بحرانی کیفیت خواہ کسی نوعیت کی ہو‘ محض رونا رونے اور شور مچانے سے تو ٹلتی نہیں۔ بحران سے نمٹنے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔ تیار ہونے کے لیے عزم ناگزیر ہے اور عزم بھی پختہ و غیر متزلزل۔ کیا ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے؟ نظر تو نہیں آتا۔ دعوے اپنی جگہ اور حقیقت اپنی جگہ۔ حکومتی سطح پر سو طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر جب ہم زمینی حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ کوئی اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ زمینی حقیقتوں کو ہم خواہ کوئی عینک لگاکر دیکھیں‘ وہ نہیں بدلتیں۔ اُن کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے۔ یہ بھی کوئی ایسا کام نہیں کہ محض کہنے سے ہو جائے۔ خود کو بدلنے کے لیے بعض مُضِر یا غیر منفعت بخش پختہ عادتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت سے بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے مگر راتوں رات نہیں۔ وقت درکار ہوتا ہے۔ محض وقت بھی کافی نہیں‘ عزم کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر عزم کمزور پڑ جائے تو ہم زندگی جیسی نعمت کے معاملے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو پاتے اور کسی بھی عمل سے مطلوب نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ایک زمانے سے ہمارے ہاں بحرانوں کا رونا رویا جارہا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ یہ رونا بالکل غلط ہے۔ بحران آتے رہے ہیں اور اس وقت بھی ہمارے راستے میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں ہم بدنصیب ہیں نہ انوکھے۔ مختلف النوع بحرانوں کا سامنا ہر معاشرے اور ہر ریاست کو کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کوئی بھی معاشرہ کسی نہ کسی بحران سے دوچار ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اُن کے حصے میں کوئی بحران نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ترقی یافتہ اور خوشحال معاشروں کو اپنی بھرپور کامیابی اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بحرانوں میں اُنہیں بھی حصہ ملا ہے؛ تاہم اُن کے بحرانوں کی نوعیت مختلف ہے۔ وہ اپنے ہر بحران سے نمٹنے کے لیے باضابطہ منصوبہ سازی کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کو بھرپور کامیابی اُس وقت ملی جب وہاں لوگوں نے انفرادی سطح پر کچھ کرنے کے بجائے ادارے بناکر ڈھنگ سے کام کرنے کو ترجیح دی۔ آج بھی وہاں ادارے مضبوط ہیں۔ لوگ آتے‘ جاتے ہیں مگر ادارے کھڑے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ غیر معمولی عزم کے ساتھ کسی بھی بحران سے نجات پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دینا پڑتی ہے مگر اِس سے پہلے بھرپور سیاسی عزم کا ہونا لازم ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم عزمِ محکم کی منزل سے دور رہیں اور عمل کے میدان میں کامیابی ہمارے قدم چُومے۔ ایسی کامیابی کو کامیابی نہیں کہتے۔ محض اتفاق سے کچھ حاصل ہو جائے تو اُسے اصول یا کلیہ بناکر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔
پاکستان کو ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران مختلف النوع سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ ہر بحران ہمارے لیے ایک بڑی آزمائش ثابت ہوتا رہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ ہم نے کسی بھی بحران سے نمٹنے کے معاملے میں سنجیدگی کی وہ سطح نہیں اپنائی جو ناگزیر تھی۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ کرنے کا سوچیں اور کامیابی نہ ملے؟ یہ قدرت کا اصول نہیں۔ کوئی بھی انسان یا معاشرہ جب کسی معاملے میں خلوصِ نیت کے ساتھ سنجیدہ ہوتا ہے تو قدرت کی طرف سے بھی تعاون شاملِ حال رہتا ہے۔ اس تعاون کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ہم نے ہر بحران کو محض بحران سمجھا ہے‘ چیلنج نہیں۔ جب ہم کسی بھی صورتِ حال کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے ہیں تبھی کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے کیونکہ تبھی کچھ کرنے کا ذہن بنتا ہے۔ کسی بھی بحران کو مسئلہ سمجھنے کی صورت میں ہم اُس سے جان چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ چیلنج سمجھنے کی صورت میں ہم اُس کے بطن سے اپنے لیے کچھ اچھا برآمد کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ کام نیت کے اخلاص کے ساتھ ساتھ سنجیدگی، اولوالعزمی اور مستقل مزاجی کا بھی طالب ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی محض ارادہ کرے اور مشکل ٹل جائے۔ کچھ پانے اور کر دکھانے کے لیے عمل کی دنیا میں قدم رکھنا پڑتا ہے اور پھر وہاں ڈٹ کر بھی دکھانا پڑتا ہے۔
چشمِ فلک نے ایسے بہت سے معاشرے دیکھے ہیں جو انتہائی پست تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اُن معاشروں کے لوگ اپنی حالت سے تنگ آ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب انہوں نے کچھ کرنے کا سوچا اور نیت کے اخلاص کے ساتھ بھرپور ثابت قدمی کے ساتھ میدانِ عمل میں آئے تو قدرت نے یاوری کی اور وہ اپنی پستی سے نکل کر ترقی و خوش حالی کی بلندیوں پر جا پہنچے۔ یہ سب کچھ دو‘ چار دن یا دو‘ چار برس میں نہیں ہوا کرتا۔ اس کام میں کبھی عشرے لگتے ہیں اور کبھی صدیاں۔ اِس کی نمایاں ترین مثال چودہ سو سال پہلے کے عرب معاشرے کی ہے جو بادیہ نشین تھا۔ عرب صحراؤں میں پلے تھے۔ زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی آسانی سے میسر نہ تھیں۔ پینے کے پانی کا حصول انتہائی دشوار تھا۔ اُن میں زمانے بھر کی خامیاں اور کمزوریاں تھیں مگر ہاں‘ ایک قوم یا معاشرے کی حیثیت سے اُن کی شناخت چند ایسے اوصاف تھے جن کے دم سے معاشرے پنپ جایا کرتے ہیں۔ ناکامی و پستی کے گڑھوں میں گرنے کے بعد وہ اپنے چند اچھے خصائل نہیں بھولے۔ پھر جب اُنہوں نے اسلام کی دولت پاکر اپنے آپ کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے یعنی پچیس تیس برس میں ایسے طاقتور ہوکر ابھرے کہ اپنے وقت کی دو سپر پاورز (فارس اور روم) کو دُھول چٹانے کے قابل ہوگئے! اِس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ عرب یہ کارنامہ اس لیے انجام دے پائے کہ اُنہیں نبی کریمﷺ جیسا قائد و رہبر‘ ہادی و مرشد عطا کیا گیا تھا مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرب کو نبیٔ آخرالزماں کی امت کی حیثیت سے چُنا تو اِس کی کچھ نہ کچھ وجوہ ضرور ہوں گی۔ جب ہم ایک معاشرے کے طور پر اہلِ عرب کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں ایسے کئی اوصاف تھے جو کسی بھی معاشرے کو پستی سے نکال کر بلندی تک لے جاسکتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ بھرپور استقامت کے ساتھ کھڑے ہوکر اُنہوں نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔ آج بھی کئی معاشرے پستی سے نکل کر استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کئی معاشرے اچھے خاصے استحکام کو خود ہی داؤ پر لگارہے ہیں۔ ہمارا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے جو قدرتی وسائل کے اعتبار سے خوش نصیب ہیں مگر جب سیاسی عزم اور استقامت کی بات آتی ہے تو بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جوکچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اُس پر رشک کیا جائے۔ ہاں‘ شرمندہ ضرور ہوا جاسکتا ہے مگر ہم سے یہ بھی نہیں ہو پارہا۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے کیونکہ بحران کئی ہیں اور ہر بحران ہمارا تیا پانچا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے ڈھنگ سے کچھ کیا جائے تو کیسے؟ یہاں تو سنجیدگی دکھائی دیتی ہے نہ عزم۔ سیاسی عدم استحکام نے معیشت اور معاشرت‘ دونوں ہی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ احوال اُسی وقت ممکن ہو جب حکومت واقعی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اب تک معاملات کی درستی یقینی بنانے کے حوالے سے مطلوب سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ معیشت کو درست کرنے پر توجہ ہے نہ سیاست کی اصلاح پر۔ سیاست کا معاملہ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے گلے کا طوق ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاست کو محض مال بٹورنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جب ایسا سمجھ لیا جائے تو معاملہ مفاد پرستی سے شروع ہوکر مفاد پرستی پر ختم ہوتا ہے۔ ذاتی مفاد کو قومی مفادات پر فوقیت دینے کی نحوست ختم ہو تو کچھ ہو۔ قوم کو اصلاحِ احوال کے لیے تیار کرنا پڑے گا اور یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے کیونکہ اُس کے پاس مطلوب وسائل بھی ہیں اور افرادی قوت بھی۔ سرکاری مشینری کو قومی تعمیرِ نو کے کام پر لگانے کی ضرورت ہے مگر یہ کام سنجیدگی اور عزمِ محکم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved