بچوں کی بہتر پرورش ہر کوئی چاہتا ہے لیکن بہتر پرورش کیسے کی جائے‘ اس بارے میں جاننے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پہلے سات برس بچے کی پرورش کے لیے اہم ترین ہوتے ہیں اور اس دوران بچے کو جن حالات میں رکھا جاتا ہے‘ اس سے جیسا برتائو کیا جاتا ہے اور جو کچھ اسے سکھایا جاتا ہے‘ اس کے اثرات ساری عمر بچے کے دل و دماغ پر نقش رہتے ہیں۔ پہلے سات برس میں بچے کے ساتھ اگر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی‘ اسے کھیلنے کودنے کے بجائے سختی کے کاموں اور دبائو میں رکھا جائے گا تو اس کے منفی اثرات اس کی شخصیت پر مرتب ہو جائیں گے اور کوشش کے باوجود بھی ختم نہیں ہو پائیں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کی نگرانی ضرور کی جائے لیکن انہیں بات بات پر ٹوکنا اور یہ کہنا کہ تمہیں کچھ پتا نہیں‘ سراسر زیادتی ہے۔ اس سے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں نہیں پنپتیں اور وہ خوفزدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بچے مختلف سرگرمیوں کو پسند کرتے ہیں جبکہ والدین کی بلا وجہ کی روک ٹوک ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بچہ دنیا میں آتا ہے تو ہر اس چیز کو دیکھ کر خوش اور حیران ہوتا ہے جسے وہ پہلی بار دیکھتا ہے۔ بڑے لوگ چونکہ ان چیزوں اور سرگرمیوں سے گزر چکے ہوتے ہیں‘ اس لیے انہیں ان میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی اور وہ یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے تو انہیں یہی باتیں کس قدر دلچسپ لگتی تھیں۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن جانا چاہیے لیکن بڑوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو کمزور جانتے ہوئے ان پر دھونس اور رعب جمانے میں طمانیت اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ چھ‘ سات سال کی عمر کے بچے کے لیے الفاظ کا چنائو بھی درست کرنا چاہیے کیونکہ الفاظ ہتھوڑا بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور خوفزدہ ہو کر بچہ سوال پوچھنا اور بولنا تک چھوڑ سکتا ہے۔ انہیں ڈانٹنا سراسر غلط ہے اور ایسے جملے بولنا کہ دھیان سے پڑھو‘ ورنہ زندگی تباہ ہو جائے گی‘ بڑے ہو کر کچھ کر نہیں پائو گے‘ کھائو گے کہاں سے‘ گزارا نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ‘ یہ وہ جملے ہیں جو اتنے چھوٹے بچوں کے لیے نہیں بنے۔ انہیں اس طرح کے جملوں کے بجائے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ وہ کوئی تیس‘ پینتیس سال کے جوان نہیں جو ہم انہیں ڈانٹنا یا دلیلیں دینا شروع کر دیں۔ اس عمر میں تو انہیں چھوٹے چھوٹے مشاغل میں مصروف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان میں سافٹ سکلز پیدا ہوں‘ وہ دنیا سے بہتر انداز میں میل جول کر سکیں‘ چیزوں کو پہچان سکیں‘ الفاظ کی بہتر ادائیگی کر سکیں‘ نئی نئی چیزوں کا کھوج لگا سکیں، اس لیے بچپن ہی سے ان کی یہ عادات پکی کرنے کی کوشش کریں جو آگے چل کر ان کے کام آئیں گی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بچوں سے بھی زیادہ جلدی ہے۔ ہم انہیں ٹین ایج میں کروڑ بلکہ ارب پتی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم انہیں بزنس مین‘ پائلٹ‘ ڈاکٹر یا کچھ بھی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان میں کچھ ایسی عادات پختہ کرنا ہوں گی تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہو سکیں مثلاً ڈسپلن ہر فیلڈ میں ضروری ہے۔ ڈگریاں آپ چار بھی لے لیں لیکن نظم و ضبط کی الف بے سے ہی واقف نہ ہوں تو آپ عملی زندگی میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ اسی طرح اگر ناکامیوں سے پریشان ہو کر دل ہار کر بیٹھ جائیں گے تو کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہ باتیں بظاہر چھوٹی چھوٹی لگتی ہیں لیکن پریکٹیکل لائف میں یہی باتیں انسان کو کامیابی کے پہاڑ سے نیچے دھکیلنے یا مزید بلندی پر لے جانے کا باعث بن سکتی ہیں۔
ایسی کئی عادات اور سرگرمیاں ہو سکتی ہیں جن میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی مصروف کیا جا سکتا ہے۔ یہ شروع سے ہی راسخ ہو جائیں تو آگے چل کر بہت کام آئیں گی۔ ذہن کا صحت مند ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کا تنومند ہونا۔ بچوں کی میموری بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتے‘ سنتے ہیں فوری طور پر ان کے دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان میں اعتماد سازی پیدا کرنا اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں‘ چھوٹے چھوٹے ٹاسک یا مشاغل میں انہیں مصروف کیا جا سکتا ہے تاکہ ان کا وقت بھی اچھا گزرے اور وہ کچھ نہ کچھ سیکھ بھی جائیں، مثلاً بچوں کو جتنا زیادہ ہو سکے‘ قدرت؍ فطرت کے قریب رکھا جائے۔ جنگلات‘ پہاڑ‘ ندی‘ باغات‘ چشمے‘ درخت‘ کھیت کھلیان‘ چڑیا گھر‘ عجائب گھر، بچوں کو ایسی جگہوں پر بکثرت لے جانے سے ان کی شخصیت میں نرمی اور سوچ میں وسعت پیدا ہو گی۔ باغبانی کرنے سے ان میں ذمہ داری کے ساتھ ساتھ خدا کے لیے شکرگزاری کے جذبات پیدا ہوں گے۔ ایک بیج کو پودا بنتا دیکھ کران کا غیب پر ایمان مزید مضبوط ہو گا اور وہ سائنس کے کرشموں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔ گھر میں مرغیاں اور دیگر پالتو جانور بچوں کو بہت زیادہ بھاتے ہیں اور جانوروں سے پیار و محبت اور ہمدردی ہو گی تو وہ انسانوں کے لیے بھی ایسے ہی جذبات رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ممالک میں کتے‘ بلی اور دیگر جانوروں کے حقوق انسانوں کے برابر دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو جانوروں کے ساتھ ساتھ انسان بھی سڑکوں پر گرے پڑے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
بچوں کو ری سائیکلنگ کا عمل ضرور سکھانا چاہیے‘ یعنی چیزوں کا کم سے کم ضیاع اور ان کا دوبارہ استعمال۔ اس سے وہ صاف ستھرے ماحول کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ بچپن میں بچے کاغذوں سے جہاز بنا کر بہت خوش ہوتے ہیں لیکن بڑے لوگوں کو اصل جہاز بھی مل جائے تو وہ اس طرح خوش ہو پاتے ہیں نہ اس خوشی کو پوری طرح انجوائے کر پاتے ہیں۔ اس لیے بچوں کو شروع سے ہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور شکر گزاری کا عادی بنائیے تاکہ وہ ہر طرح کے حالات میں سیٹ ہو سکیں۔ بچوں کو کھانا پکانا بھی سکھانا چاہیے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ بچوں کو خوراک کی لذت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کا بھی علم ہو جائے۔ انہیں چائے بنانا‘ انڈا ابالنا‘ ڈبل روٹی سینکنا اور اس پر جیم؍ مکھن لگانا سکھائیے اور جب تھوڑے مزید بڑے ہو جائیں تو روٹی پکانا اور کم از کم ایک‘ دو سالن کی ڈشیں بنانا ضرور سکھائیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ خود بھی یہ کام کر سکیں۔ یہ سمجھ لیں کہ یہ مینجمنٹ کے چھوٹے چھوٹے کورسز ہیں جن کے ذریعے بچے بڑی بڑی باتیں سیکھ رہے ہوتے ہیں۔
جیو کیچنگ بھی ایک دلچسپ ٹاسک ہے‘ اس کے ذریعے بچے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھتے ہیں اور تمام براعظم اور ان میں موجود ممالک اور سمندروں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ یہ دنیا کس قدر وسیع ہے‘ ان کے ہمسایہ ممالک کون سے ہیں اور کون سا ملک کس جگہ واقع ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے ذہنوں میں ابھرنے والے چھوٹے چھوٹے سوالات کا جواب بھی دیں‘ مثلاً یہ کہ ایک ملک میں دن ہوتا ہے تو دوسرے ملک میں رات کیوں ہوتی ہے۔ کیا ہر ملک کا اپنا اپنا سورج اور اپنا اپنا چاند ہوتا ہے۔ بارش اور برف کہاں سے آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کا بچہ اس طرح کے سوالات نہیں پوچھ رہا تو یا تو اسے یہ سب معلوم ہے یا پھر کوئی گڑبڑ ہے‘ یعنی وہ کسی ڈر یا جھجک کا شکار ہے کہ اگر پوچھ لیا تو ڈانٹ پڑے گی یا سامنے والا شخص سوچے گا کہ اسے اتنی معمولی سی بات کا بھی علم نہیں۔ کوئی بھی بچہ یہ سب کچھ سیکھ کر پیدا نہیں ہوتا اس لیے بچوں کو سوالات کرنے سے نہ روکیں اور نہ ہی ان کی معصومیت کا مذاق اڑائیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزوں کے بارے میں جانیں اور اپنے علم میں اضافہ کر سکیں۔
بچوں کی زندگی کے دو فیز نتیجہ خیز ہوتے ہیں‘ تین سے سات سال اور سات سے چودہ برس کی عمر تک بچوں کی شخصیت نوے فیصد تشکیل پا چکی ہوتی ہے اور اس عمر میں اگر وہ صبر، تحمل، حوصلہ مندی، رسک لینا، فیصلہ سازی سمیت نماز اور دین کے باقی ارکان پر عمل کرنا سیکھ جائیں تو عملی زندگی میں کامیابی و کامرانی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved