تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     22-11-2022

سرجری کا تازہ ترین معجزہ

''کنیز نے چاقو پکڑا اور اپنے گلے پر پھیر دیا۔ ہوا کی نالی کا ایک حصہ کٹ گیا۔ مجھے اس کے علاج کے لیے بلایا گیا۔ اس کے گلے سے ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسی جانور ذبح ہونے کے فوراً بعد نکالتا ہے۔ میں نے زخم کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ خون بہت کم مقدار میں نکلا ہے‘ کوئی شریان یا گردن کی ورید نہیں کٹی تھی؛ چنانچہ میں نے جلدی سے اس کا زخم سیا اور پھر اس کا علاج کرتا رہا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو گئی۔ صرف یہ ہوا کہ اس کی آواز بھاری ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ بالکل نارمل ہو گئی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ Laryngotomyکا عمل خطرناک نہیں ہے‘‘۔
یہ تحریر ابوالقاسم الزہراوی کی ہے جسے سرجری ( جراحی) کا بابا آدم سمجھا جاتا ہے۔ اندلس میں رہنے والے اس سرجن نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ''کتاب التصریف‘‘ 1000ء میں مکمل کی‘ جو تیس جلدوں میں تھی۔ یہ کتاب صدیوں تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ رہی۔
سرجری وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ کچھ ہونے لگا جس کا تصور بھی محال تھا۔ موتیا کے علاج کے لیے آنکھوں کی سرجری میں اب گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے جب کہ ایک زمانے میں مریضوں کو کئی کئی دن ہسپتال میں رہنا پڑتا تھا۔ دل کا بائی پاس ہونے لگا۔ آنکھوں‘ گردوں‘ جگر کی پیوندکاری عام ہو چکی ہے۔ جڑواں بچوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور دونوں صحت مند رہتے ہیں۔ شکاگو میں ایک اٹھاون سالہ خاتون کا حیرت انگیز آپریشن ہوا جو چار دن یعنی چھیانوے گھنٹے جاری رہا۔ اس کی بیضہ دانی میں گلٹی تھی جس کی وجہ سے خاتون کا وزن چھ سو سولہ پونڈ ہو گیا تھا۔ گلٹی نکالنے کے بعد وزن تین سو آٹھ پونڈ رہ گیا۔ سرجری کی طوالت کی بھی ایک وجہ تھی۔ گلٹی میں سے سیّال مادہ آہستہ آہستہ نکالا گیا تا کہ یکدم نکالنے سے دل نہ متاثر ہو۔ گلٹی سے دو سو پونڈ سیال مادہ نکلنے میں چار دن لگے۔ اس کے بعد گلٹی کا اخراج کیا گیا۔ گلٹی کا وزن ایک سو پچاس پونڈ تھا۔
1921ء میں ایک ڈاکٹر ( او نیل کین) نے کمال کردیا۔ اس نے اپنے اپنڈکس کی سرجری خود کی۔ اُس زمانے میں چھوٹے سے آپریشن کے لیے بھی پورا بے ہوش کرتے تھے۔ ڈاکٹر کین کا مؤقف تھا کہ صرف مقامی عضو کو سن کیا جائے۔ یعنی لوکل اِنیستھیزیا دیا جائے۔ اس نے اپنے آپ کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا۔ ساتھ آئینہ فِٹ کیا۔ دو تین ڈاکٹر احتیاطاً موجود تھے مگر اس نے اپنا آپریشن خود کیا! پھر جب وہ ستر سال کا ہوا تو اپنا ہرنیا کا آپریشن بھی اس نے خود کیا۔
اور تو اور‘ چہرے کی پیوند کاری بھی ہو رہی ہے۔ پیرس کے ایک ہسپتال میں سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر لارنٹ نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک شخص کے ہونٹوں‘ رخساروں‘ منہ اور ناک کی پیوندکاری کی گئی۔ ایک فرانسیسی خاتون کے چہرے کا نچلا حصہ کتے نے چبا ڈالا تو اس کے منہ‘ ناک اور ہونٹوں کی پیوندکاری کی گئی۔ ہیوسٹن میں ایک حاملہ خاتون کا الٹرا ساؤنڈ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ چھ ماہ کی بچی کی پشت کے نیچے رسولی بن رہی ہے جو چکوترے کے سائز کی تھی۔ اس میں کینسر کے آثار نہیں تھے مگر یہ خون کی سپلائی کو روک رہی تھی اور مہلک تھی۔ ڈاکٹروں نے عجیب و غریب سرجری کی۔ انہوں نے بچہ دانی کو خاتون کے جسم سے باہر نکال لیا۔ پھر بچی کے جسم کے اسی فیصد حصے کو بچہ دانی سے باہر نکالا۔ صرف سر اور بالائی حصہ اندر رہنے دیا۔ پھر رسولی نکالی اور کوشش کی کہ کم سے کم وقت میں سرجری مکمل ہو کیونکہ اگر بچی زیادہ دیر باہر ہوا میں رہی تو اس کا دل متاثر ہو گا۔ پھر بچی کو بچہ دانی میں ڈال کر بچہ دانی کو دوبارہ اپنی جگہ پر رکھا گیا۔ مقررہ وقت پر اس بچی کی ولادت ٹھیک ٹھاک ہوئی۔ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بچی دو بار پیدا ہوئی۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ سرجری کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ حیران کن معجزے برپا ہو رہے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رہنے والے بہت سے پاکستانیوں کے دماغ کی سرجری کی جا رہی ہے۔ یہ آپریشن‘ سرجری کی تاریخ کا سب سے زیادہ عجیب و غریب آپریشن ہے۔ اس میں کھوپڑی سر سے اتار لی جاتی ہے۔ اس کے بعد دماغ‘ بھیجے میں سے باہر نکال کر کوڑے کرکٹ کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ طوطے کا دماغ اندر فِٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان سوال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ پوچھ گچھ نہیں سکتا۔ وہی کچھ کہتا ہے جو اسے سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے۔ شروع میں صرف سیاسی پارٹیوں کے ارکان نے یہ سرجری کرائی۔ پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور جے یو آئی کے ارکان سرجری کا یہ عمل کرانے میں سر فہرست تھے۔ سرجری کے بعد وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ اپنے اپنے رہنماؤں سے کچھ پوچھ سکیں۔ مثلاً زرداری صاحب صرف بلاول کو وزیراعظم بنتا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ بھٹو خاندان یا زرداری خاندان سے باہر کا کوئی فرد پارٹی کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ ان خاندانوں کے پاس بے تحاشا دولت کہاں سے آئی؟ میاں صاحب کا اصلی وطن لندن ہے یا لاہور؟ لندن کے یہ فلیٹ ان کی ملکیت میں کیسے آئے؟ کیا ان کی دختر نیک اختر اور بھائی کے علاوہ کوئی اس قابل نہیں کہ پارٹی کی قیادت کر سکے؟ وہ کب تک لندن میں رہیں گے؟ پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ کیا مولانا اسعد محمود کے علاوہ پوری جے یو آئی میں مرکزی وزارت کا اہل کوئی نہ تھا؟
رہی تحریک انصاف تو اس سے وابستہ لاکھوں افراد نے دماغ کی یہ سرجری کرائی ہے۔ اس میں نوجوانوں کی تعداد خاصی ہے۔ یہ لاکھوں نوجوان‘ ملک کے اندر اور باہر‘ اپنی پارٹی کے تاریخ ساز قائد سے کسی صورت نہیں پوچھ سکتے کہ آپ اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے کر معترضین کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کیوں نہیں کر دیتے؟ عثمان بزدار کو آپ کی خدمت میں سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا؟ کیا وہ گجر صاحب بنفس نفیس خود نہیں تھے؟ کیا یہ تعیناتی میرٹ پر تھی؟ پاکپتن واقعہ کے بعد جب اعلیٰ پولیس افسر کو چیف منسٹر کے ہاں بلایا گیا تو اس سے سوال جواب گجر صاحب نے کیوں کیے تھے؟ پارٹی کے انقلابی قائد نے اس شرمناک صورت حال پر ایکشن کیوں نہ لیا؟ کیا یہ سچ ہے کہ تاریخ ساز قائد کو گھڑیوں کی فروخت کا علم فروخت کے چار ماہ بعد ہوا؟ کون سی مجبوری تھی کہ امریکہ جانے کے لیے ایم بی ایس سے جہاز کی گداگری کی گئی؟ جس جرم میں دوسروں کے گھر گرا ئے گئے اسی جرم میں قائدِ تحریک کے تین سو کنال والے گھرکو بارہ لاکھ روپے کے عوض قانونی حیثیت کیوں دے دی گئی؟ حکومت کے دوران اختیارات نہیں تھے تو حکومت پر لات مار کر عوام کو اسی وقت حقیقتِ حال سے آگاہ کیوں نہ کیا؟ کیا دنیا کے کسی جمہوری ملک کی کابینہ سے بند لفافے کے نا دیدہ مندرجات منظور کرائے جانے کی مثال موجود ہے؟ مشہور پراپرٹی ٹائیکون سے سینکڑوں کنال زمین مفت کیوں لی گئی؟ اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو کوئی نہیں پوچھ سکتا!
سائنس کے‘ خاص طور پر سرجری کے عجائبات کی کوئی حد نہیں! اور اس تازہ ترین معجزے کا تو جواب ہی نہیں! اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے اس کا خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved