دل کرتا ہے کہ مجہول سیاست اور سیاسی بازیگروں کی شعبدے بازیوں سے بچ بچا کر صرف ان مسائل پر بات کی جائے جن کا تعلق عوام اور صرف عوام سے ہے‘ مگر باوجود کوشش کے ہر بار ناکام رہتا ہوں‘ شاید اسی لیے کہ بات عوام کی ہو اور اس میں سیاست اور ریاست کا ذکر نہ آئے‘ یہ کیسے ممکن ہے۔ عوام کو لاحق خدشات سے لے کر مسائل تک سبھی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ نوحہ عوام کے مصائب کا ہو اور حکمرانوں کا ذکر نہ آئے‘ یہ ممکن ہی کہاں ہے۔ بے چارے عوام نے بھی کیا مقدر پایا ہے‘ ان کے نصیب میں کہیں مرچنٹ حکمران تو کہیں سیاست کو تجارت بنانے والے ہوں تو ان کی بد نصیبی کیسے ٹل سکتی ہے؟ ہوسِ زرّ کے ماروں نے اخلاقی قدروں سے لے کر سماجی انصاف سمیت نجانے کیا کچھ لیر ولیر کر ڈالا ہوتو ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اورآئین توڑنے والے خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت کیوں نہ سمجھیں۔سرکاری وسائل سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ ہو یا اقتدار کا بٹوارا‘ ملکی خزانے پر اقربا پروری ہو یا بندہ پروری‘ لمبا مال بنانے اور سرمائے کو چار چاند لگانے والوں نے ایسا ایسا شارٹ کٹ ایجاد کیا کہ پورا سسٹم ہی شارٹ کر ڈالا ہے۔ ہوسِ زر کے ماروں نے ایسا اندھیر مچایا کہ سب کچھ صاف صاف نظرآ رہا ہے۔ اقتدار اور اختیار کے زور پر کیسی کیسی انجینئرڈ واردات پون صدی سے جاری ہے۔
شارٹ کٹ میں بھی ایسا ایسا کٹ لگاتے ہیں کہ عقل حیران اور قانون و ضابطے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔کس کس کا نام لیں‘سبھی رنگے ہاتھوں کے ساتھ ہاتھ اور دامن صاف ہونے کے کیسے کیسے عذر اور ڈھکوسلے بیان کرتے ذرا بھی شرم اور جھجک محسوس نہیں کرتے۔ملک کے طول و عرض میں کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں حکمرانی جس کے ہتھے لگی ہو اور اس نے ملک و قوم کے ساتھ ہاتھ نہ کیا ہو‘اپنے وعدوں سے منحرف نہ ہوا ہو‘اپنے دعوؤں کے برعکس نہ نکلا ہو‘پیداواری عہدے رفقااور مصاحبین کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے ہوں‘سرچڑھے اورجھاکا اترے وزیروں اور سرکاری بابوؤں کی لوٹ مار کو حرام قرار دیا ہو‘استحکامِ اقتدار کے لیے مصلحتوں اور مجبوریوں کے سودے نہ کیے ہوں‘جنہیں چور‘ڈاکو کہہ کر پکارتے تھے ان کے در پے جاکر سیاسی تعاون کی بھیک نہ مانگی ہو‘عوام کو دکھائے گئے خوشحالی کے خواب نہ بیچے ہوں‘عوامی مینڈیٹ کی خرید وفروخت نہ کی ہو‘شوقِ اقتدار کی خاطر ضرورتوں کی دلالی نہ کی ہو‘مفادِ عامہ کے منصوبے باہمی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر مل بانٹ کر نہ کھایا ہو‘ گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تارتار نہ کیا ہو۔ ملک و قوم پر75 برس سے جاری مشقِ ستم کے سبھی ذمہ دار نسل درنسل سسٹم کو اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ باپ کی جگہ بیٹااور دادا کی جگہ پوتا اس دھرتی سے اپنا اپنا حصہ‘اپنی اپنی قیمت اور اپنا اپنا تاوان برابر وصول کیے جارہے ہیں۔کوئی چونچ سے کتر رہا ہے کوئی دانت سے کاٹ رہا ہے تو کوئی جبڑے سے بھنبھوڑ رہا ہے۔ان وارداتوں کی داستان اتنی طویل ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی کم پڑ جائیں۔
کالم ابھی ان وارداتوں ہی میں بھٹک رہا تھا کہ چند روز قبل ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر پتوکی قاسم محبوب کی ایک مبینہ آڈیونے کالم کا دھارا موڑنے کے علاوہ اعصاب اور نفسیات کے ساتھ ساتھ دل کا بھی کام تمام کرڈالا۔اسسٹنٹ کمشنر سے منسوب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ آڈیو حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں‘دونوں صورتوں میں کسی الارم سے ہرگز کم نہیں۔ انتہائی دکھ‘ پچھتاوے اور بے قرار دل کے ساتھ متوفی کی آڈیو کا متن من عن پیش کررہا ہوں جو صرف سمجھنے والوں کے لیے اشارہ اور نہ سمجھنے والوں کے لیے ناکارہ ہے۔ ''پتانہیں صحت خراب ہے یا کیا‘ میں تو کل پرسوں سے بلکہ تین چار دنوں سے اپنی اے سی شپ سے اکتایا ہوا ہوں۔I want peace in lifeکہ کوئی سکون والا ٹھکانا ہو۔ایک نامعلوم سی زندگی جسے کہتے ہیں۔کوئی ذمہ داری نہ ہو۔ذمہ داری سے مطلب یہ کہ آپ جو ذمہ داری ادا کر رہے ہیں وہ سو فیصد ہواورآپ مطمئن ہوں۔مجھے بڑا عجیب سا محسوس ہورہا ہے کہ شاید یہ اے سی شپ کہیں پکڑ کا باعث نہ ہو۔جب ہم مرجائیں گے۔قیامت آئے گی اورآپ سے ایک ایک چیز کا حساب لیا جائے گا۔کس کس چیز کاحساب ہم دیں گے۔اللہ خیر کرے لیکن پتانہیں کیوں پچھلے چارپانچ دن سے میں بہت زیادہ محسوس کررہا ہوں اس چیز کو۔ایک ایک چیز اور پتانہیں کتنے سارے لوگوں کا گناہ ہمارے اوپر ہے۔ثواب تو پتانہیں کتنا ہم کماتے ہیں۔چاہ رہا ہوں کہ چھوڑویہ اے سی شپ اور ڈی سی شپ اور یہ سارے ڈرامے۔کوئی ایسی جاب ہو سکون والی کہ بندہ صبح جائے اور شام کو گھر واپس آجائے اور اللہ اللہ خیر صلہ۔عجیب سی Situation ہے میں Explain نہیں کرپارہا ڈئیر۔‘‘گویا
مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہوگئی
گویا وہ اس کیفیت سے دوچار تھے کہ اس اہم سرکاری عہدے کو پاکر بھی غیر مطمئن اور پچھتاوے کا شکار تھے جو کسی بھی شخص کا خواب ہوتا ہے‘ لیکن اس خواب کی تعبیر پاکر بھی جو قیمت وہ چکا رہے تھے وہ ان کے دن کا چین اور رات کی نیند لوٹے ہوئے تھی۔ایسے میں مجھے اس مفلوک الحال شخص سے منسوب وہ کہانی یادآگئی جسے قریب المرگ بادشاہ نے اپنی متوقع قبر میں ایک رات گزارنے پرآدھی سلطنت دینے کی پیش کردی تھی لیکن اس فاقہ کش انسان نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر سلطنت لینے سے اس لئے انکار کردیا تھا کہ میں تو تمہاری قبر میں گزاری ہوئی گزشتہ رات کے دوران اپنے پالتو گدھے کا حساب نہ دے پایا سلطنت کا حساب کیسے دے پاؤں گا۔(گدھے کے حساب والی کہانی حالیہ کسی کالم میں تفصیلی بیان کرچکا ہوں)۔اللہ تعالیٰ قاسم محبوب کی مغفرت فرمائے اور ان کے تمام گناہوں کو بخش دے۔بے شک وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا غفورو رحیم ہے۔ربِ کائنات سے یہ بھی دعا ہے کہ اُن کی وہ خطائیں بھی معاف فرمائے جو انہوں نے کار ِسرکار کے دوران حکمرانوں اور افسرانِ بالا کی خوشنودی اور دباؤ میں اپنے قلم و زبان سے کیں۔مرحوم کواس گورکھ دھندے کا بخوبی علم ہوچکا تھا کہ بڑے عہدے پاؤں کی بیڑی اور گلے کا طوق بننے کے ساتھ ساتھ روزِ محشر بھی خسارے کا سودا کرنے والوں میں جاکھڑا کریں گے۔اسی لیے وہ اس جنجال سے بیزار اور فرار چاہتے تھے۔تاہم ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ سمجھنے والوں کے لیے کھلا اشارہ بھی ہے اور کھلا پیغام بھی۔گدھے کا حساب دینے میں ناکام انسان مخلوق پر حکمرانی کا حساب کیونکر دے پائے گا؟سدا بادشاہی رب کی ہے۔ کیسے کیسے ناگزیر چپ چاپ گزر گئے۔ قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہیں کے دم قدم سے ہے۔ اپنی اپنی اناؤں‘ خطاؤں میں گم یہ سارے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتاہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ اپنے عوام پر فاتح بن کر حکمرانی کرنے والے زمینی خداؤں سے کہاں کم تھے۔لیکن آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved