چند دن پیشتر یوں دکھائی دیتا تھا کہ شام پر کسی وقت بھی امریکہ کا حملہ ہو سکتا ہے۔لیکن ہفتہ کے روز صدر باراک اوباما نے اعلان کیا کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے امریکی کانگرس کی منظوری حاصل کریں گے۔اس اعلان سے شام پر امریکہ کے فوری حملے کا خطرہ تو ٹل گیا ہے،تاہم اسے مکمل طورپر خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیوںکہ کانگرس میں دونوںپارٹیوں یعنی ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران کی اکثریت شام کے خلاف امریکی اقدام کی حامی ہے۔صدر اوباما نے شام پر حملے کا اختیار حاصل کرنے کیلئے قرارداد کا مسودہ کانگرس کو بھجوادیا ہے جس پر سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی منگل کے روز سے بحث کا آغاز کرے گی۔حتمی فیصلہ 9ستمبر سے قبل متوقع نہیں۔ امریکہ کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر اوبامہ کانگرس کی اجازت کے بغیر بھی فوجی اقدام کر سکتے ہیں۔ماضی میں جب امریکہ نے کوریا،ویت نام، پانامہ،کریبین آئی لینڈاور کوسوومیں فوجی ایکشن کا فیصلہ کیا تھا،تو کانگرس کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔لیکن1973ء میں صدر نکسن کے زمانے میں کانگرس نے امریکی صدر کے ان اختیارات کو محدود کرنے کیلئے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت امریکی صدر کیلئے لازمی ہے کہ وہ کسی ملک پر فوج کشی سے48گھنٹے پہلے کانگرس کو اطلاع دے اور کوئی ملٹری ایکشن کانگرس کی رضامندی کے بغیر90دن سے زیادہ جاری نہیں رہ سکتا۔اس قانون کا سہارا لے کر170اراکین ِ کانگرس جن میں صدر اوباما کی اپنی ڈیموکریٹک اورری پبلیکن پارٹی کے ارکان شامل ہیں،نے صدر اوبامہ کے نام خط میںمطالبہ کیا تھا کہ وہ شام پر حملہ سے پہلے کانگرس سے اختیار حاصل کریں۔کانگرس کی طرف سے اس مطالبے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کانگرس شام پر حملے کے خلاف ہے۔بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ممبران جنہوں نے عراق پر سابق صدر بْش کی طرف سے حملے کی مخالفت کی تھی،وہ شام پر امریکی حملے کی حمایت کر رہے ہیں۔ری پبلیکن پارٹی کے جن انتہائی قدامت پسند ارکان کی طرف سے صدر اوباما کے یک طرفہ فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے،اْس کی بنیاد شام کے خلاف اقدام کی مخالفت نہیں بلکہ صدر اوباما کی طرف اْن کا روایتی معاندانہ رویہ ہے جس کے تحت اْنہوں نے اوباما کے ہر اقدام کی مخالفت کی قسم کھارکھی ہے۔لیکن اس کے باوجود بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگرس کی طرف سے صدر اوباما کو شام پر حملہ کرنے کا اختیار دے دیاجائے گا۔ حملے کے اختیار کے لیے وائٹ ہائوس نے کانگرس کے سامنے قرارداد کا جو مسودہ رکھا ہے،اْس میں اس بات کا کوئی ذکرنہیں کہ یہ حملہ کب کیا جائے گا۔صرف شام کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت مانگی ہے تاکہ صدر بشارالاسد کی حکومت کو کیمیائی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں(Weapons of Mass Destruction) کے دوبارہ استعمال اور اس کے نتیجے میں ان ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلائو(Proliferation)کو روکا جائے کیوں کہ اوباما کے مطابق ان ہتھیاروں کا استعمال انسانیت کے خلاف جْرم ہی نہیں بلکہ انہیں اگرنہ روکا گیا تو اس سے نہ صرف امریکہ بلکہ اْس کے اتحادیوں کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس قرارداد میں تقریباََ وہی زبان استعمال کی گئی ہے جو صدر بْش نے عراق پر امریکی حملے کے جواز میں استعمال کی تھی۔ دْنیا کی ڈپلو میٹک ہسٹری میں منافقت اور دوغلی پالیسی کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کوئی اور ہوگی۔یہ وہی امریکہ ہے جس نے ایران۔عراق جنگ میں صدام حسین کو ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار کے استعمال پر اْکسایاتھا۔ خود امریکہ نے دس برس طویل ویت نام جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔جب اسرائیل عربوں کے خلاف جنگ میں فاسفورس اور دیگر ممنوعہ ہتھیار استعمال کرتا ہے تو امریکہ خاموش رہتا ہے۔لیکن عراق پر حملے کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیمیائی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنایا گیا۔اب شام پر حملہ کرنے کی غرض سے شامی فوج کی طرف سے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بطور بہانہ تراشا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ تین سال سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کی آمرانہ اور شخصی حکومت نے باغیوں کے خلاف بے دریغ طاقت استعمال کر کے شہروں کوکھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔اب تک اس جنگ میں ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیںاور اس سے دس گْنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یعنی اْردن اور ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔پھر بھی بشارالاسدعوام کے سامنے جھکنے اور اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی90فیصد ذمہ داری بشارالاسد کی حکومت پر عائد ہوتی ہے،لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ کسی بیرونی طاقت کو اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کیلئے شام کے اندرونی معاملات میںمداخلت یا کھلم کھلاحملہ کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہی صدر اوباما جو عراق پر امریکی حملے کو ایک غلطی قرار دے چْکے ہیں اور امریکی افواج کی مخالفت کے باوجودافغانستان سے امریکی انخلاء پر عمل کر رہے ہیں،شام پر حملہ کیلئے پر تول رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف صدر بشارالاسد کی حکومت پر دبائو کا ایک حصہ ہے اور کانگرس کی طرف سے رجوع کرکے امریکی صدر نے شام پر حملے میں جو مبینہ طور پر ایک ہفتے کی توسیع کی ہے اس کی غرض بھی یہی ہے کہ اس وقفہ کے دوران شامی صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کیلئے مزید سفارتی دبائو ڈالا جاسکے۔لیکن بیشتر مبصرین کی رائے میں شام پر امریکی حملے کا حقیقی امکان ہے کیوں کہ اس کیلئے صدر اوباما پر مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب جیسے امریکی اتحادیوں کی طرف سے سخت دبائو ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار باغی فوج پر القاعدہ کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے پر القاعدہ کے حامی انتہا پسند عناصر شام میں برسرِاقتدار آجائیںگے۔یہ صورتِ حال صرف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کیلئے ہی نہیںبلکہ خود امریکہ کیلئے بھی ناقابلِ قبول ہے۔شام جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نہایت ہی اہم ملک ہے۔ اس کی سرحدیں ترکی،لبنان،اسرائیل،اْردن اور عراق سے ملتی ہیں۔اس لیے شام میں اسلامی بنیاد پرستوں کی حکومت ان تمام ممالک کیلئے تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔امریکہ کو اس سلسلے میں صرف اسرائیل کی سلامتی کے بارے میں تشویش نہیں،بلکہ وہ بشارالاسد کی موجودہ ایران نواز حکومت کو ختم کر کے ایران کو بھی مشرقِ وسطیٰ میں اْس کے ایک اتحادی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ کو مشرقِ وسطی میں سیاسی اور سفارتی محاذوں پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے،اْس کی تلافی کیلئے بھی امریکہ بشارالاسد کی حکومت کو ختم کر کے اور شام کے مسئلے کا اپنی مرضی کے مطابق حل نکال کر کھویا ہوا اثرورسوخ بحال کرنا چاہتا ہے۔اب تک اس حملے کے راستے میں جو رکاوٹ چلی آرہی ہے وہ یہ خوف ہے کہ یہ حملہ افغانستان کی طرح امریکہ کے گلے نہ پڑجائے جس سے بعد میں جان چھڑانا مشکل ہو۔اسی خوف کے تحت کانگرس نے صدر اوباما کو شام پر حملے کے تمام مضمرات اور نتائج سے آگاہ کرنے اور اْسے حملے کی افادیت اور ضرورت پر قائل کرنے کی درخواست کی ہے۔امریکی میڈیاکے مطابق صدر اوبامہ نے اب گیند کانگرس کی کورٹ میں پھینک دیا ہے۔اگرچہ حملہ کانگرس کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر بھی ہو سکتا ہے،تاہم حملہ کرنے یا نہ کرنے کی ذمہ داری اب اکیلے صدر اوباما پر نہیں ہوگی۔بلکہ امریکی کانگرس بھی اس میں برابر کی شریک ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved