تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     22-11-2022

خیر خواہوں کا مشورہ

نئے آرمی چیف کے نام پر اتفاق کے لیے حکومت‘ مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان در پردہ روابط کی اطلاعات ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بیک ڈور ہونے والے رابطے کامیاب ہوئے ہیں۔ تمام شراکت داروں کا اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ صرف وزیراعظم کی طرف سے اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے۔ تقرری سینیارٹی کے اصول کے مطابق کی جا رہی ہے۔ شنید ہے کہ صدرِ مملکت کی طرف سے سمری پر کسی ممکنہ رکاوٹ کے خدشے کے پیشِ نظر حکومت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خصوصی پیغام دے کر صدرِ مملکت کے پاس بھیجا تھا جس کے بعد یہ رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ پہلے اطلاعات تھیں کہ وزارتِ دفاع کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری کی سمری وزیراعظم ہاؤس کو موصول ہو چکی ہے لیکن بعد میں وزیر دفاع نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایسی کوئی سمری وزیراعظم ہائوس کو ارسال نہیں کی گئی۔ خان صاحب کو ان کے خیر خواہوں نے نئی عسکری قیادت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کے بعد خان صاحب کے رویے میں تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس لیے اب عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین نئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازع پیدا کریں گے اور نہ ہی وزیراعظم شہباز شریف کے ذریعے ہونے والی آرمی چیف کی تقرری پر صدر عارف علوی کوئی رکاوٹ ڈالیں گے۔ اُدھر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اپنی حکومت گرانے اور خود پر قاتلانہ حملے کا الزام مقتدرہ پر عائد نہیں کیا ہے۔چودھری پرویز الٰہی یہ بات عمران خان کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مان لیتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کی سازش کے پیچھے مقتدرہ کا ہاتھ نہیں تھا لیکن اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور اس سازش کو روکنا چاہیے تھا کیونکہ وہ کرپٹ اور لٹیروں کی اصلیت سے واقف ہیں۔ اس سے قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ صدر مملکت نئے آرمی چیف کی تقرری کے عمل میں رکاوٹ نہیں بنیں گے لیکن اگر ایسا ہوا تو اُن کا مواخذہ ہو سکتا ہے۔ وزیرخارجہ کے بیان کے بعد لگا جیسے حکومت صدرِ مملکت کو ہٹانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ بلاول بھٹو کا انتباہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے‘ اب بھی صدر کا مواخذہ بہت مشکل ہے۔ صدر کا مواخذہ اسی صورت ممکن ہے جب طاقتور پھر سے اپنا غیر سیاسی چوغہ اتار کر سیاسی چوغہ زیب تن کر لیں اور ممبران کو ایک ہی طرف ہنکا کر لنکا ڈھا دیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ڈی ایم اور پی پی پی کا یہ بیانیہ کہ ہم نے اہم حلقوں کو غیر سیاسی ہونے پہ راضی کر لیا ہے‘ دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے گا۔ بلاول نے اگر یہ بیان اپنے والد آصف زرداری کے کہنے پہ دیا ہے تو پھر یہ ایک سنجیدہ بیان ہو سکتا ہے اور اس سے چند پہلو بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو بھی نام اس اہم تقرری کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہ مقتدرہ کی سفارش پہ ہی کیا گیا ہوگا۔ دوم یہ کہ صدر آرمی چیف کی تقرری کی سمری روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ کچھ روز تک آرمی چیف کا عہدہ خالی رہے گا‘ جو ایک خوفناک صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ سوم یہ کہ اس صورتِ حال کا حل یا تو دھونس ہے یا غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کی دعوت دینا‘ جو یقینا بلاول بھٹو کے انتباہ کا مقصد نہیں ہو سکتا۔
دوسری طرف جہاں تک پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ لانگ مارچ راولپنڈی تک محدود نہیں رہے گا۔ وہ آگے بڑھے گا اور آگے راستہ دو شاخہ ہے۔ ایک طرف مقتدر حلقے ہیں۔ میرے خیال میں تحریک انصاف ان حالات میں وہاں کا رُخ نہیں کرے گی۔ دوسری طرف وہ ایوانِ اقتدار ہے جس کا وزیر داخلہ تازہ دم ہو کر ہسپتال سے حال ہی میں واپس آیا ہے۔ ریڈ زون کی خلاف ورزی یہ لوگ نہیں کریں گے؛ تاہم اسلام آباد کو مفلوج کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو نظام انصاف ضرور متحرک ہو گا کیونکہ وہ انہیں شہریوں کے راستے روکنے سے منع کر چکا ہے۔
اگر حکومت فوری طور پر نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیتی ہے تو خان صاحب کا منصوبہ چوپٹ ہو کر رہ جائے گا کیونکہ لانگ مارچ کے راولپنڈی میں پہنچنے کی تاریخ 26 نومبر بتائی گئی ہے۔ خان صاحب اگر طے شدہ پروگرام کے مطابق چلتے رہتے ہیں تو راولپنڈی میں وہ بڑا شو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ راولپنڈی گنجان آباد شہر ہے جہاں روٹین میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے تو جب چند ہزار اضافی گاڑیاں شہر میں داخل ہوں گی تو صورتحال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ پنڈی میں پنجاب حکومت بھی سپورٹ کرے گی اور بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ شنید ہے کہ خان صاحب پنڈی میں بڑا شو کرنے کے بعد فیض آباد میں دھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آرمی چیف کی تقرری سے پہلے خان صاحب اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کا آخری منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو کوئی حتمی پروگرام نہ بتانے کے پس پردہ بھی یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کے پاس قیادت کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے؛ تاہم وہ بڑی مہارت سے سسپنس کو قائم رکھے ہوئے ہیں تاکہ قیادت اور کارکنان ان کے ساتھ جڑے رہیں۔ تحریک انصاف قیادت تذبذب کا شکار ہے کہ فیض آباد پہنچنے کے بعد دھرنا کتنے روز جاری رہے گا اور ایجنڈا کیا ہوگا؟ تحریک انصاف کی قیادت کی تشویش کی وجہ وہ کارکنان ہیں جنہیں وہ اپنے اپنے حلقوں سے مختصر دورانیے کا کہہ کر اسلام آباد لائی ہے‘ جن کا مکمل خرچ متعلقہ حلقے کے نمائندے اٹھا رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد کا موسم سرد ہو چکا ہے بالخصوص راتیں کافی ٹھنڈی ہوتی ہیں‘ کھلے آسمان تلے ہزاروں کارکنان کو ٹھہرانا آسان نہیں ہو گا۔
خان صاحب نے 26نومبر کو سرپرائز دینے کا اعلان بھی کیا ہے‘ ماضی میں وہ کئی سرپرائز دینے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن جب کارکنان کے سامنے بات آتی ہے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ 2014 ء کے دھرنے میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اگلے روز اپنی زندگی کی اہم تقریر کرنے والے ہیں جس میں اہم اعلان کریں گے‘ کارکنان اور تحریک انصاف کی قیادت اور میڈیا سمیت تمام حلقوں کو جستجو رہی کہ خان صاحب کیا اعلان کرنے والے ہیں‘ جب اعلان ہوا تو سٹیج پر بجلی کے بلوں کو جلا دیا گیا جس سے تاثر قائم ہوا کہ خان صاحب لوگوں کو سول نافرمانی پر ابھار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی مثالیں ایسی موجود ہیں کہ خان صاحب اہم بات کا دعویٰ کرکے روٹین کی گفتگو سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اب خان صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ جسے مرضی آرمی چیف لگا لیں‘ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ خان صاحب اندرونِ خانہ طے پانے والے معاملے کا حصہ تھے اور اس بارے کچھ کہنا نہیں چاہتے ہیں یا پھر بات ان کی دسترس سے نکل چکی ہے۔ اب خان صاحب نئے انتخابات کا بیانیہ شدومد سے دہرائیں گے تاکہ دوسرا مقصد پورا کیا جا سکے۔ آخری نتیجے کے طور پہ‘ بقول منو بھائی :
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
29 تاریخ کو نیا چیف آ جائے گا اور حقیقی آزادی لانگ مارچ کسی منطقی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved