ہر دور میں دنیا انسانوں سے آباد رہی ہے۔ انسانوں کا روئے ارض پر موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ دنیا ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے۔ ہر عہد کو اُس کے حصے کی خرابیاں بھی ملی ہیں۔ یاد وہی رہتے ہیں جو خرابیوں کو مٹانے پر تُل جاتے ہیں اور اس معاملے میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
زہے نصیب کہ مُنی دَوے ہمارے احباب میں سے ہیں۔ آپ علم و فن کے دلدادہ ہیں اور احمد آباد (بھارت) سے گجراتی زبان میں ''وچار ولونو‘‘ کے نام سے ماہنامہ شائع کرتے ہیں۔ اس ماہنامے کے شمارے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔ ''وچار ولونو‘‘ کے ایک شمارے میں کشور مکوانا کا مضمون شائع ہوا تھا جس میں اُنہوں نے معلم کی اہمیت کا ذکر کیا تھا۔ آئیے، ذرا اِس مضمون کی مدد سے معلم کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔
کشور مکوانا نے لکھا کہ کسی بھی ماحول میں حقیقی اور معقول تبدیلی یقینی بنانے میں اہم ترین کردار معلم کا ہوتا ہے۔ وہی نئی نسل کو آنے والے وقت کے لیے ڈھنگ سے تیار کرتا ہے۔ معلم اگر اپنا فرض یاد رکھے تو معاشرہ درست سمت میں آگے بڑھتا ہے۔ کشور مکوانا نے قدیم بھارت کے عظیم دانشور چانکیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ معلم عام آدمی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ نکتہ غور طلب ہے۔ معلم کو نئی نسل کی تیاری میں اہم ترین کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اُس کا غیر معمولی ہونا لازم ہے۔ معمولی آدمی صرف معمولی آدمی ہوتا ہے، معلم نہیں ہوسکتا۔ معلم ہونے کی انتہائی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان غیر معمولی ہو تاکہ عام سطح سے بلند ہوکر کچھ کہہ سکے، کچھ دے سکے۔ کشور مکوانا نے اپنے مضمون میں امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا ہے۔ اس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے اپنے طلبہ کو ایک اسائنمنٹ دی۔ یہ اسائنمنٹ بھارت کے تجارتی دارالحکومت ممبئی کی ایک کچی آبادی میں رہنے والے 12 سے 16 سال تک کے لڑکوں کے حالات کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کرنے سے متعلق تھی کہ اُن کا مستقبل کیسا ہوگا، وہ ڈھنگ سے جی سکیں گے یا نہیں۔ اس تحقیق میں 200 لڑکوں کے اطوار، معمولات اور خاندانی حالات کا جائزہ لیا گیا۔ یہ دیکھا گیا کہ کون نشے کا عادی ہے، چوری چکاری میں مبتلا ہے اور جھگڑالو مزاج کا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ کس کے والدین کس مزاج کے ہیں۔ مثلاً کس کا باپ شرابی ہے، کس کا جواری۔ کس کا باپ ڈھنگ سے کام کرتا ہے یا نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔ 10 ماہ تک ان 200 لڑکوں کے معمولات، تعلیم، گھریلو اور بستی کے حالات کے تجزیے اور متعلقہ لڑکوں سے سیر حاصل گفتگو کے بعد اسائنمنٹ والے طلبہ اس نتیجے پر پہنچے کہ 95 فیصد لڑکے جرائم کی دنیا کو اپنائیں گے، 90 فیصد لڑکے اپنا بیشتر وقت جیل میں گزاریں گے اور صرف 5 فیصد لڑکے حقیقی نارمل زندگی بسر کرسکیں گے یعنی کچھ کر پائیں گے۔ تحقیق مکمل ہوئی۔ نتائج جان ہاپکنز یونیورسٹی میں جمع کرادیے گئے اور بات آئی گئی ہوگئی۔
25 سال بعد جان ہاپکنز یونیورسٹی نے ایک بار پھر اس معاملے کو اٹھایا۔ اب یہ دیکھنا تھا کہ ممبئی کی ایک کچی آبادی کے 200 لڑکوں کے حوالے سے جو تحقیق کی گئی تھی وہ کس حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ جن لڑکوں کے بارے میں تحقیق کی گئی تھی اُن کے تمام کوائف جمع کرلیے گئے تھے۔ طلبہ کے ایک گروپ نے ممبئی پہنچ کر اُنہیں تلاش کیا۔ اُن میں سے بیشتر ممبئی ہی میں تھے۔ اُن تک پہنچنا کچھ زیادہ دشوار ثابت نہ ہوا۔ چند ایک کا انتقال ہوچکا تھا۔ بہر کیف‘ جب اُن لڑکوں سے جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ٹیم ملی تو حیران رہ گئی۔ جن 180 طلبہ سے ملاقات ممکن ہوئی اُنہیں دیکھ کر جاننے کو ملا کہ 200 میں سے صرف چار لڑکے جیل گئے تھے اور وہ بھی بہت معمولی قسم کے جرائم کی پاداش میں! جان ہاپکنز یونیورسٹی کے طلبہ اور اُن کے انچارج پروفیسرز کے لیے یہ بات بہت حیرت انگیز تھی کیونکہ 25 سال پہلے جن 200 لڑکوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا گیا تھا وہ ایسی بستی میں رہتے تھے جو جرائم کے گڑھ کا درجہ رکھتی تھی۔ ایسے ماحول میں انسان صرف برباد ہوتا ہے، آباد کبھی نہیں ہو پاتا۔ طلبہ اور پروفیسرز‘ دونوں ہی کی سمجھ میں نہ آیا کہ 25 سال پہلے کی تحقیق کے نتائج سے بالکل تعلق نہ رکھنے والے بلکہ بالکل برعکس نتائج کیسے برآمد ہوئے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے طلبہ اور پروفیسرز نے بہت سوچا، تحقیق کے ہر پہلو کا پوری توجہ سے جائزہ لیا مگر مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ تھک ہار کر اُنہوں نے متعلقہ نوجوانوں سے (جو اب پختہ عمر ہوچکے تھے) پوچھا کہ آخر یہ کمال ہوا کیسے۔ اُن سب نے ایک ہی بات کہی ‘ یہ کہ اگر اُن کی زندگی میں ایک انسان دوست معلمہ نہ آئی ہوتی تو وہ بھی برباد ہوچکے ہوتے۔ سرکاری سکول کی یہ اُستانی اُس کچی آبادی کے بچوں کو دل و جان سے پڑھاتی تھی۔ پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ اُن کی اخلاقی تربیت بھی کرتی تھی۔ بچے اُس سے بہت کچھ سیکھتے تھے اور اپنی زندگی کا ڈھانچا بدلتے تھے۔ اب جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ٹیم نے اُستانی صاحبہ سے ملنے کا سوچا۔ وہ تو کب کی ریٹائر ہوچکی تھیں اور اب خاصی معمر تھیں۔ خیر‘ اُنہیں ڈھونڈ نکالا گیا۔ ٹیم اُن تک پہنچی اور جاننا چاہا کہ آخر انہوں نے ایسا کیا کیا تھا کہ اتنے سارے بچے بگڑنے سے محفوظ رہے اور معقول انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔ اُستانی جی نے پوری بات توجہ سے سُنی اور صرف ایک جملے میں سب کچھ بیان کردیا۔ ''میں تمام بچوں کو اپنی اولاد سمجھ کر پڑھاتی تھی اور اِس بات کا خیال رکھتی تھی کہ وہ کسی بُرے کام میں نہ پڑیں‘‘۔ دیکھا آپ نے؟ حقیقی معلم وہ ہے جو اپنے طلبہ کو اولاد سمجھے اور اُنہیں بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے پر توجہ دے۔ ایک معلم کی اصل ذمہ داری طلبہ میں بھرپور اعتماد پیدا کرنا ہے۔ بھرپور اعتماد یعنی زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی طرف لے جانے والی راہ پر گامزن کرنے والی خوبی۔
ترقی یافتہ معاشرے ابتدائی تعلیم پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں کیونکہ اُسی زمانے میں بچے کا ذہن مستقبل کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے جڑے ہوئے اساتذہ کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہوتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اِن اساتذہ کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے ابتدائی تعلیم کے اداروں میں بچوں کو پڑھانے سے زیادہ اُن میں اعتماد پیدا کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ بچوں کے رجحانات کا اندازہ لگاکر اُنہیں موزوں ماحول فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ مستقبل کے حوالے سے اپنا ذہن تیار کرسکیں۔
ہمارے ہاں بھی ابتدائی برسوں میں اساتذہ اپنے فرائض پہچانتے تھے اور بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب نجی سکول کم تھے اور نجی ٹیوشن کا بھی رواج نہ تھا۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اضافی وقت دے کر بھی پڑھاتے تھے۔ کراچی کے علاوہ پنجاب میں بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ آٹھویں، نویں اور دسویں کے امتحانات نزدیک آنے پر طلبہ کو گھر بلاکر اضافی طور پر پڑھاتے تھے اور اُنہیں بورڈ کے پرچوں کے حوالے سے بھرپور ذہنی تیاری کراتے تھے۔ قدم قدم پر اُن کی رہنمائی کی جاتی تھی تاکہ وہ گھبرائے بغیر اس اہم مرحلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ جب کمرشل اِزم نے پورے معاشرے میں پیر پسارنا شروع کیے تو تعلیم و تعلم کا شعبہ بھی اِس کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہا۔ آج پھر ایسے اساتذہ کی اشد ضرورت ہے جو طلبہ کو اپنی اولاد کا درجہ دیں، اُن کی مشکلات دور کریں، اُنہیں محض امتحان کے لیے نہیں بلکہ پوری زندگی کے لیے بھرپور انداز سے تیار کریں۔ آج ہمارے معاشرے کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو فرق پیدا کرنا جانتے ہوں۔ فرق پیدا کرنا یعنی معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانا۔ اساتذہ کا اس حوالے سے کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اساتذہ ایمان دار اور محنتی ہوں تو طلبہ بھی یہ اوصاف اپناتے ہیں اور معیاری زندگی بسر کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ فرق پیدا کرنے کے معاملے میں اور بھی بہت سے لوگ اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر اساتذہ کا معاملہ سب سے مختلف اور بڑھ کر ہے۔ فیصلہ کن فرق تو وہی پیدا کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved