تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-11-2022

بس‘ اگلے پیر سے

انسان اور ٹال مٹول کا چولی دامن اور زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ دنیا کا پتا نہیں‘ ہمارا تو یہی معاملہ ہے۔ ٹال مٹول کو زندگی کا حصہ بنانے میں جس قدر دلچسپی ہم نے دکھائی ہے اور جتنے جوش و خروش کا مظاہرہ ہم نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ آج کا کام کل پر اور کل کا کام پرسوں پر ٹالنا ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ آج پورے ملک میں ایسے لوگ بہ کثرت ملیں گے جو کام کو ٹالتے رہنے کے عادی ہیں۔ کام تو سبھی کرتے ہیں مگر جو کچھ واقعی کرنا چاہیے اُسے ٹالتے رہنے میں زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ کسی سے پوچھیے کہ اہم ترین کام کو ٹالنے کی منطق کیا ہے تو وہ گونگا بن جائے گا یعنی کچھ بول ہی نہیں پائے گا۔ بولے کیسے؟ ایسا کرنے کی کوئی منطق ہو تو بیان بھی کی جائے۔ کوئی بھی قابلِ قبول دلائل کی مدد سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اہم ترین کام کو ٹالنے میں کوئی فائدہ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس کام کے کرنے میں کوئی فائدہ ہے ہی نہیں ایسا ہر کام بصد شوق کیا جارہا ہے!
کام کو ٹالتے رہنے کی نفسیات بھی خوب ہے۔ انسان اس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ کام کو ٹالنے سے ذہن پر سے بوجھ کم ہو جائے گا‘ کام آسان ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹالتے رہنے کی صورت میں تو کام کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور یوں ذہن پر دباؤ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو اس قدر الجھا دیتی ہے کہ پھر وہ ایسے کام بھی بمشکل کر پاتا ہے جو بظاہر آسان ہوتے ہیں اور جن کے لیے زیادہ غور و فکر اور محنت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
ٹال مٹول میں اگر تھوڑی سی سہولت ہے تو بس یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے سکون میسر ہوتا ہے کہ کام نہیں کرنا۔ یہ سکون کتنا مہنگا ثابت ہوتا ہے اس کا اندازہ کم ہی لوگوں کو ہو پاتا ہے۔ انسان مزاجاً آرام پسند ہی واقع ہوا ہے۔ محنت کرنے کے لیے اپنے آپ پر تھوڑا جبر کرنا پڑتا ہے۔ گنجائش ہو تو انسان عمل سے بھاگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو اپنی خوشی سے بہت زیادہ کام کریں بلکہ اپنی بساط سے بڑھ کر محنت کرتے ہوئے کام کا معیار بلند کرنے کے متمنی ہوں۔ کچھ پانے کی تمنا یا ملنے کی امید ہو تو انسان تھوڑی بہت محنت پھر بھی کر ہی لیتا ہے۔ بے لوث محنت کے لیے تو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔
ٹال مٹول کی نفسیات انسان کو بالآخر سہل پسندی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ سہل پسندی انسان کو وہ بھی نہیں کرنے دیتی جو وہ کر سکتا ہے۔ عام آدمی زندگی بھر محض خواب دیکھتا رہتا ہے کیونکہ خواب دیکھنے کے لیے کچھ دینا نہیں پڑتا۔ ساری محنت تو خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے پر کرنا پڑتی ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے لیے کم ہی لوگ تیار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں شخصی ارتقاء اور اُس سے جُڑے ہوئے موضوعات پر لکھنے اور بولنے والے اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے کل یا پرسوں کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کچھ کرنا ہے تو آج سے بلکہ ابھی سے شروع کیجیے۔ کام کو محض ایک دن کے لیے ٹالنے پر بھی بات آئی گئی سمجھیے‘ جس نے یہ عادت اپنائی اُسے صرف ناکامی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھا گیا ہے۔
وقت کو ہم بہت ظالم جانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ وقت کے وار ایسے ہیں کہ ہوتے تو ہیں مگر دکھائی نہیں دیتے۔ وقت کے دیے ہوئے زخم فوری دکھائی دیتے ہیں نہ محسوس ہوتے ہیں۔ موقع ہاتھ سے نکلتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وقت اپنا کام کرگیا ہے۔ کم و بیش ہر انسان زندگی بھر وقت سے کھلواڑ کرتا ہے اور جواباً وقت بھی اُس سے کھلواڑ کرتا ہے۔ کھلواڑ اور جوابی کھلواڑ کے اس کھیل میں وقت کا کچھ نہیں بگڑتا‘ وہ تو اپنی جگہ رہتا ہے مگر انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ ٹال مٹول کیا ہے؟ وقت سے کھلواڑ‘ اور کیا؟ جس نے وقت کو ضائع کیا اُس نے ثابت کیا کہ وہ زندگی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ جو وقت اور زندگی کے معاملے میں واقعی سنجیدہ ہوتے ہیں وہ کبھی‘ کسی بھی حال میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں نہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہی نہیں‘ سمجھتے بھی ہیں کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ موزوں ترین موقع پر کرنا ہے۔ وقت سے پہلے کچھ کیا جائے تو مطلوب نتائج پیدا نہیں ہوتے مگر موقع گزر جانے کے بعد کچھ کیا جائے تو سِرے سے کوئی نتیجہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جب کسی معاشرے میں مجموعی مزاج ہی ٹال مٹول سے آلودہ ہو جائے تو کسی بھی بڑی اور مثبت تبدیلی کا محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارا یہی تو کیس ہے۔ لوگ کام ٹالتے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کسی سے کچھ کرنے کو کہیے تو فوراً جواب ملتا ہے ''بس‘ اگلے پیر کو کروں گا‘‘ یا ''اگلے پیر سے شروع کروں گا‘‘۔ اگر اتوار کو کچھ کرنے کے لیے کہا جائے تو پیر والا جواب تھوڑا سا بنتا ہے کہ چلیے‘ ہفتہ وار تعطیل کے بعد سہی کام ہوگا تو سہی۔ مشکل یہ ہے کہ کسی کو منگل کے دن کچھ کرنے کو کہیے تو وہ بھی بات کو پیر تک ٹال دیتا ہے۔ سہل پسندی ایک آستانہ ہے اور ''بس‘ اگلے پیر سے‘‘ والا پیر سب کا پیر بنا بیٹھا ہے۔ ہر سہل پسند اس پیر کے قدم چُومنے کو بے تاب رہتا ہے۔ اور پیر کب آتا ہے؟ اتوار کے بعد! درست مگر وہ پیر کوئی اور ہے۔ ٹال مٹول والا پیر کبھی نہیں آتا۔ جسے کچھ کرنا ہی نہیں ہے اُس کے لیے کیا پیر اور کیا منگل۔ جو عمل کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے ہیں وہ پیر‘ منگل کچھ نہیں دیکھتے۔ اُنہیں تو صرف کام سے غرض ہوتی ہے۔ وہ کام کرتے جاتے ہیں اور کام ہوتا جاتا ہے۔ دنوں کا حساب جنہیں رکھنا ہے وہ رکھیں۔ کام کرنے والے دنوں کے حساب کتاب کے پھیر میں کم ہی پڑتے ہیں۔ عملی زندگی کا اپنا مزا اور ماحول ہے‘ جس نے یہ مزا چکھ لیا اور اس ماحول کا عادی ہوگیا وہ پھر کبھی سہل انگار نہیں ہو سکتا۔
قدرت کے اصول کبھی نہیں بدلتے۔ بدلتا ہوا وقت اُن پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ معاشرے کی ساخت اور نوعیت بھی قدرت کے اصولوں کو غیر متعلق ثابت نہیں کر سکتی۔ ہر عہد کے بنیادی تقاضوں میں عمل پسندی سرفہرست رہتی ہے۔ آج بھی معاملہ یہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے زندہ اور متحرک رہنے کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ عمل کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ کام سے بھاگنا اور اہم کاموں کو ٹالتے رہنا اگر قومی مزاج کا حصہ بن جائے تو سمجھ لیجیے اُس قوم پر ترقی و استحکام کے دروازے بند ہو چکے۔ ٹال مٹول کی عادت رفتہ رفتہ اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ باقی سب کچھ کچا رہ جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کی شخصیت کا پورا ڈھانچا صرف اور صرف عمل کی بنیاد پر کھڑا سمجھیے۔ عمل نہیں تو بنیاد نہ عمارت۔ اور عمارت کی تزئین و آرائش بھی عمل ہی کی بدولت ہوا کرتی ہے۔ ایسے میں تساہل کی گنجائش ہے نہ تذبذب کی۔ اور ٹال مٹول کی تو بالکل بھی نہیں۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہم ٹال مٹول کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ کام کو ٹالتے رہنے کی عادت نے پختہ ہوکر ہماری نفسی ساخت کے بنیادی جُز کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ عام آدمی کی زندگی ہو یا سرکاری مشینری کے معاملات‘ ہر جگہ صرف اور صرف ٹال مٹول کے درشن ہوتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ناگزیر نوعیت کے کاموں کو محض ٹالتے رہنے میں سُکون پانے کی روش پر ہم کب تک گامزن رہیں گے۔ ایک زمانہ عمل پسند رویے کو حرزِ جاں بناکر کامیاب ہو چکا اور ہم تاحال راہ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ عمل سے دور بھاگنے اور عمل کو ٹالتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا پائے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہر عہد میں دنیا صرف اُن کے لیے رہی ہے جو عمل کے معاملے میں حسّاس اور باشعور رہے ہوں۔ کام کو ٹالنے کی عادت سے پنڈ چھڑائے بغیر ہم حقیقی ترقی و خوش حالی کی سمت نہیں بڑھ سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved