یوکرین کے روس میں ضم شدہ علاقے خیرسون سے روسی فوجوں کے سٹرٹیجک انخلا کے بعد یوکرین جنگ کے اختتام کی توقع رکھنے والے خاطر جمع رکھیں۔ فی الحال اس مہلک تنازع کے حتمی نتائج کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ پیش قدمی یا سٹرٹیجک پسپائی جنگ کے کھیل کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے؛ چنانچہ ابھی فریقین کے حامیوں کی طرف سے جشن منانا یا افسوس کا اظہار قبل از وقت ہو گا؛ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی سسٹم کے طور پر یک قطبی نظام کا تصور بہت جلد ناکامی سے دوچار ہونے والا ہے۔ فطری طور پر دنیا میں بسنے والی اقوام ایسی کثیر القطبی دنیا کا خیرمقدم کرنے کو بیتاب ہیں، جہاں خودمختار قومیں مغربی اتحاد کی رکنیت لیے بغیر بھی اپنی قسمت کے فیصلے خود کر سکیں گی۔ عالمی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ نیوورلڈ آرڈر کا مقصد جنگیں جیتنا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی اجتماعی مساعی کو زیادہ مربوط اور بامقصد بنانا تھا؛ تاہم طاقت کے نشے میں سرشار ایک عالمی قوت کے جنگی جنون نے کرۂ ارض کے اجتماعی نظام کو ریگولیٹ کرنے جیسے عظیم مقصد کو فراموش کرکے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے؛ چنانچہ اس سے قبل کہ دنیا طاقت کے بل بوتے پر غلبہ پانے والی کسی عالمی قوت کی مطیع بنے‘ نیوورلڈ آرڈر کے بنیادی تصور کو زیادہ منطقی اور حقیقی بنانے کے لیے روس سمیت مشرقی حکومتوں کو مغربی بالادستی کے خلاف''آخری‘‘عالمی جنگ لڑنا پڑے گی۔
اس نقطۂ نظر کے مخالفین یہ کائونٹر بیانیہ پیش کرتے ہیں کہ روس عالمی غاصبوں سے لڑنے والا کوئی مقدس ملک نہیں بلکہ وہ بھی اُس نیونوآبادیاتی نظام کا بنیادی شراکت دار ہے اور اس کے قیام و دوام میں اسے اپنے لیے مناسب حصہ چاہئے لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جب روس سوویت یونین کی شکل میں ایک عالمی طاقت تھا تو یورپ کے علاوہ امریکی بائیں بازو کے لوگ بھی روسی نظام کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرمایہ دارنہ نظام کے تابکاری اثرات کو روکنے کی خاطر برلن جیسی دیواریں بنانا ٹھیک ہے۔ امریکہ و یورپ کے قدامت پسند گروہ اب بھی شاید روس کے فطری حلیف ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ڈونباس میں روسی فتح کے خواہشمند بھی ہیں کیونکہ انہیں مضبوط روس سے کوئی خوف نہیں بلکہ وہ اسے نیا مساوی ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کیلئے لازمی تصور کرتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے لے کر اب تک امریکہ جس بدتر طریقے سے مداخلت کرنے والا واحد ملک بن کر سامنے آیا ہے‘ اس نے جمہوریہ کی بجائے ایمپائر (سلطنت) جیسی حیثیت اختیار کرکے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ لاریب پچھلے سو سالوں میں امریکیوں نے انسانی حقوق کی آڑ میں کمزور قوموں کی داخلی خودمختاری کو مسخ اور قومی وسائل لوٹنے کے لیے جس قسم کی بدسلوکی کو جواز فراہم کیا‘ اس طرزِ عمل نے کثیر قطبی دنیا کی ضرورت کو اور بھی زیادہ ناگزیر بنا دیا۔ گویا دنیا سمجھ گئی ہے کہ ایک ہی طاقت کو زمین پر مطلق تصرف پانے کے لیے کھلا چھوڑنا پوری انسانیت کیلئے خطرہ بنتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مغربی کیمپ 300 سالوں سے روسی غلبے سے بچنے کی تگ و دو میں سرگرداں رہا؛ تاہم لگتا ہے کہ اب روسیوں نے مغربی گروہوں کے ڈرائونے خواب کوتعبیر کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس عالمی پابندیوں کے باوجود اپنے نتائج حاصل کرنے کے لیے بہترین حکمت پر عمل پیرا ہے۔ ضرورت پڑنے پر روس بہت دیر تک یوکرین کو زیر کرنے کیلئے فائر پاور برقرار رکھے گا۔ خاص طور پر اگر یوکرین دریائے ڈنیپر (Dnieper) کے مشرقی کنارے کو عبور کرنے یا کریمیا پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صورتحال زیادہ گمبھیر ہو سکتی ہے۔ حکمت عملی کی یہی موافقت اگر پورے آپریشن کے دوران قائم رہی تو آخر کارمغربی یورپ کے خلاف صدر پوتن کی پیش قدمی فتح پر منتج ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ روس کی یہی پیشقدمی دنیا کی غصب شدہ آزادیوں کی بحالی کا وسیلہ بن جائے کیونکہ کرۂ ارض پر پچھلے 33 سالوں کی امریکی بالادستی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ مغرب یہ تو چاہتے ہیں کہ ایک ایسا پُرامن یورپ زندہ و تابندہ رہے جہاں لوگ خوشحال ہوں لیکن باقی دنیا کو وہ کھلے دل سے سماجی آزادیوں، معاشی خوشحالی اور داخلی خود مختاری کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ زیادہ خوش گمان لوگوں کا خیال ہے کہ سوال یہ نہیں کہ روس نے ابھی تک نیٹو ممالک پر حملہ کیوں نہیں کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ نیٹو روس کے ساتھ براہِ راست عسکری انگیج منٹ سے گریزاں کیوں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نیٹو کا کوئی ملک روس پر حملہ زن ہو تو روس کی جوابی کارروائی کو روکنے کے لیے نیٹو کے دیگر ممالک ایسے کسی رکن ملک کی مدد کے پابند نہیں جو جارح ہو لیکن روس اگر کسی نیٹو ملک پر حملے میں پہل کرتا ہے تو نیٹو کے تمام ممبران اتحادی رکن ملک کی حمایت کے پابند ہوں گے؛ چنانچہ روس نے نیٹو میں شمولیت سے قبل ہی یوکرین پر حملہ کرکے پیش دستی کی حکمت عملی اپنائی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو اپنے رکن ممالک میں سے کسی ایک پر حملے کیلئے روس کو بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا جس کے بعد جنگ بندی کرانے والا پورا گروہ اس جنگ میں ملوث ہو جائے گا، جیسے پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد امریکی دوسری عالمی جنگ میں شامل ہو گئے تھے اور پھر انہوں نے جاپان کے دو شہروں‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا تھا۔ اسی لیے روس محتاط ہے، شاید انہی تکنیکی وجوہ کی بنا پر روس نے نیٹو ممالک کی ایک سینٹی میٹر زمین کو بھی نہیں چھیڑا کیونکہ وہ نیٹو کے نہیں‘ یوکرین کے خلاف جنگ لڑنے کا تاثر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو سلوواکیہ پر میزائل حملہ کر کے جنگ کا دائرہ پھیلا سکتا تھا لیکن روس تجاوز سے بچنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ روس جارحیت نہیں‘ صرف اپنا دفاع کر رہا ہے لیکن نئی عالمی جنگ مغرب کی تکنیکی مجبوریوں کا انتظار نہیں کرے گی۔ محسوس ہوتا ہے کہ بالآخرگڑبڑ ضرور ہو گی اور روس بھی بڑے ہتھیاروں کو اس طرح اتارے گا جیسے وہ جارحیت نہیں بلکہ 'دفاع‘ کر رہا ہو۔ مغربی اشرافیہ کا تاریخی المیہ یہی رہا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد مغرب نے کوئی بھی جنگ اپنے دفاع کے لیے نہیں لڑی۔ اس کی ہرجنگ جارحیت ہر مبنی تھی بلکہ سٹی آف لندن کے بینکرز نپولین کے خود کو شہنشاہ قرار دینے سے پہلے ہی بڑی جنگوں کی منصوبہ بندی کرچکے تھے۔ خدشہ ہے کہ اب بھی اپنی پرانی روش کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ یوکرین جنگ نے مغربی تہذیب کے چہرے کا میک اَپ اتارنا شروع کر دیا ہے۔ یوکرین کے اجڑے ہوئے جن لوگوں نے حال ہی میں مغربی ممالک کا رخ کیا‘ وہ کہتے ہیں کہ نیٹو والے منافع کیلئے لوگوں کی زندگیوں کو لوٹ رہے ہیں، عمیق پروپیگنڈے کے سحر میں مبتلا لوگ آنکھیں بند کرکے اُن کے ایجنڈے کی پیروی کرتے ہوئے آخرکار اپنی قبروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم کون ہیں؟مہاجرین کہتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں‘ جو عالمی آفت کے ہاتھوں میں یرغمال بنتے چلے جا رہے ہیں۔ اب بیدار ہونے اور اس پروپیگنڈا زدہ ذہنیت کو ترک کرنے اور اس جنون کو ختم کرنے اور ایک بہتر دنیا کے حصول کیلئے دوبارہ جدوجہد شروع کرنے کا یہی مناسب وقت ہے کیونکہ مغربی اشرافیہ کے خودغرضانہ عمل کا موجودہ طریقہ کسی بھی ذی روح کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ کچھ صدیوں پہلے تک کم ہتھیار والے لوگ بھی بے انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے‘ اب پھر اپنی بقا کی خاطر یہی دلیرانہ روش اپنانا پڑے گی۔
روس میں بھی لوگ وسیع تر دنیا کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی سے مطمئن نہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ روسی پالیسی سازوں کے باعث جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ واقعی یورپ کو عالمی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جوہری طاقتوں میں جنگ کرۂ ارض پر سب کیلئے تباہ کن ثابت ہو گی بشمول اُن لوگوں کے جو احمقانہ انداز میں تیسری عالمی جنگ کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں لیکن روسی قیادت کہتی ہے کہ یہ کوئی بڑی جنگ نہیں بلکہ یہ سپیشل فوجی آپریشن ہے مگر دوسری جانب روسی اس جنگ کو مغرب کے گلے مڑھتے جا رہے ہیں تاکہ ایک ایسے عمل کا جواز پیش کیا جا سکے جسے تقریباً ہر کوئی غلط سمجھتا ہے لیکن صدر پوتن کی جارحیت کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ اتنا ہی بودا ہے جیسے امریکہ نے 'ڈومینو ایفیکٹ‘ تھیوری کو ویتنام میں اپنی جنگ کاجواز فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved