تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-11-2022

پاکستان اور عالم اسلام

مسلم ممالک مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مسلمان دنیا کی ٹوٹل آبادی کا پانچواں حصّہ ہیں۔ او آئی سی کے ممبر ممالک کی تعداد 57 ہے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے ایک چوتھائی مسلم ممالک ہیں۔ اسلامی دنیا کے کئی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان تمام عناصر کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا میں مسلم آواز بہت مؤثر ہوتی مگر عملاً ایسا نہیں ہے اور اس کی وجوہات ایک الگ موضوع ہے۔اسلامی دنیا سے ایک جذباتی تعلق برصغیر کے مسلمانوں کی روایت رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ جب حکومت ان کے ہاتھوں سے چلی گئی تو مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ ان کے دینی اور روحانی مقامات بھی عرب اور ایران اور عراق میں تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا کا ذکر ایک عرصے تک ہماری مساجد میں نمازِ جمعہ کے خطبات میں ہوتا رہا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو عالم اسلام کے ساتھ قریبی تعلق ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ہدف ٹھہرا۔ اسلامی اتحاد اور تعاون ہمارا مطمح نظر تھا۔ فلسطین اور کشمیر کے متعلق ہمارے جذبات صرف نعروں تک محدود نہیں تھے پاکستانی قیادت کی اسلام سے واضح وابستگی صاف نظر آتی تھی۔ یہ جذبہ عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں ہمارے مقابلے میں ذرا مدھم تھا۔ اُس زمانے میں مصر اور ایران اسلامی دنیا کے اہم ممالک تھے البتہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے نیا اسلامی ملک پاکستان جو دو حصوں پر مشتمل تھا ان سے بڑا تھا‘ لہٰذا اسلامی دنیا کی قیادت کا شوق بھی پاکستانی لیڈروں کی سوچ میں سرایت کر رہا تھا۔ مصر میں اُس وقت کے بادشاہ شاہ فاروق نے اُس وقت مشہور جملہ بولا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ اسلام اگست 1947ء میں نازل ہوا ۔
1960ء اور 1970ء کی دہائی میں عرب ممالک میں کئی فوجی انقلاب آئے۔ انقلابی فوجی حکمرانوں کی اکثریت قوم پرست تھی۔ یہ نیشنلسٹ لیڈر سیکولر سوچ کے حامل تھے۔ ان میں مصر کے جمال عبدالناصر، شام میں حافظ الاسد عراق میں کریم قاسم اور پھر صدام حسین شامل تھے۔ جمال عبدالناصر کا مصر انڈیا کے بہت قریب تھا اور مصر اُن دنوں مڈل ایسٹ کا سب سے اہم ملک تھا۔ نیشنلسٹ لیڈروں میں مہاتما گاندھی، نہرو اور اندرا گاندھی خاصے مقبول تھے۔ ان ملکوں کے عوام کو یہ سمجھانے کیلئے بڑی محنت کرنا پڑی تھی کہ پاکستان بنانا کیوں ضروری تھا۔ مصر اور شام میں دس فیصد آبادی کرسچین ہے۔ شام میں دنیا کے قدیم ترین چرچ آج بھی ہیں۔ لبنان کی آدھی آبادی عیسائی ہے اور یہ بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ عرب میڈیا اور معیشت میں بڑے فعال ہیں۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے خارجہ امور میں مذہب کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ 1969ء میں صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی مذموم کوشش کی تو کئی اسلامی ممالک کے سربراہ مراکش میں جمع ہوئے اور او آئی سی کی بنیاد رکھی۔ آج او آئی سی ایک غیر فعال تنظیم ہے اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی کے اکثر ممبر سالانہ چندہ بھی نہیں دیتے۔عرب ممالک سے عمومی طور پر اور خلیجی ممالک سے خاص طور پر قریبی تعلقات کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوا۔ 1974ء کی اسلامک سمٹ اسلامی یکجہتی کی واضح مثال تھی۔ اس بڑے اجتماع کو سعودی عرب کی پوری حمایت حاصل تھی لیکن مسلم حکمرانوں کے مابین بھی مسئلے تھے۔ شہنشاہ ایران نے سمٹ میں شرکت نہیں کی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور میں ہی خلیجی ممالک میں تیل کی دولت کی ریل پیل شروع ہوئی۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے اور لاکھوں پاکستانی روزگار کی تلاش میں عرب ممالک گئے۔ پاکستان فلسطینی حقوق کا سرگرم حامی تھا۔ شام کے صدر حافظ الاسد بھٹو صاحب کو بہت پسند کرتے تھے‘ میں اس بات کا خود گواہ ہوں۔
جب تک کمیونزم کا خطرہ موجود تھا مغربی ممالک کو اسلامی یکجہتی پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر کمیونزم کے زوال کے بعد اسلام سے خطرہ محسوس کرنے لگے۔ وہ افغان طالبان جن کی تشکیل میں مغرب کا اپنا ہاتھ تھا جب 1996ء میں اقتدار میں آئے تو مغربی ممالک کیلئے چیلنج تھے‘ بڑی وجہ طالبان کا القاعدہ کیلئے نرم گوشہ تھا۔ 9/11 نے رہی سہی کسر نکال دی۔ 9/11 کے واقع نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب کے سب دہشت گردوں کا تعلق عرب ممالک سے تھا لیکن طرفہ تماشا یہ تھا کہ کئی عرب حکومتیں پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ میں نے متعدد بار عرب میڈیا پر سنا کہ دہشت گردی کا منبع پاکستان ہے۔عرب سپرنگ شروع تو بڑی شاندار امیدوں سے ہوا مگر اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ وہ عرب ممالک جو اسرائیل کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی سکت رکھتے تھے وہ کمزور ہوتے گئے۔ ان میں شام اور لیبیا سرفہرست تھے۔ فلسطینی مسئلہ جو ایک زمانے میں پاکستان اور عرب ممالک کے تعاون کا محور تھا اس کی اہمیت ثانوی ہوتی گئی۔ اس لحاظ سے عرب سپرنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا اور سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو۔ اسلامی ممالک کے مابین تعاون بھی کمزور پڑنے لگا۔
اسلامی اتحاد اور تعاون کو سب سے زیادہ نقصان عرب عجم تقسیم سے ہوا۔ یمن اور شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کی صورتحال میں بھی مذکورہ بالا تقسیم صاف نظر آتی ہے۔ خلیجی ممالک کا اسرائیل کی جانب رجوع بھی اسی تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ اسی چپقلش نے پاکستان کو بھی مشکل صورتحال سے دوچار کیا کیونکہ ہم بجا طور پر عرب عجم جھگڑے سے دور رہنا چاہتے تھے۔ سعودی عرب اور قطر میں رنجش ہوئی۔ لیبیا دو دھڑوں میں تقسیم ہوا تو ایک کو ترکی کی حمایت حاصل تھی اور دوسرے کو مصر کی۔ شام اور یمن میں مسلمان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے محسوس ہو رہا تھا کہ اب مذہب بین الاقوامی تعلقات میں اہم فیکٹر نہیں رہے گا۔ نائن الیون کے بعد مغربی ممالک میں اسلام کے بارے میں خوف اور شکوک بڑھنے لگے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن مغربی میڈیا کا بیانیہ تھا کہ نائن الیون کی پلاننگ القاعدہ نے افغانستان میں کی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت نے انہیں تحفظ دیا اور طالبان حکومت کے پاکستان سے روابط تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر ملا عمر سے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال دو مگر ملا عمر کے ذہن میں یہ بات راسخ تھی کہ پناہ لینے والے کو گھر سے نکالنا افغان روایات کے منافی ہے۔
اکیسویں صدی میں قومی مفادات اور اقتصادی عوامل بین الاقوامی تعلقات کا رُخ متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں تین ممالک ہیں جن کے سرکاری ناموں میں اسلامی جمہوریہ کا سابقہ شامل ہے اور یہ ہیں پاکستان ‘ایران اور افغانستان۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ان تینوں ممالک کے تعلقات میں اسلامی اخوت کا کتنا دخل ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ خارجہ تعلقات کے اعتبار سے تین ملک ہمارے لئے انتہائی اہم ہیں اور وہ ہیں چین، سعودی عرب اور امریکہ۔ ان تین میں سے صرف ایک اسلامی ملک ہے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ جہاں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے وہ ملک سیاسی طور پر کتنا مستحکم ہے۔ منڈی کی وسعت کتنی ہے کیا عدالتی نظام سرمایہ لگانے والے کو قانونی تحفظ اور انصاف مہیا کرتا ہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ خلیجی ممالک کئی سال سے انڈیا میں خوب سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو سرمایہ لگانے کا عمل بھی بڑی تک مذہب سے جڑا ہوا نہیں ہے۔لہٰذا پاکستان کو اسلامی دنیا کے قریب تر لانے کیلئے اب ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں سیاسی استحکام لائیں۔ اپنی برآمدات میں تنوع لائیں ان کا معیار بہتر کریں اپنے عدالتی نظام کو فعال بنائیں۔ صرف اسلامی بھائی چارے سے تعلقات میں گرم جوشی آ تو سکتی ہے مگر وہ دیرپا نہیں ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved