا حال برا ہے تو ہمارا حال اچھا کیسے ہوسکتا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں ابھرنے والی مشکلات کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ درآمد و برآمد میں توازن نہ ہو تو معیشت کا دگرگوں ہونا ناگزیر ہے۔ ہم اِس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ یہاں ادائیگیوں کا توازن ہمیشہ ناموافق ہی رہا ہے؛ تاہم کبھی کبھی کچھ بہتری سے معاملات درست ہوتے دکھائی دیے ہیں۔ اب پھر خرابیاں بڑھ رہی ہیں۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوا۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ اب سیلاب نے پوری کردی۔ سندھ میں سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری ایک بڑا کام ہے جو ہر حال میں کیا جانا ہے۔ یہ کام ڈھنگ سے اُسی وقت ہوسکتا ہے جب معیشت میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو۔ وسائل کے حصول اور تقسیم کے حوالے سے وفاق پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ یہ دباؤ فی الحال کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ معیشت کی حالت بُری ہے۔ قرضوں کی ادائیگی تو بعد میں ہوگی‘ فی الحال تو قرضوں پر سود ادا کرنا بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ترقیاتی منصوبے ادھورے پڑے ہیں۔ بعض منصوبوں پر کام ہو تو رہا ہے مگر خاصی سست رفتاری سے۔ ایسے میں معیشت کی مکمل بحالی فوری طور پر تو ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بڑھتا ہوا مالیاتی دباؤ بہت سے ایسے اقدامات کا متقاضی ہے جن کے ذریعے تھوڑی بہت بچت ممکن ہو اور کم بجٹ میں کام ڈھنگ سے پورا کیا جائے۔ ایسے اقدامات آسان نہیں ہوتے۔ جن کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے وہ ضرور احتجاج کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین خاصی معقول تنخواہ اور ہر سال معقول اضافے کے باوجود اپنے مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے مراعات میں کمی کی جائے تو وہ احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ سرکاری مشینری کی تنخواہیں اور مراعات کم کیے جانے تک ملک کے مسائل ڈھنگ سے حل کرنے کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن کا بوجھ بھی عام آدمی ہی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ پر اچھی خاصی رقم دینے کے بعد پنشن کا بوجھ حکومت کو دیگر امور کے لیے کچھ کرنے کے قابل کہاں چھوڑتا ہے؟ اس حوالے سے بھی بہت کچھ سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے۔
کاروباری طبقے کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں خاصے تحفظات پائے جاتے ہیں مگر دوسری طرف کاروباری طبقہ بھی تحفظات رکھتا ہے۔ کاروباری طبقے پر ٹیکس چوری کا الزام ہے۔ حکومتی حلقے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کاروباری طبقہ اُتنا ٹیکس ادا نہیں کرتا جتنا بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ٹیکس مل رہا ہے اُس سے کون سے تیر مارے جارہے ہیں۔ کاروباری طبقے کا ایک بنیادی اعتراض یہ ہے کہ وہ تو ٹیکس ادا کرتا ہے مگر ایک طرف تو حکومت کی طرف سے خاطر خواہ سہولتیں نہیں ملتیں اور دوسری طرف ٹیکس کی رقم سے سرکاری مشینری کی تعیشات ہی ختم نہیں ہوتیں۔ محصولات کی آمدنی پوری قوم کے لیے ہوتی ہے نہ کہ محض سرکاری مشینری کے لیے۔ عام آدمی کاروباری طبقے سے جو کچھ لیتا ہے اُس پر ٹیکس دیتا ہے۔ کاروباری طبقہ اپنی اشیا و خدمات کی فروخت پر ٹیکس دیتا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ بینکوں کے ذریعے تنخواہ وصول کرنے پر بہرصورت ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ملک بھر میں ایسے لاکھوں بیوپاری ہیں جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بینکنگ سسٹم سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ ٹیکس دینے والے کاروباری طبقے کی طرح اُن کا بھی استدلال یہی ہے کہ ٹیکس کیوں دیا جائے؟ سرکاری مشینری خاطر خواہ سہولتیں فراہم کرنے سے زیادہ محصولات کی آمدن سے اپنے لیے سہولتوں اور آسائشوں کا اہتمام کرتی ہے۔ عام آدمی ایک ہی تنخواہ پر چار چار‘ پانچ پانچ سال تک کام کرتا رہتا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں ہر سال باقاعدگی سے اضافہ ہوتا ہے۔ کاروباری طبقے پر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو وہ کہتا ہے کہ معاملہ اوپن مارکیٹ کا ہے۔ جب ایک مخصوص تنخواہ پر کام کرنے والے میسر ہیں تو پھر تنخواہ کیوں بڑھائی جائے؟ کاروباری طبقہ تنخواہوں میں باقاعدگی سے اضافے کا کوئی بھی میکانزم اِس لیے قبول نہیں کرتا کہ کبھی حالات خراب ہوں تو خسارے کا بوجھ اُس کو خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تب سرکاری مشینری اُس کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتی۔ کاروباری طبقے کے تحفظات آسانی سے نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ محض آبیانہ لیا جاتا ہے یا پھر بجلی کا خرچ۔ دیہی علاقوں میں بجلی چوری بھی عام ہے۔ بلنگ بھی معقول نہیں۔ ایسے میں معیشت کو چلانے اور سرکاری مشینری کو فعال رکھنے کا پورا بوجھ شہروں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اُس میں بھی تنخواہ دار طبقہ خاص طور پر الجھن میں ہے۔ ٹیکس کی کٹوتی تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے بھی ہوتی ہے؛ تاہم وہ سرکار سے رعایتیں بھی پا جاتے ہیں۔ عام تنخواہ دار فرد تو معاملات کو جھیلتا ہی رہتا ہے۔ صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی مصالحت اور تصفیے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت کو مقتدرہ کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے مشاورت کرنی چاہیے تاکہ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینے کی گنجائش پیدا ہو۔ محصولات کا بوجھ اب پورے معاشرے کو اٹھانا ہو گا۔ محض تنخواہ دار کب تک اِس چکّی میں پستا رہے گا؟ لازم ہے کہ سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور قومی معیشت کی حقیقی بحالی کے لیے ایسے اقدامات یقینی بنائیں جو معقول بھی ہوں اور بارآور بھی۔ کسی ایک طبقے پر سارا بوجھ ڈالنا کسی بھی اعتبار سے متقضائے عدل نہیں۔
ہم ہر بحران کے بعد بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ جھیلنا پڑا‘ اُس سے بچا بھی جاسکتا تھا۔ اگر یہ سوچ پروان چڑھے تو معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے جو تگ و دَو کرنا پڑتی ہے اُس سے ہمیں آئندہ کسی بھی بحران کی راہ مسدود کرنے کی تحریک ملنی چاہیے۔ غیرت مند اور ہوش مند اقوام کسی بھی بحران سے نمٹنے کی تیاری سے زیادہ اُس کی روک تھام پر توجہ دیتی ہیں۔ دانش کا تقاضا بھی یہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved