پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث بنی ہوئی ہے، جمہوریت کے علمبردار بات بات میں عدلیہ اور دیگر قومی اداروں کو ملوث کر رہے ہیں۔ ہر جماعت اور ہر سیاستدان کی یہی خواہش نظر آتی ہے کہ وہ جو چاہے اور جوکرے‘ تمام ادارے اس کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کریں اور اس کے مخالفین جوکچھ بھی کرنا چاہیں‘ قومی ادارے ان کی راہ میں حائل ہو جائیں‘ خواہ ان کا کام یا مطالبہ قانونی و آئینی ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی سیاسی مخالفین کے ہاتھ پائوں باندھ دیے جائیں۔ یہ سوچ اور خواہش تقریباً ہر پاکستانی سیاستدان کی ہے۔ سبھی یہ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں انہیں مکمل فری ہینڈ دیا جائے لیکن اپوزیشن کو کچل کر رکھ دیا جائے۔ ویسے بھی ایک عام روایت بن چکی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے تو وہ اداروں کے گن گاتی ہے اور یہ تاثر دیتی ہے کہ مقتدر حکام ایک صفحے پر ہیں لیکن جو پارٹی اقتدار سے محروم ہو جائے یا الیکشن میں شکست کھا جائے‘ وہ سارے الزامات کا رخ قومی اداروں کی طرف کر دیتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ گزشتہ دو ادوار کے دوران حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات اور ان کے طرزِ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جواب مذکورہ بالا ہی ملے گا۔ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، میاں محمد نواز شریف وزیراعظم تھے تو انہیں اداروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی، ان کے دورِ حکومت میں عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف اور ڈاکٹرطاہر القادری کی زیر قیادت پاکستان عوامی تحریک نے طویل احتجاجی دھرنے دیے اور ''امپائر‘‘ سے انگلی اٹھانے یعنی حکومت کو آئوٹ کرنے کا مطالبہ دہراتے رہے لیکن ایک سو چھبیس ایام کے طویل دھرنے کے باوجود امپائر نے نیوٹرل ہونے کا ثبوت دیا اور مظاہرین کو خالی ہاتھ گھر جانا پڑا۔ اس وقت لیگی حکومت اور اداروں کے ایک پیج پر ہونے کے دعوے سامنے آتے رہے لیکن بعد ازاں جب میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ سے پاناما کیس میں نااہل ہوئے تو انہوں نے مزاحمت کا اظہار کرتے ہوئے ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کہتے کہتے اپنے الزامات کا رخ مقتدرہ کی طرف موڑ دیا۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور پارٹی کے دیگر رہنما اپنے جلسوں میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے نام لے کر اداروں اور شخصیات کو ہدفِ تنقید بناتے رہے جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے اتحادی اس صورتحال کو انجوائے کرتے رہے۔
گزشتہ عام انتخابات کچھ ایسے ہی ماحول میں ہوئے جس پر پی ٹی آئی کے سوا دیگر سبھی جماعتوں کو شکوے ہی رہے، شاید اس کی وجہ انہیں مرضی کی سپورٹ نہ ملنا تھی۔ پھر پاکستان تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنا لی تو ہر موقع پر اداروں کے ساتھ مکمل انڈر سٹینڈنگ کی بات کی جاتی رہی اور دعویٰ کیا جاتا رہا کہ مقتدر حکام مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کی لیڈران کا لہجہ قدرے سخت رہا۔ پھر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا، سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، پہلے تو انہوں نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ انہیں گمان تھا کہ شاید قومی ادارے سیاسی معاملات میں مداخلت کر کے ان کے خلاف پیش ہونے والی تحریک کو ناکام بنا دیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور صاف صاف پیغام دیا گیا کہ سیاست اداروں کا کام نہیں‘ انہیں سیاسی معاملات میں نیوٹرل ہی رہنے دیا جائے اور بلاوجہ سیاسی معاملات میں ملوث نہ کیا جائے۔ آخرکار اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہو گئیں، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں نہ صرف اتحادی بلکہ اپنی ہی پارٹی کے کئی اراکین بھی ساتھ چھوڑ گئے اور انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ سب کچھ کپتان کے لیے غیر متوقع تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ادارے انہیں بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا بھی کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں لیکن اداروں نے اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ سٹیج تھی جو مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے مفید اور پی ٹی آئی کے لیے بظاہر بالکل الٹ تھی۔ اس کے بعد (ن) لیگ، پی پی پی اور تمام اتحادی جماعتیں شانہ بشانہ ایک جانب کھڑی ہو گئیں اور عمران خان نے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ نواز لیگ نے اپنے بیانیے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کو پس پشت ڈال دیا جبکہ عمران خان کو عوامی عدالت میں جانے کے لیے ایک ایسا ہی بیانیہ درکار تھا کیونکہ اپنے دورِ اقتدار میں مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوامی مسائل کی وجہ سے انہیں عوام کی ناراضی کا سامنا تھا، لہٰذا ان کی جانب سے دو بیانیے سامنے آئے، ایک تو 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ایک خط لہرا کر انہوں نے الزام لگایاکہ امریکہ نے سائفر کے ذریعے مبینہ طور پر سازش کرکے انہیں اقتدار سے الگ کیا ہے اور ان کے سیاسی مخالفین (موجودہ حکمران اتحاد) مبینہ سازش کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کا نعرہ تراشا جسے سوشل میڈیا پر بڑی پذیرائی ملی اور انہوں نے چند ماہ تک کافی شدو مد سے یہ نعرہ بلند کیا۔ دوسری جانب انہیں قومی اداروں کا نیوٹرل ہونا اور سیاسی معاملات سے ان کا دور رہنا ایک آنکھ نہ بھایا، جس کے سبب انہوں نے ''نیوٹرلز‘‘ کے لفظ کو طعنہ بنا کر قومی اداروں کو متنازع بنانے کی مقدور بھر سعی کی۔ ساتھ ہی بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے وہ معاملات کو سلجھانے کے لیے بھی کوشاں رہے کہ شاید ان کے مخالفین کو آئوٹ قرار دے دیا جائے‘ وہ انگلی جو 2014ء میں نہیں اٹھی تھی‘ اب اٹھ جائے۔ اس حوالے سے آخری حربے کے طور پر انہوں نے 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز بھی کیا جس نے طے شدہ پروگرام کے مطابق چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ کپتان کو امید تھی کہ شاید ان کی کال پر لاکھوں لوگوں کا سمندر امڈ آئے گا اور حکمران اتحاد ان کے مطالبات تسلیم کرنے پرمجبور ہوجائے گا لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہو سکیں اور لاہور شہر سے نکلنے کے بعد لانگ مارچ قدرے سکڑگیا جو ابھی تک اسلام آباد نہیں پہنچ پایا ہے۔ گو کہ اس دوران وزیرآباد میں فائرنگ کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا جس میں عمران خان زخمی ہو گئے اور لانگ مارچ چند دن معطل رہا۔
کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں اور حالات و واقعات انسان کو سب سے بہتر سبق سکھاتے ہیں۔ شاید خان صاحب پر اب آہستہ آہستہ حالات و واقعات نے بہت کچھ آشکار کر دیا ہے جس کے بعد وہ اپنے دونوں بیانیے واپس لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پہلے وہ امریکی سازش والے بیانیے سے پیچھے ہٹے اور کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں لیکن برابری کی سطح پر۔ اس کے بعد انہوں نے قومی اداروں کے حوالے سے بھی بیانیہ تبدیل کر دیا جو دیر آید درست آید کے مترادف ہے۔ لانگ مارچ کی ابتدا میں پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے ایک اہم تقرری کو بھی متنازع بنانے اور اپنا فیڈبیک دینے کی کوشش کی گئی لیکن اب سابق وزیراعظم دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جو بھی آئے‘ انہیں کوئی مسئلہ نہیں، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ تقرری میرٹ پر ہو۔ کوئی انہیں بتائے کہ جو افسر اس مقام تک پہنچتا ہے‘ وہ سو فیصد میرٹ پر ہی ترقی پاتا ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اس تقرری میں کسی مرحلے پر میرٹ نظر انداز ہو جائے۔ ایک بات اب بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب حکمران اتحاد خوش اسلوبی کے ساتھ کام کر رہا ہے‘ اپوزیشن بھی سازش، نیوٹرلز اور تعیناتی کے معاملے پر پیچھے ہٹ چکی ہے، کپتان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن میں انہیں کوئی جلدی نہیں‘ سال بعد بھی وہ جیت جائیں گے تو پھر یہ سیاستدان اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے قومی معاملات کو سلجھاتے کیوں نہیں؟ یہ آخر چاہتے کیا ہیں؟ ملکی معیشت کو سدھارنے کی سعی کیوں نہیں کرتے؟ اہم قومی معاملات افہام و تفہیم کے ساتھ حل کر کے عوام کو ریلیف فراہم کیوں نہیں کرتے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved