بیعت کا مادّہ یعنی حروفِ اصلی ''ب ی ع‘‘ ہے، ''بیع‘‘ کے حقیقی معنی ہیں: ''بیچنا‘‘ اور اس کی ضد کا مادّہ یعنی حروفِ اصلی ''ش ر ی‘‘ ہے اور ''شراء اور شَریً‘‘ کے معنی ہیں: ''خریدنا‘‘، لیکن یہ دونوں لفظ (بیع و شراء) متضاد معنی میں آتے ہیں؛ یعنی ان کے معنی ہیں: ''خرید و فروخت‘‘، اسی لیے فقہ کی کتابوں میں ''کِتَابُ الْبُیُوْع (بَیْع کی جمع)‘‘ میں صرف بیچنے یا خریدنے کے مسائل نہیں ہوتے، بلکہ دونوں کے مسائل ہوتے ہیں، کیونکہ بیع و شراء کے لیے دوفریق کا ہونا ضروری ہے۔ ''بَاعَ‘‘ مجرّد سے آئے تو اس کے معنی ہیں: ''بیچنا‘‘ اور بابِ افتعال سے ''اِبْتَاعَ‘‘ کے معنی ہیں: ''خریدنا‘‘۔ اس کے برعکس ''شِرَاء‘‘ مجرّد سے آئے تو اس کے معنی ہیں: ''بیچنا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے بدلے میں اپنی جان کو فروخت کر دیتا ہے (یَشْرِیْ)‘‘ (البقرہ: 207) (2) ''اور برادرانِ یوسف نے اُنہیں معمولی قیمت کے چند سکوں کے عوض بیچ دیا (شَرَوْہُ) اور انہیں اُن میں کوئی دلچسپی نہ تھی‘‘ (یوسف: 20)۔
''شِرَاء‘‘ بابِ افتعال سے ''اِشْتِرَاء‘‘ آئے تو اس کے معنی ہیں: ''خریدنا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ نے ایمان والوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے (اِشْتَریٰ)، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، (یا تو اللہ کے دشمنوں کو) قتل کرتے ہیں (یا خود راہِ حق میں) شہید ہو جاتے ہیں، اس پر تورات، انجیل اور قرآن میں (اللہ کا) سچا وعدہ ہے اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ وفا کرنے والا ہو، سو تم اس سودے پر خوش ہو جائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘ (التوبہ: 111)۔ الغرض ایک ہی مادّے سے ''شِرَاء‘‘بیچنے کے معنی میں ہے اور اسی مادّے سے ''اِشْتریٰ‘‘ خریدنے کے معنی میں ہے۔
یہ تمہیدی کلمات ہم نے اس لیے لکھے ہیں کہ ایمان بھی بندے کا اللہ تعالیٰ سے ایک پیمانِ وفا ہے، ایک میثاق ہے، ایک عہد ہے۔ اس کو شریعت میں ''بیعت‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ گویا ایمان لانے والا اللہ تعالیٰ سے ایک عقد کرتا ہے، ایک پیمانِ وفا باندھتا ہے اور اپنی جان و مال اُس کی رضا کے تابع کر دیتا ہے، یہ سودا عہدِ نبوت میں رسول اللہﷺ کے واسطے سے ہوتا تھا۔ عہدِ رسالت مآبﷺ میں ہمیں کئی بیعتیں ملتی ہیں: ایک ''بیعت علی الاسلام‘‘، جو صحابۂ کرام اسلام قبول کرتے وقت کرتے تھے۔ دوسری ''بیعت علی الھجرۃ‘‘ جو صحابۂ کرام نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر مکہ سے مدینہ کی جانب ترکِ وطن کے لیے کی تھی۔ تیسری ''بیعت علی الجہاد‘‘ جو جہاد کے موقع پر کی تھی اور ایک ''بیعت اطاعتِ معروف اور ترکِ منکَرات و محرَّمات‘‘ کے لیے تھی۔ ذیل میں ہم بالترتیب اُن کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:
''حضرت عمرو بن عاصؓ قریب المرگ تھے، وہ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف موڑ کر روئے جا رہے تھے، اُن کے بیٹے عبداللہ نے کہا: ابا جان! آپ کو اللہ کے رسول نے کئی بشارتیں دی ہیں، وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ''ہمارا سب سے بڑا اثاثہ توحید و رسالت کی شہادت ہے‘‘، مجھ پر تین دور گزرے ہیں: ایک دور وہ تھا کہ میری نظر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ نہیں تھا اور میری خواہش تھی کہ (العیاذ باللہ!) میں اُن پر قابو پائوں تو انہیں قتل کر دوں، اگر اسی حال میں میری موت واقع ہو جاتی تو میں جہنمی ہوتا۔ پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں۔ رسول اللہﷺ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عمرو! کیا ہوا (یعنی کیا ارادہ بدل لیا ہے)، انہوں نے عرض کی: (بیعت کے لیے) میری ایک شرط ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟ انہوں نے عرض کی: مجھے (گزشتہ گناہوں کی) بخشش مل جائے، آپﷺ نے فرمایا: تجھے معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے... آگے چل کر وہ بیان کرتے ہیں: ''(بیعت کے بعد) رسول اللہﷺ سے زیادہ میرے لیے کوئی محبوب نہیں تھا اور آپﷺ سے بڑھ کر میری نگاہ میں کسی کی قدر و منزلت نہیں تھی، (آپ کے رعب کا عالَم یہ تھا کہ) مجھ میں آنکھیں بھر کر آپﷺ کا دیدار کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی‘‘۔ اگر کوئی مجھ سے کہتا: ''آپﷺ کا سراپا بیان کرو‘‘ تو میں بیان نہ کر پاتا، کیونکہ میں نے آنکھ بھر کر آپﷺ کو دیکھا بھی نہ تھا‘‘ (مسلم: 121)۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ''ہم بیعت کرنے لگے تو اسعد بن زُرارہ نے، جو میرے علاوہ سّتر اشخاص میں سے سب سے چھوٹے تھے‘ میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: یثرِب والو! ذرا رکو! ہم اپنی سواریاں چلا کر یہ جانتے ہوئے یہاں آئے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کا ساتھ دینا پورے عرب سے ٹکرانا ہے (دوسری روایت میں ہے: باطل کی ہر سرخ و سفید طاقت سے ٹکرانا ہے)، اس کی نوبت آئی تو دین کی خاطر اپنوں کو بھی قتل کرنا ہو گا اور تلواروں کے آگے سینہ سِپر ہونا ہو گا، سو اگر تم پورے عالَمِ عرب سے ٹکرانے کے لیے تیار ہو تو بیعت کرو، تمہارا اجر اللہ کے ذمے ہے اور اگر تم اپنے اندر اس کی ہمت نہیں پاتے تو چھوڑ دو، تم عنداللہ معذور ہو (یعنی بیعت کر کے توڑنا اچھی بات نہیں ہے)، ہم نے کہا: اسعد بن زرارہ! ہاتھ بڑھائو، واللہ! ہم اس عہد پر قائم رہیں گے، ہم اس سے دست بردار نہیں ہوں گے اور ہمیں جنّت ملے گی۔ اس موقع پر اہلِ یثرِب نے کہا: اگر اللہ نے آپ کو غلبہ دے دیا تو کیا آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس چلے جائیں گے؟، رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا: ہمارا اور تمہارا خون، ہماری تمہاری فتح و شکست، ہمارا اور تمہارا عہد، ہماری اور تمہاری حرمت ایک ہو گی، میں تم سے ہوں گا اور تم مجھ سے ہو گے، جس سے تمہاری جنگ ہو گی، اُس سے ہماری بھی جنگ ہوگی اور جس سے تمہاری صلح ہو گی، اُس سے ہماری بھی صلح ہو گی، یعنی مکہ فتح ہونے کے بعد بھی میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَادْ، ج:3 ، ص:203 تا 204، ملخصا)۔ چنانچہ 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا لیکن رسول اللہﷺ مدینۂ منورہ ہی میں رہے اور آج بھی اہلِ مدینہ کے درمیان ہیں اور قیامت کے دن بھی وہیں سے اٹھائے جائیں گے۔
اس کے بعد بیعت علی الجھاد کا مرحلہ آیا؛ چنانچہ صحابۂ کرام نے 6 ہجری میں ایک درخت کے نیچے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر قصاصِ عثمان کے لیے بیعت کی تھی، اس بیعت کے موقع پر صحابہ نے پوچھا: (یا رسول اللہﷺ!) ہماری بیعت کی شرائط کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: تم نے ہر اچھے برے وقت میں میرا حکم ماننا ہے اور ہر حال میں اپنا مال (راہِ حق میں) خرچ کرنا ہے، معروف کا حکم دینا ہے اور مُنکَر سے روکنا ہے، کسی کی ملامت کی پروا کیے بغیر حق بات کہنی ہے۔ اگر میں تمہارے پاس یثرِب آ گیا تو جس طرح تم اپنی جان اور آل اولاد کا دفاع کرتے ہو، ویسے ہی میرا بھی دفاع کرو گے اور تمہیں اس کے عوض جنّت ملے گی‘‘۔ اس بیعت کا تذکرہ قرآنِ مجید میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے رسول مکرّم!) بے شک اللہ اُن مومنوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو اللہ کو معلوم تھا جو اُن کے دلوں میں ہے، پس اللہ نے اُن کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی اور عنقریب آنے والی فتح کا انعام دیا اور ان کو بہت سی غنیمتیں عطا فرمائیں جن کو وہ حاصل کریں گے اور اللہ بہت غلبے والا، بہت حکمت والا ہے‘‘ (الفتح: 19)۔ نیز فرمایا: ''بے شک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اُن کے ہاتھوں پر اللہ کا ید ہے‘‘ (الفتح: 10)، یعنی بظاہر یہ دستِ مصطفیﷺ ہے، لیکن درحقیقت یہ ''ید اللہ‘‘ ہے، کیونکہ یہ بیعت رسول اللہﷺ کے توسط سے اللہ کی ذات سے ہی ہو رہی تھی۔
بیعت علی الجھاد کی بابت حضرت سلمہ بن اَکوَعؓ بیان کرتے ہیں: ''میں نے نبیﷺ کی بیعت کی اور پلٹ کر درخت کی اوٹ میں آیا، پھر جب لوگ چھَٹ گئے، تو نبیﷺ نے فرمایا: ابن اکوع! تم بیعت نہیں کرو گے، میں نے عرض کی: حضور! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: پھرکر لو، سو میں نے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی بیان کرتے ہیں:) میں نے سلمہ بن اکوعؓ سے پوچھا: سلمہ! تم نے کس چیز پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر بیعت کی تھی‘‘ (بخاری:2960)‘‘، اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے بیان کیا ہے:
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
قرآنِ کریم میں بیعتِ مومنات کا بھی ذکر ہے۔ فرمایا: ''اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں ان شرائط پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھ اور پائوں کے درمیان (سے متعلق) کوئی بہتان گھڑ کر لائیں گی، وہ کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی، تو انہیں بیعت فرما لیا کریں اور اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (الممتحنہ: 12)۔
مقامِ غور ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ تعلیم دے رہی ہے کہ بیعت محض کوئی رسمی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عقد ہے، پیمان ہے، منشور و دستورِ وفا ہے اور مومنات صحابیات پر بھی ان کی پابندی لازم ہے اور ان سے باقاعدہ اس کا اقرار لیا جا رہا ہے۔ یہ عقیدہ و عمل کا جامع منشورہے۔ روایات میں ہے: صحابیات کی بیعت کے لیے حضورﷺ اُن سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے، بلکہ یا تو چادر اُن کی طرف بڑھا دیتے تھے جس کا ایک کنارہ رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک میں ہوتا اور دوسرا کنارہ بیعت کرنے والی خاتون کے ہاتھ میں ہوتا یا ایک ٹب میں پانی ڈال دیتے اور ایک کنارے پر رسول اللہﷺ اپنا دست مبارک پانی میں ڈالتے اور دوسرے کنارے پر بیعت کرنے والی خاتون اس میں اپنا ہاتھ ڈالتی اور اس طرح بیعت قائم ہو جاتی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved