تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     17-11-2022

کپتان‘ بیانیے اور یوٹرن

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا اپنے ایک حالیہ بیان میں یہ کہنا کہ وہ امریکہ پر اپنے خلاف مبینہ سازش کے حوالے سے مزید تنقید نہیں کرنا چاہتے‘ میرے نزدیک ہرگز حیران کن نہیں۔ گوکہ فنانشل ٹائمز نے خان صاحب کے ساتھ انٹرویو کی سرخی اسی متن کے ساتھ جمائی کیونکہ شاید اس بیان نے انہیں حیرت زدہ کردیا ہو لیکن بطور سیاسی مبصر ہم عمران خان کے یوٹرنز کی ایک لمبی فہرست دیکھ چکے ہیں۔ جب وہ خود کہتے ہوں کہ یوٹرن لینا بڑے لیڈر کی نشانی ہے تو پھر اُن سے ایسے بیانات کی توقع بالکل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اُن کے یہ یو ٹرنز تب تک قابلِ قبول تھے جب تک ان کا مقصد سیاست چمکانا یا ذاتی مفادات کا تحفظ تھا‘ لیکن امریکی سائفر‘ سازش اور حکومت تبدیلی کا الزام لگا کرامریکہ مخالف مہم چلا کر پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنا قابلِ مذمت ہے اور قابلِ گرفت بھی۔ امریکہ مخالف بیانیہ عوام میں اس لیے بیچا گیا کیونکہ امریکی سامراج کے خلاف آواز عوام میں پسند کی جاتی ہے۔ جب عوام مہنگائی اور روزمرہ مسائل کے ستائے ہوئے ہوں تو انہیں ایسا دشمن چاہیے ہوتا ہے جس پر وہ اپنا غصہ نکال سکیں۔ خان صاحب نے اس عوامی غصے کو اپنی حکومت کے نکالے جانے سے جوڑ دیا۔ حکومت تبدیلی کے اس آئینی مرحلے کو اداروں سے منسلک کرنے سے عوام میں اُن کے خلاف غصے کے جذبات میں اضافہ ہوا۔ اسی بیانیے کے تحت تحریک انصاف کی قیادت نے بڑے بڑے جلسے کیے ''غلامی نامنظور‘‘ اور ''ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ جیسے پاپولر نعرے دیے۔ جب یہ دیکھا گیا کہ اس بیانیے سے ووٹ بینک میں اضافہ پکا ہے تو خیال آیا کہ اقتدار میں آکر امریکہ کی ضرورت پڑے گی‘ اس سے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہیں تو سوچا کہ اب امریکہ کے خلاف نعرے لگانا ترک کر دینا چاہیے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان نے یہ پہلے کیوں نہیں سوچا کہ اُن کے بیانات سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں‘ خاص طور پر جب امریکہ کا آئی ایم ایف اور فیٹف کے حوالے سے کردار نہایت اہم ہے اور وہ پاکستان کو وہاں ''ٹائٹ‘‘ کر سکتا ہے؟ اس پس منظر میں قومی مفادات کو زک پہنچانے والا یہ بیانیہ تحریک انصاف کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جب بینظیر بھٹو 1986ء میں وطن واپس لوٹیں تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا تھا۔ اس پر تپاک استقبال کی دو بڑی وجوہات تھیں‘ ایک تو بینظیر کی صورت میں لوگوں کو آمریت کی ظلمتوں کے سائے مٹتے نظر آرہے تھے اور دوسرا وہ بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے۔ اس احتجاج میں خاص بات یہ تھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد سمجھتی تھی کہ بھٹو کی پھانسی کے پیچھے امریکہ تھا‘ اس لیے امریکہ کے خلاف بھی نعرے لگائے جارہے تھے۔ لیکن جب بینظیر کو اقتدار کے حصول کے لیے امریکہ اور مغرب کی جانب دیکھنا پڑا تو یہ لوگ بینظیر سے بھی مایوس ہوگئے نتیجتاً 1988ء کے انتخابات میں محترمہ فیصلہ کن برتری حاصل نہ کر سکیں۔ اسی طرح نواز شریف 1993ء میں اس وقت حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر بنے جب انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کرکے مقتدرہ مخالف بیانیہ اپنایا۔ لوگ ان کے ساتھ ہوگئے‘ جب وہ 2017ء میں حکومت سے نکالے گئے تب بھی ان کے ووٹروں نے ان کے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی پذیرائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی تمام ضمنی انتخابات (ن) لیگ کے نام رہے لیکن جب عمران خان کی حکومت بدلی اور میاں صاحب کے مؤقف میں نرمی ہوئی تو ان کا یہ بیانیہ بھک سے اُڑ گیا۔
اس وقت حال یہ ہے کہ (ن) لیگ کو پنجاب جیسے اپنے ''سیاسی قلعے‘‘ میں لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ایسا یوٹرن عمران خان کو سیاسی طور پر نقصان نہ پہنچائے۔ اسی طرح آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر بھی خان صاحب کے بیانات میں تضاد بہت نمایاں ہے۔ پہلے فرمایا کہ مجھے اس تقرری سے کوئی سروکار نہیں‘ پھر کہا کہ پی ڈی ایم والے اس تقرری سے ذاتی فائدہ کشید کرنا چاہتے ہیں‘ اور پھر کہا کہ کوئی بھی آرمی چیف ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر اس معاملے کو سیاست زدہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟
اگر خان صاحب کے امریکہ مخالف بیانیے کو پیچھے چھوڑنے کے بیان سے مثبت پہلو کشید کیا جائے تو اُن کا یہ بیان انہیں اور مقتدرہ کے تعلقات کو بھی معمول پر لانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ مقتدرہ عمران خان کے مغرب مخالف یا امریکہ مخالف بیانات سے نالاں تھی۔ ہوتی بھی کیوں نا‘ جب آپ کے عالمی برادری سے تعلقات بگڑ جائیں تو آپ کے تجارتی و معاشی مفادات پر بھی زک پہنچتی ہے۔ جب معیشت کمزور ہوگی تو لامحالہ دفاعی معاملات پر بھی برا اثر پڑے گا جس سے قومی سلامتی متاثر ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ پھر امریکہ کا پاکستانی معیشت اور دفاع کی مضبوطی میں ایک مرکزی کردار گزشتہ 75 برسو ں سے موجود رہا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کا بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایسا رویہ ظاہر ہے کہ مقتدرہ تو کیا کسی ریاستی ادارے کو بھی کیوں بھائے گا۔ اس لیے خان صاحب کی جانب سے امریکہ مخالف بیانیے سے یوٹرن‘ ان کے مقتدرہ سے بہتر تعلقات کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب دل میں یہ کھٹکا بھی رہتا ہے کہ کب عمران خان اپنی اس پالیسی سے یوٹرن لے لیں۔ عین ممکن ہے کہ اگر انہیں محسوس ہوکہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی واپسی ممکن نہیں ہو پا رہی یا اس میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو وہ دوبارہ سے اینٹی امریکہ بیانیے کو اپنا لیں۔ خان صاحب چونکہ ایک فاسٹ باؤلر رہے ہیں اور فاسٹ باؤلر ہمیشہ جارحانہ انداز میں حریف ٹیم کو باؤلنگ کرواتا ہے اسی لیے شاید خان صاحب سیاست میں آنے کے بعد اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف بھی جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ کسی بھی معاملے پر اگر نرم سٹینڈ لیتے ہیں تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا اور وہ دوبارہ جارحانہ طرزِ سیاست کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب کے دورِ اقتدار میں پاکستان امریکہ کے علاوہ چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای جیسے دیرینہ دوستوں سے بھی دور ہوتا جا رہا تھا جس کے پیچھے تحریک انصاف کی غیر مربوط فارن پالیسی تھی‘ اس لیے اب خان صاحب کو پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اپنے بیانات میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب اگلے روز توشہ خانہ کیس کے حوالے سے بھی ایک پیشرفت سامنے آئی۔ عرب امارات میں مقیم ایک کاروباری شخص‘ عمر فاروق ظہور کے ان دعووں کے بعدکہ اُس نے خان صاحب کو سعودی حکومت کی طرف سے ملنے والے تحائف بیس لاکھ پائونڈ کی کیش پیمنٹ پر خریدے ہیں‘ کچھ اہم سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ خان صاحب نے یہ تحائف تقریباً 28 کروڑ پاکستانی روپوں میں بیچ کر اپنے گوشواروں میں محض 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کی فروخت کیوں ظاہر کی؟ اسی کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان عمران خان کو غلط گوشوارے جمع کروانے پر نااہل قرار دے چکا ہے۔ اس نئی پیشرفت کے بعد لگتا ہے کہ عمران خان کے صادق اور امین ہونے کے بیانیے کو بھی زک پہنچ سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved