شاعر نے کہا تھا: وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام ۔ وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت۔ وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام ۔ یہ آج کا کالم ، ایسی ہی ایک سنہری ساعت کی بازگشت ہے ۔ ان بہترین دنوںمیں سے ایک ، جو میں نے سالِ گذشتہ روزنامہ ’’دنیا ‘‘کے دفترمیں بتائے ۔ یادیں ہیں کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہیں ۔ میں انہیں تھام نہیں سکتا۔ کبھی یکسوئی نصیب ہوئی تو لکھ ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ آج یہ کالم آپ کی نذر ہے ۔ \"آواز دوست؟ جی ہاں یہی آواز دوست تھی ! آسمان پہ ستارے ہنسے اور خطاکار کے دل میں بھی .....ہنسے اور ہنستے ہی رہے ! خشک مغز و خشک تار و خشک پوست از کجامی آید ایں آواز دوست؟ نصف شب کو بانسری کی ایک تان تھی ، جس نے حشر برپا کیا ۔ وہ سوال جو دل کو دیمک کی طرح کھائے جاتا تھا۔ حیرت، پھر امید کی یکایک فروزاں مشعل!.....بس اتنی سی بات تھی ،مدتوں جس نے مبتلا رکھا؟ بایزیدؒ نے کہا تھا: چالیس برس تک خدا کو میں نے تلاش کیا ، جب اسے پایا تو دیکھا کہ وہ میرے انتظار میںتھا۔ خدا کو نہیں ، میں اپنے آپ کو تلاش کرتا رہا۔ خود کو پایا تو ششدر رہ گیا ۔ خدا بھی یہیں تھا، رگِ جان میں ! ایک ایک وسوسے اور اندیشے کے عقب میں مسکراتا اور منتظر کہ اس کا بے علم بندہ کہاں تک بھٹکتا پھرے گا۔ ہارون خواجہ اب مصّر تھے کہ فجر کے فوراً بعد گوجر خان جانا چاہیے ۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ شب ڈھلے کام کاج سے فراغت کے بعد۔ اسلام آباد میں پہاڑی چشموں کے کنارے کنکریٹ کی سڑک سے گزرتے ہوئے، بلندی پر بنے اس گھر میں شب بتائی جائے ۔ اگلی صبح عارف کے دروازے پر دستک دی جائے مگر خواجہ ایک ضدی آدمی ہے ۔ اندیشہ پالتا اور عزم اگاتاہے ۔ وہ لوگ جو آپ کی زندگی دشوار کرتے ہیں لیکن پھر جنگل میں ایک پگڈنڈی تراش دیتے ہیں ۔ بتایا کہ آخر شب میں سوتا ہوں ۔ یہ بات بہت سہولت سے اس نے بھلا دی؟ تُل جائے تو کچھ بھی کر سکتاہے ۔ 2010ء میں سیلابی پانیوں کے مارے کوٹ ادّو میں ، اس نے ایک برباد گائوں کو پھر سے بسانے کا ارادہ کیا۔ سب مکینوں کو جہاں مکان ملیں ، گائوں کا ہر بچہ تعلیم پائے، ہر شخص برسرِ روزگا رہو ۔ راشد مہر، عامر سعید اور دوسرے دوستوں کی مدد سے وہ کامیاب رہا۔ میری ملاقات اس سے تب ہوئی ، جب مشورے کے لیے ایک اخبار نویس کی ضرورت آپڑی ۔ موسمِ بہار کے ا وائل میں ، میں اس شک کے ساتھ ، جس میں آپ کامران آدمیوں سے ملتے ہیں ، اس کے دفترمیں داخل ہوا۔ حیرت کہ اگلے چند دنوں میں اپنی زندگی کی ساری روداد اس نے سنادی ۔ اس کے پاس ایک منصوبہ تھا ۔ نک سک سے درست ، قومی زندگی کے سب پہلوئوں کومحیط۔ اقتصادیات ، صحت ، تعلیم ، مواصلات، افسر شاہی ، بجلی اورگیس کے قحط ، کراچی کی بد امنی ، پولیس، صنعت و زراعت کی نئی صورت گری ۔ پہلے تو گمان وہی گزرا ، شاید خود فریبی کا شکار ، قیادت کے آرزومند ،نیم دانشوروں کا ایک اور گروہ۔ پھر ایک بہت طویل اجلاس میں ، تصاویر ، ہندسوں اور کامیاب تجربات کی تفصیل نے سامع کو مبہوت کر دیا ۔ خاص طور پر ایک رواں طبّی یونٹ کی کہانی ، ناقابلِ یقین نتائج کے ساتھ جو بروئے کار ہے ۔ ایک نہیں ، کئی ۔ حکومتِ پنجاب سات کروڑ لگاتی ہے اور خواجہ کا پنجاب بزنس فورم صرف پچاس لاکھ ۔ اس سے بھی زیادہ کراچی کی دہشت گردی پر جمیل یوسف کا تجزیہ ۔ وہ آدمی ، جس کا خیال ہے کہ گجرات کاٹھیاواڑمیں مردانِ کار جنم نہیں لیتے ، حالانکہ کتنے ہی اسی خاک سے اٹھے ۔ ولبھ بھائی پٹیل نے 15اگست 1947ء کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو کو آسانی سے پرے دھکیل دیا تھا۔ معلوم ہندو تاریخ کا سب سے بڑ ا کھلاڑی موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جدید سیاسی تاریخ کا سب سے بڑ الیڈر محمد علی جناح۔ صدیوں تک مورخ جس پر حیران ہوا کریں گے ۔ عمر بھر جس نے سچ بولا، ہر پیمان پورا کیا اور اللہ کے سو اکبھی کسی کا سہارا تلاش نہ کیا۔ ساری تمکنت اور سب جاہ و جلال جس کے مقابل ماند پڑتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا، جب اس نے کہا : اب اس کے سواکوئی آرزوہی نہیں کہ ا متِ رسولؐ کی خدمت کا حق ادا کردوں ۔ خوں ریزی کے عوامل پر جمیل یوسف کی گفتگو آگے بڑھتی گئی ، تعجب بڑھتاگیا اور امید بھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ صرف ڈاکٹر شعیب سڈل ہے جو کراچی کو جانتاہے ، اپنے ہاتھ پر پھیلی لکیروں کی طرح ۔ یا للعجب !کراچی کا یہ کاروباری اس سے کم تونہیں ۔ اب تک خیال یہ تھا کہ مفلسوں اور محتاجوں کی دست گیری میں ڈاکٹر امجد ثاقب ہی بہت روشن مثال ہیں ، جن کی سرشار عاجزی کے سامنے سب انعام ہیچ.....یہاں تو اور بھی ہیں ۔ ہارون خواجہ اور جمیل یوسف کے ہم سفر۔ یہ تو ایک کہکشاں ہے ، جہاں آفتاب طلوع ہوتے اور ماہتاب دمکتے ہیں ۔ گھنٹہ بھر میں سویا اور سویر ساڑھے پانچ بجے عامر سعید کی گاڑی میں تینوں چل دیے ۔ اچھی سواری ، ہم نفس اور ایک کہانی،زادِ راہ میں اس سے زیادہ اورکیا چاہیے ؟ مگرپو پھٹی تو ایک سوال نے کہرام اٹھایا۔ وہ زندگی جو برباد ہوئی ، وہ صبحیں جو سو کر گزاریں ، وہ وقت جو رائیگاں رہا۔ تب نصف شب کو چاندنی میں نہاتے قلعہ گوجر سنگھ کی گلی سے گزرتے ہوئے بانسری کی ایک تان نے بالآخر اس سوال کا جواب دیا اور ایسا جواب کہ سارا ملال گرد ہو گیا ، ابر جس پر برستا رہا۔ گلی میں دو لڑکوں نے روکا ۔جھجکتے ہوئے پوچھا کہ ہر رات آپ یہاں سے کیوں گزرتے ہو ؟’’کچھ دیر پیدل چلنے کے لیے ، کچھ دیران قدیم مکانوں کے صورت گروں کو داد دینے کے لیے ، جومٹی اوڑھ کر سوئے پڑے ہیں‘‘۔جملے کا آخری حصہ زیرِ لب کہا اور چلتا رہا۔ خود سے نا خوش۔ ایک دعا جو کچھ دیر دہرانی تھی اور خوش وقتی میں خاک ہوئی ۔ تب رات کے سناٹے میں بانسری کی وہ تان اچانک ابھری اور فورا ًہی بجھ گئی ۔ مسافر ٹھٹکا اور دم بخود کھڑا رہ گیا۔دُور صحرا میں جیسے دکھائی نہ دینے والی اونٹوں کی کوئی قطار ۔ پل بھر کو بانسری کے ساتھ گھنٹیوں کی موہوم سی صدا ۔ کیا واقعی سنی تھی یا کوئی سپنا تھا؟ عارف نے کہا تھا: کبھی ایسا ہوتاہے کہ خاموش رات کی کوئی صدا جگر چاک کر دے ۔ آج یقین آیا۔ بانسری کی لے میں ڈوب کے ہر چیز فنا ہو گئی ۔ بالکل ہی غائب اور بانسری باقی رہ گئی ، اوراس کا سوز۔ ایک لہر دل کی گہرائیوں سے اٹھی اور سمندر ہو گئی ۔ بانسری بولی : تمہیں وہ بات کیوں خوش نہ آئی ، جو ہزار بار سنی تھی ’’اے وہ لوگو، جنہوںنے اپنی زندگی اسراف میں لٹا دی ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا ‘‘۔ کچھ دیر سنّاٹا ؛حتیٰ کہ دعا بھول گئی۔ سبھی کچھ کھو گیا ، حواس بھی ۔ تب اپنے آپ سے میں نے کہا : فقط معافی نہیں ، اللہ کی رحمت ۔ وہ جو بے حد و بے کراں ہے ۔ اس کے کرم کی بارش ، جو سب اہلِ سخا کا پالن ہار اور سب سچائیوں کاسر چشمہ ہے ۔ اتنی سی بات تھی ، عمر بھر جو سمجھ نہ آسکی ۔ سر اٹھا کر میں نے دیکھا۔ سلسلہ در سلسلہ ، فلک پر پھول ہی پھول ۔ باغ ہی باغ ، ستارے ہی ستارے ۔ ارے او احمق ،و ہ خطاکاروں کا رب بھی ہے ، پارسائی سے اسے کیا لینا؟ حسنِ نیت ، اللہ اور بندے کے مابین ایک سادہ سی، سچی آشنائی کے سوا ، جو باطن میں جگمگاتی رہے ، آدم زاد سے اسے کیا لینا ؟ کیا وہ اسے جانتانہیں ؟ آواز دوست؟ جی ہاں یہی آواز دوست تھی ! آسمان پہ ستارے ہنسے اور خطاکار کے دل میں بھی .....ہنسے اور ہنستے ہی رہے ! خشک مغز و خشک تار و خشک پوست از کجامی آید ایں آواز دوست؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved