تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     19-11-2022

توشہ خانہ کی گھڑیاں اور گاڑیاں

پولینڈ پر پُراسرار میزائل حملوں سے دنیا پر نئی عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی ریٹنگ بی مائنس سے کم کر کے ٹرپل سی پلس کردی۔فچ ریٹنگز کا کہنا ہے کہ وہ عام طور پر CCC پلس یا اس سے نیچے کی ریٹنگ پر آؤٹ لک جاری نہیں کرتے۔ پاکستان کا سی ڈی ایس (credit default swap) رسک 15 نومبر کو 75 فیصد پر پہنچ گیا ہے‘ جو مارچ 2022ء میں صرف 5 فیصد تھا۔ پاکستانی بانڈز کی قیمت 60 سے 65فیصد کم ہوگئی ہے اور عالمی سرمایہ کاروں میں بانڈز کی وقت پر ادائیگی پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اسحاق ڈار صاحب سرمایہ کاروں کو بروقت ادائیگی کا یقین دلا رہے ہیں مگر اس ادائیگی کا خود کئی حکومتی اراکین کو بھی یقین نہیں ہے۔ ملکی ایکسپورٹس ریکارڈ پست سطح پر پہنچ چکی ہیں‘ گیس کی عدم دستیابی سے کئی پیداواری اور صنعتی یونٹس بند ہو گئے ہیں۔ بجلی کی کھپت انتہائی کم ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ جاری ہے‘ مہنگائی کی شرح 28.6فیصد پر پہنچ چکی ہے جو بجٹ میں حکومت کے لگائے گئے تخمینے سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی بسر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے مگر حکومت کی جانب سے بہتری کا کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عوام ان ثمرات سے محروم ہیں جبکہ حکومت قیمتیں کم کرنے کے بجائے ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ ان تمام مسائل پر‘ جو ملک و قوم کو درپیش حقیقی مسائل ہیں اور جن پر سب سے زیادہ بات کی جانی چاہیے‘ پوری حکومت، سبھی وزرا اور سارے مشیران اور ترجمان توشہ خانہ‘ توشہ خانہ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ڈیفالٹ کا خطرہ اب سامنے نظر آنے لگ گیا ہے مگر کیا وزیراطلاعات اور کیا وزیر خارجہ، کیا وزیر ماحولیات اور کیا وزیر داخلہ، کیا وزیر دفاع اور کیا وزیر ریلوے‘ حتیٰ کہ خود وزیراعظم صاحب اور لندن میں مقیم بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی زبان پر بھی ایک ہی لفظ ہے: توشہ خانہ۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توشہ خانہ ہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ توشہ خانہ کا پہلا تحفہ یا پہلی گھڑی تھی جو عمران خان کو بطور وزیراعظم پاکستان ملی؟کیا یہ پہلا تحفہ تھا جو عمران خان نے بطور وزیراعظم قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے خریدا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن عنقریب سب کچھ بتا دے گی کہ اب تک کتنے اور کس قدر مالیت کے قیمتی تحائف‘ جو غیر ملکی سربراہان کی جانب سے دیے گئے تھے‘ توشہ خانہ سے خریدے گئے۔ وہ تمام تحائف جو توشہ خانہ میں جمع تھے‘ کون لے گیااور کس نے نایاب اور قیمتی اشیا کی من مانی قیمتیں مقرر کرا کر ان کی ادائیگیاں کیں اور پھر ان کو ایسے اپنے گھروں میں لے گئے کہ نہ کسی کو خبر دی گئی اور نہ ہی ان سے متعلق ابھی تک کیبنٹ ڈویژن عوام کو کچھ بتا رہا ہے۔ حکومت سے جب بھی ''فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ کے تحت توشہ خانہ کی تفصیلات طلب کی جائیں تو اسے ''سٹیٹ سیکرٹ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو ملنے والے تحائف کی معلومات افشا کرنے پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ اوپر سے نیچے تک پوری کابینہ سیکرٹ قرار دی گئی معلومات کی مدد سے یہ ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے کہ عمران خان نے جو چند تحائف توشہ خانہ سے قیمتاً لیے‘ وہ عمل نہ صرف غیر قانونی بلکہ غداری جتنا سنگین جرم ہے۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے کس کو پتا تھا کہ توشہ خانہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے جہاں سے کیسے کیسے قیمتی تحائف ملک کے صدور اور وزرائے اعظم ایشو کرا کے ذاتی طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے تو پھر یہ تحائف قیمتاً لیے‘ کیا ترکی کی خاتونِ اول سے ملنے والے ہار کا قصہ قوم کی نظروں سے اوجھل ہے جو سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کیا گیا تھا مگر... عمران خان کی حکومت سے تیس‘ چالیس برس قبل تک پاکستان کو دنیا بھر سے ملنے والے توشہ خانہ کے نوادرات اور جواہرات سمیت کھربوں روپے مالیت کی اشیا اس وقت کہاں اور کس کے پاس ہیں‘ کیا اس پر انکوائری نہیں ہونی چاہیے؟ کل تک یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ بطور وزیراعظم عمران خان نے جو گوشوارے جمع کرائے‘ ان میں یکایک اتنا اضافہ کیسے ہوا‘ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ جب ثابت ہو گیاکہ گھڑی بیچ کر یہ پیسے جمع کیے‘ تو کہا جانے لگا کہ گھڑی کیوں بیچی؟ کیا توشہ خانہ کے قوانین میں یہ بات درج ہے کہ جو تحفہ آپ مقررکردہ قیمت ادا کر کے قانون کے مطا بق خریدنے کے بعد اپنے استعمال میں لانے کے مجاز ہیں‘ اسے بیچنا جرم ہے؟ اور اگر یہ جرم ہے تو سبھی وہ پارٹیاں اور ان کے لیڈران‘جو کئی کئی بار اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں‘ عمران خان سے کئی گنا بڑے مجرم ثابت ہوں گے‘ کیونکہ عمران خان نے تو صرف ایک گھڑی بیچی ہے جبکہ سابقین نے تو پورے کے پورے توشہ خانے کو خالی کر دیا۔
وہ تمام افراد جو ہمہ وقت توشہ خانہ کی گردان کر رہے ہیں‘ کیا انہوں توشہ خانہ قانون کا مطالعہ کیا ہے؟ قانونی طور پر اگر سربراہِ ریاست یا دیگر حکومتی و سیاسی شخصیات‘ حتیٰ کہ سرکاری افسران کو جو تحائف بیرونِ ملک سے ملتے ہیں‘ انہیں توشہ خانہ میں جمع کرانا لازم ہے۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے لیکن اس کی مالیت کا تخمینہ متعلقہ ادارے ہی لگائیں گے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار روپے سے زائد ہو‘ انہیں مجوزہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2020ء سے قبل یہ شرح 20 فیصد تھی؛ تاہم وزیراعظم عمران خان کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا۔ آپ بے شک ملک کے صدر ہوں یا وزیراعظم‘ آپ کے کسی ملک یا اس کے سربراہ سے ذاتی تعلقات ہی کیوں نہ ہوں‘ قانون یہی کہتا ہے ہر تحفہ آپ توشہ خانے کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ اس کے بعد صرف انہی اشیا کو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں جنہیں قانون کے مطا بق مقررہ قیمت ادا کر تے ہوئے اپنے پاس رکھ لیں۔ واضح رہے کہ قدیمی نوادرات اور گاڑیوں جیسے تحائف فروخت نہیں کیے جا سکتے۔ جو لوگ تحائف کے بیچنے پر اعتراض کر رہے ہیں‘ وہ پہلے قانون کا مطالعہ کریں۔ توشہ خانہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ کیبنٹ ڈویژن ہر سال (یا سال میں دو مرتبہ) باقی بچ جانے والے تحائف کی نیلامی کرے گا۔ صرف پاکستان ہی نہیں‘ بھارت سمیت کئی ممالک میں بیرونِ ملک سے ملنے والے تحائف کی نیلامی کی جاتی ہے۔
عمران خان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے 20 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا اور اسی قصور کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ جو چیز پہلے اونے پونے داموں خرید لی جاتی تھی‘ اب اس کی کم از کم نصف قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ توشہ خانہ تو ایک کھلا کھانچہ تھا جس سے بڑے بڑوں کی دیہاڑیاں لگی ہوئی تھیں مگر عمران خان نے سارے عمل کو قانونی بنایا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ نیلامی کا ناٹک کرنے کے بعد چیزوں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا کہ اس تحفے کی مناسب قیمت نہیں مل سکی۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس کی سرکاری قیمت مزید کم کر نے کے بعد نئی نیلامی کی جاتی۔ کئی بار تحائف کو بار بار اس جعلی نیلامی کے عمل سے گزارا جاتا اور آخر میں بیس فیصد شرح کے بجائے پانچ‘ سات فیصد یا اس سے بھی کم پر ہتھیا لیا جاتا۔ عمران خان کی حکومت تو صرف ساڑھے تین برس رہی‘ ان سے پہلے کی دہائیوں میں ملنے والے اربوں‘ کھربوں روپے مالیت کے تحائف کہاں ہیں؟ پچھلی چار دہائیوں سے تو دو پارٹیاں ہی باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں تو سارے کھرے تو انہی کی طرف جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved