بات خوازہ خیلہ کی ہے۔ خوازہ خیلہ‘ جو سوات کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ میں نے زندگی میں سب سے پہلے خزاں کے خوبصورت رنگ یہیں دیکھے تھے۔ بات بھی کافی پرانی ہے‘ جب آتشِ نوجواں نے سرخ اور نارنجی گھرانے کا اتنا قریبی مشاہدہ پہلی بار کیا تھا۔ میں ایک آتشی پیڑ تلے کھڑا تھا جس کا پتا پتا آگ کے رنگ کا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ شاخوں نے شعلے پہنے ہوئے ہیں۔ ذرا سا ہٹ کر چند درخت اور تھے جن کے پتے گلابی تھے۔ زرد سے گہرے سرخ تک ہر رنگ درختوں پر موجود تھا۔ بادِ شمال اپنی ٹھنڈک کے ساتھ ان ٹہنیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی گزر رہی تھی۔ درختوں کے نیچے رنگ برنگے پتوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اس ڈھیر پر قدم پڑتے تو جیسے نرم روئی کے ڈھیر میں دھنسنے لگے ہوں۔ انگلش میں اس ڈھیر کو فولیج (Foliage) کہتے ہیں۔ اردو میں اس ڈھیر کے لیے کیسا خوبصورت لفظ ہے۔ پتاور۔ وہ پتے جو کبھی درخت کا حصہ تھے اور اب اس گھرانے کا ماضی بنے پڑے ہیں۔ اور ابھی تو انہیں جدائی کا اگلا مرحلہ درپیش ہے۔ انہیں درخت کے قدموں سے بھی الگ ہوکر دربدر ہونا ہے۔ کیا شعر ہے مرحوم عرفان صدیقی کا:
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگِ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے
خوازہ خیلہ پاکستان کے اندر وہ واحد علاقہ نہیں جو خزاں کے حسن کے لیے مشہور ہے۔ سوات کے تمام قصبے اور شہر ایسے ہی حسن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ خوازہ خیلہ کی مثال اس لیے کہ میپل (Maple) کے پیڑ وہاں زیادہ ہیں۔ وگرنہ سکردو‘ گلگت‘ ہنزہ کی خزاں بھی دیکھنے والوں کی نگاہوں میں منجمد ہو جاتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اترتی سردیوں اور پت جھڑ کے موسم میں اس حسن کی بارگاہ میں پہنچا جائے۔ اور یہ شرط ان علاقوں کی حد تک ابھی پوری نہیں ہوئی۔ دل کی خواہش اور فرصتِ نظارہ تا حال یکجا نہیں ہوئیں لیکن اس کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک جن میں امریکہ اور یورپی ممالک خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں‘ اپنی خزاں کی بہار دکھانے کے بہت سے مواقع فراہم کرتے رہے۔ وہ مبہوت کن مناظر‘ جو قدم جما کر اور نگاہیں منجمد کرکے رکھ دیں۔ شکاگو‘ اٹلانٹا‘ سنسناٹی‘ نیویارک‘ کلیو لینڈ‘ نیشول۔ ایک سے بڑھ کر ایک حسین اور نظر فریب۔ کوپن ہیگن‘ برمنگھم‘ بریڈ فورڈ‘ الکلی‘ مانچسٹر اور لندن۔ کس کی خزاں کو کس پر فوقیت ہے‘ فیصلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سفر یاد آتا ہے جو یوکے میں شمالی ویلز کے سنوڈینیا پہاڑ اور اس کے دامن میں بسے ہوئے قصبوں اور جھیلوں کا کیا تھا۔ چیسٹر‘ لینڈ ڈنو‘ لنبریز۔ میں ستمبر میں یہاں پہنچا تھا اورستمبر میں اس علاقے کا حسن دیدنی ہوتا ہے۔ سنوڈینیا اگرچہ زیادہ بلند نہیں لیکن مشہور بہت ہے اور اس کے دامن میں پاراڈان جھیل اپنے سکون‘ سکوت اور فطری حسن کے حوالے سے بے مثال ہے۔ نقرئی اور سرمئی جھیل بے آواز اور بے حساب حسن رکھتی تھی۔ واپسی پر ہم بینگور (Bangor) نامی چھوٹے سے قصبے سے گزرے جس میں درخت اپنا سبز پیرہن بدل کرگلابی اور نارنجی ہو چکے تھے۔ سرد اور زرد خزاں نے آگ لگا دینے والے جھونکوں سے ہمارا استقبال کیا تھا۔ اور اس سے حسین استقبال بھلا کون سا ہو سکتا ہے۔
خزاں کے اس حسن کی ایک جہت اور بھی ہے۔ کچھ پھول جو خزاں اور پت جھڑ میں کھلے ہوتے ہیں‘ جب زندگی اپنے برگ و بار گرا رہی ہوتی ہے‘ عین اسی وقت کچھ شاخیں اپنے حصے کی خوبصورتی شامل کرتی ہیں۔ میں نے برہنہ شاخیں اورکھلتے پھول ایک ساتھ دیکھے اور مجھے لگا کہ یہ اس زندگی کو بیان کر رہے ہیں۔ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جب زندگی مایوسی سے گزر رہی ہو تو ان لمحات میں اپنے ہونے کا ثبوت کیسے دیا جاتا ہے۔ زندگی کو رجائیت کا رنگ کیسے بخشا جاتا ہے۔بقول شاعر:
بس اسی طرح محبت کے صلے ہوتے ہیں
جیسے پت جھڑ میں بھی کچھ پھول کھلے ہوتے ہیں
ہم جو دنیا کے شمالی کرے میں بسے ہوئے لوگ ہیں‘ ستمبر سے اس خزاں سے گزرتے ہیں جبکہ جنوبی نصف کرے والے مارچ سے خزاں رسیدہ ہونا شروع کرتے ہیں۔ لاہور میں پت جھڑکا اثر تو ہوتا ہے لیکن سرد تر علاقوں کی نسبت کم کم۔ یہاں بہت سی شاخیں تو ملگجی‘ زرد‘ زنگ آلود یا برہنہ ہو جاتی ہیں لیکن خزاں کے وہ خوب صورت رنگ کم کم دکھائی دیتے ہیں جو شمالی علاقوں کا خاصا ہیں۔ صرف ایک دوماہ پہلے تک یہ پیڑ گہرے سبز پتوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ پت جھڑ یعنی خزاں دنیا کے بیشتر ممالک میں اداسی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ حیوانات سے نباتات تک یہ کیفیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ بہار اگر نمو کی علامت ہے اور اچھے موسموں کی نوید تو خزاں درختوں اور شاخوں کے برہنہ ہو جانے اور سخت موسموں کے لیے تیار ہو جانے کی تنبیہ۔ کیا عقل حیران نہیں ہوتی کہ ننھے منے جانوروں اور حشرات الارض میں بھی یہ عقل موجود ہے کہ آئندہ دنوں میں خوراک کی کمی رہے گی‘ اس لیے تیاری کر لینی چاہیے۔ وہ شکار جن پر زندگی کا انحصار ہے‘ وہ اب بہت دن تک میسر نہیں رہیں گے۔ برہنہ اور ٹنڈ منڈ شاخوں سے رزق حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ انہیں ادراک ہوتا ہے کہ سخت سردی سے بچاؤ کے لیے پناہ گاہیں تعمیر اور مرمت کر لینی چاہئیں۔ برف باری کے دنوں سے پہلے ہی خوراک ذخیرہ کر لینی چاہیے۔ کچھ جانداروں کے لیے یہ ایک طویل نیند کی تیاری ہے۔ ایسی نیند جو مہینوں پر محیط ہو۔ پھر جب زمین جاگتی ہے تو یہ جاندار بھی جاگ جاتے ہیں۔ اصحاب کہف کی طویل نیند پر اعتراض کرنے والوں نے کیا ہر سال ان طویل نیندوں سے گزرنے والوں کو نہیں دیکھا جو کسی دیگر جاندار کے حصے میں کبھی نہیں آتی۔
مجھے بہت بار خیال آتا ہے کہ اردو اور فارسی شاعروں نے خزاں کے حسن کو اس طرح محسوس نہیں کیا جیسا بہار کو مجسم کیا ہے۔ بہار کے تو قصائد پڑھے گئے ہیں۔ ساقی سے بھی کلام کیا گیا تو یہ کہہ کر کہ ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار۔ لیکن خزاں کے ساتھ کوئی قصیدے منسوب نہیں۔ شاید وجہ یہ کہ ایران میں یہ ایک طویل اور سخت سرد موسم کا آغاز ہے اور ہماری فارسی روایت ایران سے جڑی ہوئی ہے۔ برصغیر میں آکر بھی یہ فارسی روایت زیادہ بدل نہیں پائی حالانکہ برصغیر کے موسم اور جغرافیائی حالات جدا تھے۔ پت جھڑ اداسی‘ پژمردگی اور یاسیت کی ہی علامت رہی۔ انتظار تو ہمیشہ بہار ہی کا ہوتا تھا۔ بقول احمد مشتاق:
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
لیکن سرد علاقوں کے لکھنے والوں نے اس حسن کو محسوس بھی کیا ہے اور تجسیم میں بھی حصہ ڈالا ہے۔ بلوچستان کے نمائندہ عطا شاد نے اپنے خطے کے موسموں کو شاعری میں کیسے بیان کیا ہے:
یک لحظہ سہی حسن کا ارمان ہی رہ جائے
اس خلوتِ یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے
مجھ شاخِ برہنہ پہ سجا کر برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
لیکن یہ پت جھڑ کی دستک آج مجھے زیادہ کیوں محسوس ہورہی ہے۔ تیزاور اونچی دستک۔ اتنی اونچی کہ میں اسے لکھے بغیر نہیں رہ سکا۔ کیا وجہ صرف یہ ہے کہ ملک بھر میں خزاں ایک بڑے پرندے کی طرح پر پھیلا کر اُتر چکی ہے؟ یا یہ کہ دل کے ہرے پتے زنگ آلود اور بجھے رنگوں کے لباس پہن چکے ہیں۔ یا پھر یہ دونوں نہیں بلکہ گرد و پیش‘ ملک‘ اہلِ سیاست‘ اہلِ اقتدار کی خزاں رسیدگی دل پر اثر کر رہی ہے؟ آنے والے موسموں سے خوف آرہا ہے اور زرد پتوں کا ایک ڈھیر اس ہوا کے جھونکے کا منتظر ہے جو انہیں در بدر بکھیر دے گا۔ میں تو یہ فیصلہ نہیں کر پارہا کہ آج کی تحریر کا اصل سبب کیا ہے۔ کیا آپ فیصلہ کر سکتے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved