امتِ مسلمہ کے زوال کا اصل سبب کیا یہ ہے کہ اس نے ابنِ رشد کے بجائے غزالی کو اپنا امام مانا؟ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو کیا آج عالمِ اسلام میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں؟
ہمارے ہاں ایک طبقہ ان سوالات کے جواب اثبات میں دیتا ہے۔ اس کے نزدیک غزالی روایت پسندی‘ سائنس دشمنی‘ طرزِ کہن اور توہم پرستی جبکہ ابنِ رشد عقل پسندی‘ جدت اورسائنسی اندازِ فکرکی علامت ہیں۔ مسلمان ذہانتیں تصوف اور غیرترقی پسند علوم میں الجھی رہیں۔ انہوں نے سائنس اور عقل کے بجائے روایت اور توہم پرستی کا انتخاب کیا اور یہ راستہ انہیں غزالی نے دکھایا تھا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنی کتاب میں اس مقدمے کو پیش کیا اور ان جیسے اہلِ دانش کا ایک مؤثر طبقہ ایسا ہے جو اسی موقف کو دہراتا رہتا ہے۔
اس موضوع پر عربی اور انگریزی میں بہت کچھ لکھا گیا۔ جہاں لوگوں نے اس مقدمے کی تائید کی ہے‘ وہاں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسے رَد کیا اور اسے غزالی پر اتہام قرار دیا کہ وہ عقل پسندی کے مخالف تھے یا انہوں نے مسلمانوں کو سائنس کے راستے سے دور کیا۔ اردو زبان میں لیکن اس موضوع پر بہت کم کام ہوا۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے غزالی کی کتاب 'المنقذ من الضلال‘ کا اردو ترجمہ کیا اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا۔ شبلی نے بھی غزالی کے سوانح اور افکار کو موضوع بنایا لیکن غزالی و ابنِ رشد کا قضیہ‘ میرے علم کی حد تک اردو میں اس طرح زیرِ بحث نہیں آیا‘ جس کا یہ مستحق تھا۔
آج میں ایک ایسی تصنیف کا ذکر کرنے جا رہا جس نے اردوکے دینی لٹریچر میں موجود اس کمزوری کو دور کر دیا ہے۔ محمد عبداللہ شارق صاحب نے ''غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی فاضلانہ کتاب لکھی ہے‘ جو نہ صرف اردو ادب میں اضافہ ہے بلکہ اس کتاب کو اس مو ضوع پر کسی بھی زبان میں لکھی گئی علمی کتب کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے غزالی اور ابنِ رشد پر موجود ثانوی ذرائع پر انحصار نہیں کیا بلکہ اصل مآخذ سے براہِ راست واقفیت کے بعد اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ شارق صاحب نے نہ صرف غزالی کے خلاف قائم اس معروف مقدمے کو غلط ثابت کیا ہے بلکہ یہ بتایا ہے کہ اس باب میں غزالی پر جو تنقید کی جاتی ہے‘ وہ غزالی سے عدم شناسائی کی ایک دلیل ہے۔ غزالی کو ایک ایسی بات کے لیے مجرم ٹھہرا یا جا رہاہے جس کا ارتکاب انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں۔ ناقدین نہ صرف غزالی کی درست ترجمانی نہیں کرتے بلکہ وہ ابنِ رشد کو بھی نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے دعوے کے اسلوب میں نہیں کہی بلکہ اس کے لیے دلائل دیے ہیں۔
غزالی کے بارے میں مصنف نے تین باتیں ثابت کی ہیں۔ ایک یہ کہ غزالی طبعی یا سائنسی علوم کے مخالف نہیں بلکہ ان کے حصول کے حق میں ہیں۔ دوسرا یہ کہ ابن سینا اور فارابی جیسے اہلِ علم‘ الہیات کے باب میں جو استدلال پیش کرتے ہیں اور اسے قطعی کہتے ہیں‘ وہ دراصل ظنی ہے۔ یہ گویا اس بات کا بیان ہے کہ کلامی مباحث اپنی حقیقت میں ظنی ہوتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ فلاسفہ پر غزالی کی جو تنقید ہے‘ اس کا تعلق دین کے مسلمات کے حوالے سے ہے۔ وہ امور جن کا تعلق عقائد سے ہے اور جن پر کسی فرد کے اسلام کا دارومدار ہے‘ ان کی اصل تنقید کا دائرہ یہی ہے۔
شارق صاحب نے اس حوالے سے غزالی کی اصل عبارت نقل کر دی ہے جو ان کی کتاب ''تہافت الفلاسفہ‘‘ سے لی گئی ہے۔ یونانی علوم کے تناظرمیں غزالی لکھتے ہیں: ''پہلے نمبر پر ان علوم میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے اور ہمارے درمیان اختلاف صرف لفظی نوعیت کا ہے۔دوسرے نمبر پر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کسی اصولی بات سے متصادم نہیںمثلاً یہ کہ زمین گیند کی طرح گول ہے‘ آسمان نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے‘وغیرہ وغیرہ۔یہ ہماری بحث سے خارج ہیں کیونکہ دین زمین اور آسمان کے بارے میں صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو مخلوق سمجھا جائے اور بعد ازاں‘زمین فی الواقع گول ہو‘چٹائی کی طرح بچھی ہوئی ہو‘چھ کونوں والی ہو یا آٹھ کونوں والی‘یہ بحث دین کے نام پر کرنا ایسے ہی ہے جیسے یہ بحث کی جائے کہ پیاز کی تہوں اور انار کے دانوں کی تعداد کتنی ہے۔اب ظاہر ہے کہ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ یہ سب اللہ کی تخلیق ہیں اور‘خواہ تعداد میں وہ کتنے ہی ہوں‘‘۔
جو لوگ مذہب کو سائنس کے مطابق یاسائنس کو مذہب کا مخالف ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں‘ا ن کے بارے میں غزالی کہتے ہیں: ''جو آدمی ایسی چیزوں کے اندر دینی جوش و خروش کے ساتھ مناظرہ کرے گا اور سمجھے گا کہ یہ سب دین ہے تواس نے دین سے دوستی نہیں‘ در اصل دین کے خلاف ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اور دین کے مقدمے ہی کو اس نے کم زور کر دیا ہے‘‘۔
اپنے تنقید کے دائرے کو متعین کرتے ہوئے غزالی کہتے ہیں : ''تیسرے نمبر پر کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ دین کی کسی اصولی بات پر اس کی زد پڑتی ہومثلاً کائنات ابدی ہونے‘خالق کے صفات کا تعین اور جسمانی بعث بعد الموت کی باتیں‘جن کا انکار فلسفیوں نے کیا ہے‘صرف اور صرف انہی مخصوص مسائل میں ان کے نظریات کی بیخ کنی تک خود کو محدود رکھنا چاہیے‘‘۔
اب جس آدمی کے یہ خیالات ہوں‘کیا اسے سائنس دشمن کہا جا سکتا ہے؟اس کتاب میں بتایاگیاہے کہ غزالی کا اصل ہدف یونانی علوم اور فلاسفہ تھے اور اس میں سے بھی انہوں نے ارسطو کا انتخاب کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمان حکما اسی کے زیرِ اثر تھے۔ ارسطو کے خیالات کی بھی غزالی نے وہی تعبیر پیش کی جو فارابی اور ابنِ سینا بتا رہے تھے۔ ابنِ رشد کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ یہ خیالات ارسطو کے نہیں ہیں۔گویا ابنِ سینا وغیرہ نے اس کی درست ترجمانی نہیں کی۔ یوں مصنف کا خیال ہے کہ ابنِ رشد کی تنقید کا اصل مخاطب غزالی نہیں‘ ابن سینا اور فارابی ہیں جنہوں نے ارسطو کی غلط تعبیر کی۔
محمد عبداللہ شارق صاحب کی ا س کتاب میں غزالی اور ابنِ رشد کے قضیے سے متعلق تمام اہم سوالات زیرِ بحث آگئے ہیں۔ کتاب میں ابنِ رشد کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے‘ میں ان پر کچھ کہنے سے دانستہ گریز کر رہا ہوں کہ کالم کی اپنی محدودیت ہے۔ میں اس وقت ان سب کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دوں گا جنہیں اس موضوع سے کوئی دلچسپی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ غزالی کے ناقدین نے کس قدر تساہل سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد ان کی تحقیق پر اعتبار قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تصوف کے بارے میں غزالی کے خیالات یا ان کے افکار پر فی الجملہ تبصرہ اس کالم کا موضوع نہیں ہے۔ انہوں نے فقہ جیسے علم کی کہیں مذمت کی اور کہیں تحسین۔ ایسا کیوں ہے؟ غزالی کے مطالعے میں یہ موضوعات بھی اہم ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے غزالی پر اپنے اہم مقالے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان کے فکری سفر میں قرآنِ مجید ان کی سعی و جہدکا محور کیوں نہیں بنا؟ شارق صاحب نے بتایا ہے کہ ''امام غزالی کا منہجِ نکیر اور علم الکلامِ جدید‘‘ پر ان کا مقالہ تکمیلی مراحل میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بھی اردو کے دینی لٹریچر میں اہم اضافہ ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved