اشیش کھیتان (Ashish Khetan) نے اپنی کتاب ''Undercover: My Journey into the Darkness of Hindutva‘‘ میں نریندر مودی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس سمیت بھارت کی جڑوں تک میں سرایت کر جانے والی ہندو انتہا پسندی کے چہرے سے نقاب الٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس کتاب نے نہ صرف انتہا پسند بھارتی معاشرے بلکہ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کو بھی پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ سیکولرازم کو اپنی شناخت بتانے والے بھارت کی درجن سے زائد انتہا پسند نیم عسکری اور مذہبی تنظیموں کے ساتھ کئی کئی ماہ کام کرنے کے بعد حاصل ہونے والے مشاہدات اور پنسل کیمرے اور بٹن نما خفیہ کیمروں کے ذریعے انتہا پسندوں کی وڈیوز بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ ان انٹرویوز میں انتہا پسند لیڈر آپس میں ایک دوسرے کو بڑے فخر سے مسلمانوں اور دَلتوں کو قتل کرنے‘ ان کی خواتین کے اجتماعی ریپ اور املاک لوٹنے پر مبنی کارنامے سناتے ملتے ہیں۔ وڈیوز اور آڈیوز کی ریکارڈنگز‘ جو کتاب کا حصہ ہیں‘ میں بھارتی سوسائٹی کے غیر ہندوئوں‘ جن میں سکھ‘ مسلم‘ دلت‘ بدھ اور عیسائی شامل ہیں‘ کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و بربریت کا وہ رخ سامنے آیا ہے کہ انسانیت منہ چھپائے پھرتی ہے۔ وحشیانہ بربریت کے شرمناک واقعات کو اپنے کارنامے بنا کر پیش کرتے ہوئے ہندوتوا کا وہ خوفناک چہرہ دنیا بھر کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا کہ جس سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اشیش کھیتان نے تو جو دیکھا وہ لکھ کر اور عوام کے سامنے لا کر اپنا فرض ادا کر دیا لیکن وہ شاید یہ نہیں جان سکے کہ بھارت میں اب انصاف اور قانون بھی ہندوتوا کے بھائو بکنا شروع ہو چکا ہے اور اس حوالے سے لوئر کورٹس سے بھارتی سپریم کورٹ تک وہی سسٹم چل رہا ہے‘ وہی آئین لاگو ہوتا ہے‘ جو انتہا پسند یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر امیت شاہ اور آر ایس ایس کی کتابوں اور ان کے لیڈران کی زبانوں پر ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اب آئین اور قانون کی نہیں بلکہ نریندر مودی کے اقتدار اور ہندوتوا کی محافظ بن چکی ہے۔ دور نہ جائیے‘ جسٹس اشوک بھوشن کی مثال لے لیجئے جس نے بابری مسجد اور صابری کیس کے بدنام زمانہ مذہبی عصبیت سے بھرپور فیصلے دیے۔ جسٹس ایم آر شاہ‘ جس کی بیس سالہ پریکٹس گجرات میں تھی‘ اسے براہِ راست سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا کیونکہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بنیادی رکن تھا۔ جسٹس سبھاش ریڈی کو فروری 2016ء میں سپریم کورٹ میں لے جایا گیا جو آر ایس ایس کا ضلعی صدر رہا ہے اور جس نے Unlawful Activities (Prevention) Act جیسے کالے قانون کو جائز قرار دیتے ہوئے غلامی کے دور کی یاد تازہ کر دی۔
اشیش کھیتان کی کتاب ''انڈر کور‘‘ میں وہ ساری کہانی بیان کی گئی ہے کہ گودھرا (گجرات) فسادات میں اس وقت کے مسلم ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کو کس بیدردی اور درندگی سے قتل کیا گیا تھا۔ جن جن لوگوں نے احسان جعفری اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا‘ انہی قاتلوں کی زبان سے ادا کیے گئے فقروں اور واقعات کو ان کے ذاتی بیانات کی روشنی میں جس طرح کتاب میں بیان کیا گیا ہے‘ اس سے خون آشام بھیڑیوں کا سا تاثر ابھرتا ہے جو ہندوتوا کی آڑ میں بھارت کے انسانی معاشرے میں سرگرم ہیں۔ انڈر کور میں ہولناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کس طرح پہلے احسان جعفری کے ہاتھ کاٹے گئے‘ پھر پائوں کاٹے گئے‘ پھر ان کی گردن کاٹ کر پھینکی گئی‘ ان کے بدن کے ٹکڑے کیے گئے اور پھر ان سب کو آگ لگا دی گئی۔ احسان جعفری کی 74 سالہ بیوہ ذکیہ جعفری نے یہ کہتے ہوئے احمد آباد کی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی تھی کہ گجرات کے (اس وقت کے) وزیراعلیٰ نریندر مودی ان فسادات میں ہلاک اور جلائے گئے سینکڑوں مسلمانوں کے قتل عام میں براہِ راست ملوث ہیں لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ بی جے گنترا نے مودی کو ناکافی ثبوت کا بہانہ تراشتے ہوئے بری کر دیا۔ اس سے پہلے گجرات کے قتل عام سے متعلق ایک اور فیصلہ بھی سامنے آیا تھا جب 2 مارچ 2011ء کی صبح سبرمتی جیل میں احمد آباد کی سپیشل کورٹ کے جج پی آر پٹیل نے 27 فروری 2002ء کو گودھرا میں سبرمتی ایکسپریس کی بوگی نمبر S-6 کو آگ لگا کر اس میں سوار وشوا ہندو پریشد کے 59 کارکنوں کی ہلاکت کے مشہور مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے گیارہ مسلمانوں کو سزائے موت اور بیس کو عمر قید کی سزا سنانے میں ایک پل بھی نہ لگایا تھا لیکن دوسری طرف انصاف کا ماتم دیکھئے کہ گودھرا میں ٹرین کی ایک بوگی جلانے کے واقعے کا الزام مسلمانوں پر لگاتے ہوئے چند گھنٹوں بعد ہی گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی کی زیر کمان بھارتی پولیس اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہاتھوں دو ہزار سے زائد مسلمان مردوں‘ بچوں‘ عورتوں اور بو ڑھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ ان فسادات میں ایک بیکری میں پناہ لیے ہوئے 68 مسلمانوں کو زندہ جلانے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ بیکری میں پناہ لیے ہوئے مسلمان بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا مگر جن کے پیارے قتل ہوئے‘ انہیں ہی گودھرا ٹرین کا مجرم ٹھہرا کر سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ''بیسٹ بیکری‘‘ میں چھپے ستر کے قریب مسلمانوں کو کس طرح جلا کر راکھ کا ڈھیر بنایا گیا‘ اس کا ایک ایک پہلو اشیش کھیتان نے اپنی کتاب میں اس طرح کھول کر رکھ دیا ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد اور گجرات ہائیکورٹ سے لے کر بھارت کی سپریم کورٹ تک کے فیصلوں پر دنیا بھر میں قانون کا ہر طالب علم سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ شاید بھارت میں اب نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی عدالت۔ سبرمتی ایکسپریس‘ جس کی آڑ میں گودھرا میں فسادات کراتے ہوئے مودی کو انتہا پسند ہندو لیڈر کے طور پر سامنے لاکر وزیر اعظم منتخب کرایا گیا‘ آج اس کی ایک ایک تفصیل انڈر کور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کتاب میں اشیش کھیتان نے قاتلوں اور مقتولوں کے چہرے پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیے ہیں۔ اس کتاب کی ابھی تک کسی بھی جگہ سے تردید نہیں کی گئی‘ اس لیے دیکھا جائے تو یہ نریندر مودی کے خلاف ایک باقاعدہ چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ عالمی عدالتوں میں گجرات کے واقعات پر نریندر مودی کے خلاف ایک ''بُچر‘‘ کی حیثیت سے مقدمہ چلانا ہو گا‘ بالکل اسی طرح جیسے جرمنی اور بوسنیا میں قتلِ عام کرنے والے سفاک جرنیلوں پر مقدمات چلا کر انہیں سخت ترین سزائیں دی گئی تھیں۔
بھارت کی وزارتِ ریلوے کی طرف سے فراہم کیے گئے ریکارڈ کے مطابق سبرمتی ایکسپریس کی بوگیS-6 میں 59 مسافروں کی ریزرویشن تھی۔ تین مسافروں نے اپنی بکنگ منسوخ کرا دی اور چار مسافر بر وقت ٹرین پر سوار نہ ہو سکے اس طرح 72 مسافروں کی گنجائش والے اس کمپارٹمنٹ میں سوار مسافروں کی کل تعداد 52 رہ جاتی ہے۔ ریزرویشن کرانے والے 32 مسافر زندہ سلامت اپنی منزلوں پر پہنچے۔ اب باقی صرف بیس مسافر رہ جاتے ہیں۔ وزارتِ ریلوے کے ریکارڈ کے مطابق ٹرین کی بوگی میں آگ لگنے سے چار افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے جبکہ باقی لاپتا ہیں۔ اگر لاپتا افراد کو بھی ہلاک شدگان میں شامل کر لیا جائے تو مبینہ طور پر بوگی حادثے میں 13 افراد ہلاک ہوئے مگر گجرات پولیس مصر ہے کہ بوگی میں وشوا ہندو پریشد کے 59 کارکن ہلاک ہوئے۔ اسی بوگی میں سوار ایک ریٹائرڈ فوجی گوندسن رتنائش پانڈے نے عدالتی کمیشن کو بیان ریکارڈ کرایا تھا کہ وہ لکھنو سے احمد آباد کیلئے متعلقہ بوگی میں سوار ہوا‘ ایودھیا سے بجرنگ دَل کے لوگ ٹرین پر سوار ہوئے اور بوگی میں یکدم 250 لوگ بھر گئے۔ بجرنگ دَل کے کارکنان ہر سٹیشن پر سٹالوں سے اشیا چھینتے اور مسافروں سے بدتمیزی کرتے۔ کئی افراد کے ہاتھوں میں لوگان تھے جس سے بوگی کے مسافروں کے سامان کو آگ لگی۔ اس بیان کی تصدیق سبرمتی ایکسپریس ٹرین کے گارڈ ستیا نارائن ورما کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ گاڑی کو 7:55 پر اندر سے زنجیر کھینچ کر روکا گیا جس کی رپورٹ کتاب میں درج ہے۔ انڈر کور کے مصنف نے اپنی جان پر کھیل کر گجرات کے دنگوں میں حصہ لینے والے افراد کے جو خفیہ انٹرویوز کیے‘ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ گودھرا ایکسپریس حادثہ مسلمانوں کے بلیدان کا بہانہ تھا اور اصل مقصد نریندر مودی کی تاج پوشی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved